محلہ سسٹم کو قائم کرنے اور مساجد کو مرکز بنانے کی ضرورت

سیف الرحمٰن

چیف ایڈیٹر اِنصاف ٹائمس، بیورو چیف ملت ٹائمس 

انسانی سماج کی تشکیل گھروں اور خاندان کی شکل میں موجود چھوٹی چھوٹی یونٹس سے مل کر ہوتا ہے اور سماج کا عروج و زوال بھی انہیں چھوٹی چھوٹی یونٹس پر منحصر ہوتا ہے، سماج میں موجود یہ یونٹس جتنی زیادہ ایماندار و محنتی ہوگی سماج اتنی ہی ترقّی کرے گا اور سماج کے ان چھوٹی یونٹس میں جتنے تخریبی ذہن کے فیملی و خاندان ہونگے اُتنا ہی زوال سماج کو دیکھنا ہوگا! لہذٰا ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں مائیکرو سطح کی منصوبہ بندی،محلہ کمیٹی،بوتھ سطح کی منصوبہ بندی جیسے الفاظ عام ہے جو کہ ایوان اقتدار کی پالیسی سازی سے لےکر سیاسی اور سماجی تنظیموں تک کی منصوبہ بندی میں استمعال ہوتا ہے! خاص کر ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے جمہوری انتخابات میں انتخابی مہمات کیلئے پروفیشنل کمپنیوں کا کلچر آیا ہے تب سے وارڈ سطح اور محلہ سطح پر لوگوں کا نظریاتی و مقداری تجزیہ کرکے چھوٹی چھوٹی سطح پر انتخابی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے اور اس طرح سے ایک ایک ووٹ کو خاص سیاسی جماعت یا خاص سیاسی اُمیدوار کیلئے یقینی بنایا جاتا ہے! اسی طرح موجودہ زمانے میں کیڈر بیسڈ تنظیموں کا بھی ایک نظریہ ہے جس میں تنظیمیں دس – بيس افراد پر مشتمل ہزاروں چھوٹی چھوٹی یونٹس کی بُنیاد پر ایک منظّم سسٹم کے ساتھ قائم ہوتی ہے جس کی بڑی مثال ہمارے ملک ہند کی سب سے بڑی تنظیم آر.ایس.ایس ہے جو کہ انہیں چھوٹی چھوٹی یونٹس کی بُنیاد پر لاکھوں تربیت یافتہ ارکان تیار کرکے ایسی طاقت بنی کہ آج ملک کے سسٹم پر مکمل طور پر قابض نظر آتی ہے اور اسی بنیاد پر مُلک کی پوری فضا کو بدل چُکی ہے، اِسکی دوسری بڑی مثال دلتوں کی تحریکِ بام سیف ہے جو کہ آزادی کے بعد مُلک ہند میں دلت تحریکِ کی روح مانی جاتی ہے اور تیسری بڑی مثال مسلم قیادت والی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے جو کہ اسی سسٹم کی بنیاد پر بغیر رکن پارلیمنٹ و رکن اسمبلی کے کسی بھی مسئلہ کو قومی سطح پر بحث میں لے آنے میں کامیاب ہو جایا کرتی ہے اور اُسکے صدر کے ایک حکم پر چند گھنٹوں میں مُلک بھر میں سینکڑوں مقامات پر احتجاج منعقد ہوجایا کرتا ہے! ان کیڈر بیسڈ تنظیموں کی پوری بُنیاد محلّہ سطح کی چھوٹی چھوٹی یونٹس پر قائم ہے! اب اگر ہم بطور قوم کے غور کریں تو ایک بہت اہم موضوع ہمارے گفتگو میں ہمیشہ ہوتا ہے کہ ہماری مُسلم قوم میں منصوبہ سازی تو بہت ہوتی ہے اور تنظیمیں تو بہت بنی ہے لیکن کوئی بھی منصوبہ کامیاب کیوں نہیں ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں بہت سے اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں اور کیے جاتے ہیں مگر ایک اہم سبب  جو کہ سبھی  مانتے ہیں وہ یہ  ہیکہ ہمارے پاس زمینی سطح پر کام کیلئے کوئی سسٹم اور نیٹورک موجود نہیں ہے اور ہماری تنظیموں کے پاس منصوبوں کو زمین پر نافذ کرنے کیلئے افراد ہی موجود نہیں ہے، جب کہ اگر ہم اسلامی فکر کے ساتھ سونچيں اور دنیا کے عظیم ترین رہبر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی شکل میں مکمل ایک سسٹم ہمیں مہیا کرا دیا تھا جو کہ آج مائکرو سطح کی منصوبہ بندی کے نظریہ میں نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک طرف مسجد نبوی کی شکل میں ایک ایسے مرکز کا نمونہ پیش کیا جس میں کہ ایک طرف عبادت الٰہی ہوتا تھا تو وہیں دُوسری طرف مسلمانوں کی تذکیر،غیر مسلموں تک دعوت اسلام، جہاد في سبیل اللہ،زکوۃ کے جمع ہونے،غریبوں کو مدد، عدالتی کارروائیاں اور دیگر تمام سیاسی،سماجی اور معاشی معاملات کی منصوبہ بندی و اُس کا نفاذ بھی مسجد نبوی سے ہی ہوتا تھا،جنگوں میں گرفتار سردار کو بھی مسجدِ نبوی میں ہی باندھ کر رکھا جاتا اور اُن کے فیصلے بھی وہیں ہوتے تھے! ایسا نظام دینے کے ساتھ ہی اس نظام یعنی مسجد کے زیادہ سے زیادہ تعمیر کی ترغیب بھی دی گئی مطلب کہ ہر محلّہ میں محلّہ سطح کا مرکز بنانے کا مزاج دیا گیا ہے لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ “محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے اور ان میں خوشبو لگائی جائے” (سنن ابن ماجہ) مگر ساتھ ہی اس بات پر تنبیہ بھی کی گئی کہ مسجد کے قیام کے بعد اُس کے اصل مقصد کی جگہ اُس کو سجانے سنوارنے اور خوبصورت بنانے پر دھیان نہ لگا دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اپنی مساجد کو جب تم مزین اور  مصاحف کو خوبصورت بناؤگے تو پھر تم پر بربادی مسلط ہو جائےگی” (مصنف ابن ابی شیبہ)! اور اسی نظام کے مطابق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور اسکے بعد کے لمبے وقت تک عمل ہوتا رہا لیکِن دھیرے دھیرے باقی نظام زندگی کے ساتھ اسے بھی فراموش کردیا گیا! لیکن آج جب کہ ملت اسلامیہ خطرناک ترین دور میں زِندگی گزار رہی ہے کہ ایک طرف انسانی زندگی کے تمام محاذوں پر زوال کی گہری کھائی میں نظر آتی ہے، اُن کا جان و مال ہر وقت خطرے میں ہے تو وہیں ارتداد و مذہب بیزاری اور بے حیائی،نشہ اور زنا جیسے وبا بھی پورے معاشرے میں پھیل کر ان کو کھوکھلا کر رہے ہیں! تو ضرورت ہے کہ مسائل کے حل کے لئے ماہرین و قائدین کی طرف سے بتائے جانے والے  منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اور قوم کو تحفظ و ترقّی کی راہ پر لگانے کیلئے وقت رہتے ہی اس محلّہ سسٹم کو زندہ کیا جائے اور محلّہ کمیٹی کا کلچر عام کیا جائے جس کا مرکز مساجد کو بنانا عین مزاج شریعت ہوگا اور زیادہ مفید ہوگا ،اس محلّہ کمیٹی میں پورے محلّہ کی نمائندگی رکھی جائے و اسلام کے شورائی نظام کے مُطابق فیصلے لئے جائے اور لوگوں میں شورائی نظام کو ماننے کا مزاج پیدا کیا جائے ساتھ ہی اسلام میں احتساب اور ذمّہ داری کا جو نظام و مزاج ہے اُسے بھی نافذ کیا جائے، اس محلّہ کمیٹی کا مقصد ہو کہ مسجد کو عبادت الٰہی کی جگہ بنانے کے ساتھ ہی پورے محلّہ کے فکری تربیت و پورے محلہ کے تحفظ و تقویت کا مرکز بنایا جائے (اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر شخص خود کو ذمّہ دار سمجھے کیونکہ ہر شخص کا مفاد پورے محلّے سے جڑا ہے کہ اگر ایک گھر میں آگ لگی اور اُسے بجھایا نہ گیا تو پورا محلّہ چپیٹ میں آجاتا ہے تو ویسے ہی اگر محلّہ کی ایک لڑکی یا ایک لڑکا خراب ہوا تو ہر گھر کی بیٹی و ہر گھر کا بیٹا خراب ہو جائیگا چہ جائیکہ شاید آپ اس خوش فہمی میں رہے کہ آپکی بیٹی و آپ کا بیٹا اس سے محفوظ ہے لیکن حقیقت میں آپ کی اولاد بھی وہ سب کر رہی ہوگی جوکہ دوسروں کے یہاں دیکھ کر آپ اُن پر لعنت کر رہے ہونگے، اسی طرح اگر دشمنوں نے آپ کے محلّہ پر حملہ کر دیا تو آپ کا گھر اور آپ کے مال اور آپ کے گھر کی قیمتی اولاد بھی اُس میں ضائع ہو جائیگی جسے آپکا مونچھ و آپکی خود غرضی بچا نہ سکے گی)

ایسی بننے والی کمیٹی مندرجہ ذیل کاموں پر دھیان مرکوز کریں!

۱ ۔ امام و مؤذن کا وقار بحال کریں اور اس کیلئے ان دونوں کے ساتھ مزدوروں والا اپنا رویہ بدلا جائے ساتھ ہی ان کے سیلری کو با وقار سیلری بنایا جائے تاکہ وہ بھی اپنے گھر کے انتظامات اُسی طرح بحسن و خوبی انجام دے سکے جیسے کہ آپ اور ہم اپنی فیملی کے انتظامات کو انجام دیتے ہیں، مسجد کے اندر دو فیملی کوارٹر کی یقینی تعمیر کی جائے جو کہ امام و مؤذن کے حوالے ہو اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ کر فیملی کی تربیت بھی کر سکے اور پھر پُر سکون ہوکر اپنے تمام سماجی فرائض کو ادا کر سکے (اگر ایسا کیا گیا تو یقیناً با صلاحیت فارغین مدارس اس ذمّہ داری کیلئے آگے آنے لگیں گے جو کہ آپ کیلئے بہت ہی زیادہ مفید ثابت ہوگا)

 ۲ ۔ مسجد میں لائبریری کا انتظام کیا جائے جس لائبریری میں وہ تمام کتابیں مہیّا ہو اور ایسے اخبارات و میگزین جاری کئے جائے جس سے فائدہ اٹھا کر امام مسجد آپ تک زندگی کے تمام نکات کو لےکر، ہر طرح کے حالات میں صحیح خدائی رہنمائی پہونچا سکے جس سے کہ آپ کی ذاتی و سماجی زندگی صحیح رخ پر رہے ، نہ کہ وہی رٹی رٹائی رواجی تقریریں سننے کو ملے جو کہ مندر کے پوجا ارچنا کے گیت کی طرح بن چُکی ہے، اس کے علاوہ اس لائبریری میں وہ تمام کتاب، اخبارات و رسائل رکھے جائیں جو کہ محلّہ بھر کے مرد،جوان اور خواتین کو علمی و فکری مواد فراہم کر سکے جس کےلئے پورے محلے کے اندر اسکا ذوق بھی پیدا کیا جائے ،اس لائبریری میں ایسی کتابیں و نوٹس بھی رکھے جائیں جو کہ طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرے اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں مدد فراہم کر سکے۔

۰۳ ۔ مکتب کے قدیم نظام کو زندہ کیا جائے اور امام و موذن کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ وہ مکتب کو چلا سکے جس میں ہر گھر کا بچّہ یقینی طور پر شامل ہو اور اس مکتب میں بغدادی قاعدہ سے لےکر قرآن تک کی مکمل تعلیم کے ساتھ ہی اسکول کی پانچویں کلاس تک کی تعلیم کا ایسا انتظام ہو کہ بچوں پر بوجھ ڈالے بغیر اُنکے اندر دونوں کی استعداد پیدا ہو جائے، ساتھ ہی کوشش ہو کہ اس مکتب میں آنے والے بچوں کو امام و موذن اور محلّے کے بوڑھے مل کر دینی و سماجی تربیت بھی فراہم کرے۔

۰۴ ۔ تعلیمی گائیڈنس اور کونسلنگ کا نظام بنے جس کے تحت ہر سال چھوٹے بچوں کے بیچ تعلیمی ذوق و بڑے خواب دینے والے دلچسپی پر مبنی پروگرم منعقد کیے جائے، ساتھ ہی ہر سال ہائی اسکول کے طلباء و طالبات و کالج کے طلباء و طالبات کیلئے کیریئر کونسلنگ و گائیڈنس پروگرم منقد ہو جس میں ٹیکنیکل کورسز،سول سروس کے کورسز،میڈیکل اور سائنس کے دوسرے کورسز،سوشل سائنس کے کورسز ، لاء و جوڈیسيری اور جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن وغیرہ میں جانے کا شوق بچوں میں پیدا کیا جائے اور اس کے اسکوپ و چیلنجز بھی اُنکے سامنے رکھ کر تیاری کا مکمل طریقہ کار اُنکے سامنے رکھا جائے،ضرورت کے مُطابق نوٹس وغیرہ بھی فراہم کی جائے ،اگر ضرورت ہو تو محلّہ میں تیاری کےلئے کوچنگ کا قیام بھی ہو! اس طرح کے سبھی پروگرام میں سمجھاتے وقت قرآن و حدیث کا حوالہ بھی دیا جائے تاکہ اُن بچوں کا بننے والا مقصد روحانی اثرات سے بھی مزین ہو اور اُن کو قومی خدمت کی فکر بھی فراہم کی جائے تاکہ اعلیٰ مقصد کے ساتھ حصول علم کیلئے بہتر محنت کر سکے ۔

۰۵ ۔ معاشی ترقی کے لئے معاشی گائیڈنس بھی فراہم ہو جس میں ایسے پروگرم منعقد کیے جائیں جو ہر بڑے و چھوٹے تجارت سے متعلق بیداری پیدا کرے اور یہ مزاج پیدا کیا جائے کہ مُلک سے باہر جاکر یا دور دراز جاکر مزدوری کرنے کے بجائے آبائی علاقے میں ہی تجارت کے صحیح طریقے کے مطابق اور شرعی رہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی استطاعت کے مُطابق تجارت کرے اور نئے زمانے کے مُطابق تجارت کی مکمل رہنمائی فراہم کی جائے!  زراعت کے شعبے کی طرف بھی رغبت دلائی جائے اور دور جدید کے مُطابق اِسکی رہنمائی بھی فراہم کی جائے! مائیکرو تجارت کے نظریہ کے مطابق گھروں کی سطح پر تجارت کا ماحول محلّے میں بنایا جائے  جِس میں خواتین کو سلائی، کڑھائی، موم بتی بنانے، پاپڑ بنانے جیسے ایسے کاموں کی تربیت دی جائے جسے خواتین گھروں میں انجام دے سکتی ہے تاکہ وہ خود کام کرکے اپنے گھر کے معاشی مسائل کے حل میں کردار نبھا سکے اور خود بھی معاشی طور پر مضبوط بن سکے ،اس کیلئے چند مردبھی ایسے ہو سکتے جو کہ خواتین کے بنائے سامان کو مناسب قیمت پر خرید کر مارکیٹ تک پہونچانے کا کام کرے۔

۰۶ ۔ یہ کمیٹی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آج مسلم لڑکیاں تیزی کے ساتھ ارتداد کا شکار ہو رہی ہے اور یہ مانتے ہوۓ کہ شریعت و جنت پر خواتین کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا، مساجد کے اندر خواتین کے لئے جمعہ و عیدین کا انتظام کرے تاکہ وہ بھی جمعہ اور عیدین کے خطبہ کو سن کر دین کی قربت، دین سے لگاؤ اور دینی فکر حاصل کر سکے اور مسجد میں خواتین کے ذریعے خواتین کے تربیتی پروگرام و دینی ڈسکشن کے پروگرام بھی اس کمیٹی کے تحت منقد کئے جائیں اور جن فتنوں کے خطرے کا ذکر ایسے مشوروں کے جواب میں کیا جاتا ہے اُس سے بچاؤ کے راستے اختیار کئے جائیں نہ کہ اپنے اس خوف کی وجہ سے خواتین کو خطبہ و تربیت دین سے ہی محروم کردیا جائے! ان سبھی کاموں کےلئے مسجد میں خاص مقام کی تعمیر کی جائے جس کہ انتظامات خواتین کے ہاتھوں میں ہو۔

۰۷ ۔ فیملی کونسلنگ اور پری میرج کونسلنگ سسٹم پر یہ کمیٹی کام کرے جس میں فیملیز کے ایسی پروگرم منعقد ہو جس میں فیملی میں آنے والے مسائل او اُس کو ڈیل کرنے کے صحیح طریقوں،آپسی رشتے،گھر میں دینی فکر پیدا کرنے،زندگی میں موجود و ممکنہ چیلنجز و اُس سے نپٹنے کے طریقوں پر کھل کر بات کی جائے! نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے پری میرج کونسلنگ پروگرام ہو جس میں اُن سے شادی کی اہمیت و ضرورت،بیوی و شوہر کے رشتے کی اہمیت و اُس کو بہتر سے بہتر رکھنے کے طریقوں،بچوں کی تربیت،سسرالی رشتہِ داروں سے رویہ اور آنے والے چیلنجز پر بالتفصیل گُفتگو کی جائے تاکہ آج جو مسلم گھرانے اندر سے ٹوٹ چکے ہیں وہ بہتر ہو سکے اور آنے والی نسل کے صالح ہونے کی اُمیدِ کی جاسکے

۰۸ ۔ تحفظ کیلئے قانونی بیداری،جسمانی تربیت اور دیگر انتظامات پر بھی یہ کمیٹی کام کرے کہ سال میں ایک بار ایسے ورک شاپ منقد کیے جائیں جس میں وکلاء کو بلاکر پورے محلّہ کے لوگوں کو ایف. آئی. آر کے طریقوں سے لےکر پولس و ایجنسیوں کے چھاپوں سے ڈیل کرنے اور فسادات کے وقت قانونی کاروائیوں کے طریقوں تک کی تربیت فراہم کی جائے! نوجوان لڑکے، لڑکیوں میں صحت سے متعلق بیداری پیدا کی جائے اور اُن کو کراٹا سمیت اپنے دفاع کے دیگر ضروری فن سیکھنے کی طرف راغب کیا جائے و اُسکی مشقوں اور مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جائے! محلّہ کے دفاع کیلئے ضروری مقامات پر سی.سی. ٹی وی کیمروں کے لگانے کے ساتھ ہی دیگر ضروری انتظامات بھی ہمیشہ رکھے جائیں ۔

۰۹ ۔ حکومتی جاب اور حکومتی پالیسیوں پر امام و موذن و محلّہ کے ذمّہ داران نظر رکھے اور اس کی خبر سبھی تک پہونچا کر اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے گائیڈ کیا کریں ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر ایسی پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے،جاب کیلئے درخواست دینے و حکومتی دستاویز بنانے کیلئے مسجد کے تحت ہی ہیلپ ڈیسک بھی لگائے جائے

۱۰ ۔ محلہ سطح پر بیت المال کا قیام ہو جو کہ زکوٰۃ،فطرے اور صدقات سمیت دیگر امداد جمع کرے اور اس سے اپنے محلے کے غرباء کی غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بند کوشش کرے کیونکہ اسلام جہاں ایک غریب کو ایک روٹی کھلا دینے پر ثواب کا وعدہ کرتا ہے تو وہیں غریبی کے خاتمہ کا حکم دیتا ہے اور زکوٰۃ کا اِسلامی سسٹم بھی یہی ہے کہ اس کا خرچ اجتماعی طور پر کیا جائے تاکہ غریبوں کی مدد ہی نہ ہو بلکہ غریبوں کے مسائل کا حل ہو سکے!لہٰذا محلہ سطح پر ایسا بیت المال کا نظام قائم کرکے اس پر کام کیا جائے ساتھ ہی ان پیسوں سے زکوۃ کے دیگر مد میں بھی اجتماعی خرچ کرکے مسائل کا حل کیا جائے جیسے کہ غلاموں کی آزادی، جیل میں بے قصور بند افراد و اسلام کیلئے جد و جہد کرکے جیل جانے والوں کی رہائی وغیرہ پر بھی خرچ کیا جائے ساتھ ہی صوبائی سطح پر و ملکی سطح پر موجود اِسلامی امارت و بیت المال کو بھی اسی سے مدد فراہم کیا جائے۔

یہ کمیٹی ان معاملات کے ساتھ ہی محلے میں شادی،موت کے رسومات سمیت دیگر معاملات کو بھی بھائی چارے کے ساتھ حل کریگی و ضرورت پڑنے پر قومی و صوبائی سطح پر قوم کے معاملات میں اپنی مدد فراہم کرے گی اور ملک میں احتجاجات و مہمات میں اجتماعی شرکت کرنے کے ساتھ الگ الگ طریقے سے ملکی مزاحمت کو مضبوط کرے گی ۔

ان تمام نکات پر عمل کر لیا جائے  تو بڑے پیمانے پر اصلاحی،تعلیمی،فکری اور سماجی انقلاب دیکھنے کو ملے گا اور یقیناً جس خطرناک دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں ہمیں اس پر عمل کرنا ہی ہوگا ورنہ آنے والے دنوں میں ہر آنکھ آنسوؤں سے تر ملیں گے! اگر آخرت کی بات کی جائے تو وہاں بھی ہم میں سے ہر شخص اس کے نہ کرنے کا انجام بھکتے گا بشمول اُن لوگوں کے جو کہ عبادات میں مشغول نظر آتے ہیں کیونکہ قرآن نے صاف لفظوں میں قرآن پاک کے سورۃ الماعون میں فرما دیا ہے کہ “ایسے نمازی جو کہ یتیم کو دھکّا دیتے یعنی کہ اُنکے مسائل پر توجہ نہیں دیتے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے اور برتنے کی چیز تک روکتے ہیں یعنی وہ جو کر سکتے ہیں وہ نہیں کرتے ہیں، وہ حقیقت میں روز جزا کو جھٹلاتے ہیں، پس ان نمازیوں کیلئے ہلاکت ہے: (یہ مفہوم میں نے سورہ کا بیان کیا ہے) لہندا ایسے دیندار افراد کو بھی خدا کی اس تنبیہ کو سامنے رکھ کر خود کو تبدیل کر لینا چاہیے

saifurbihari143@gma il.com

9540926856

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com