کرناٹک کا الیکشن: جمہوریت کےلئے حیات نوکی ایک امید

معاذ مدثر قاسمی

تقریبا ایک سو پچارنوے ممالک میں اگرامریکہ کو سب سے قدیم جمہوری ملک ہونے کی حیثیت حاصل ہے، تو وہیں دوسری طرف 140 کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہمارے ملک عزیز بھارت کو سب سے بڑاجمہوری ملک ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ اسے مختلف رنگ ونسل ، اور تہذیف وثقافت والی آبادی کاایک ایساحسین گلدستے کے طورپر جانا گیا ہے جس کے دستور نے سماج کے ہرطبقے کویکساں حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب اور ذات سے تعلق رکھتاہو۔

مگرگزشتہ چند سالوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار اس ملک کی جمہوریت پر ہر آئے دن ایسی چوٹ پہنچائی گئی ہے کہ ملک کی جمہوریت کاجنازہ نکل گیاہے۔ اگر یہ کہاجائےکہ یہ ملک اب برائے نام ہی جمہوری رہ گیاہے تو بیجانہ ہوگا۔ خاص کرحالیہ کرناٹک الیکشن میں جس طرح برسرِاقتدار پارٹی کے چھوٹے سےبڑے لیڈران نے اپنے پرفریب اور زہریلے بیانات کے ذریعہ جمہوریت کاایسامزاق بنایا جس کی مثال شاید ہی ملنا مشکل ہو۔ کرناٹک الیکشن کو وزیر اعظم مودی کے زیر قیادت بی جے پی نے اپنے لئے ناک کا مسئلہ بنالیاتھا، اور کسی بھی صورت میں اس الیکشن کو جیتناچاہتی تھی، چاہے اسکے لئے کسی بھی حدتک جاناہو۔ وہیں دوسری طرف ملک کی سب سے قدیم کانگریس پارٹی کےلئے یہ الیکشن کرو یامرو کامسئلہ تھا، بلکہ ملک کے تمام سیکولر عوام کےلئے یہ ایک چیلینج جیسا تھا۔

بی جے پی نے اس الیکشن کوجیتنے کےلئے تمام جمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھ کر ہندومسلم کاکارڈ اس شدت کے ساتھ کھیلا جو اس سےقبل ملکی تاریخ میں نہیں دیکھاگیا۔ یہ پہلاالیکشن تھا جس میں بی جے پی نے کھل کر پوری طاقت سے مسلم مخالف ایجنڈے کے ساتھ الیکش لڑا۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کرناٹک پورے جنوبی ہند میں بی جے پی کے لیےسب سے بڑاواحدمرکز تھا جسے وہ اتر پردیش اور گجرات کی طرح سنگھ لیباٹری کے طورپر استعمال کرناچاہتی تھی۔

اس الیکشن کو جیتنے کےلئے اس نے گزشتہ 3 سالوں سے تمام مسلم مخالف مسائل کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھاکر ماحول کو اپنے موافق بناناشروع کردیاتھا۔ چاہے وہ لو جہاد کا خودساختہ ایشو ہو، حجاب کی مخالفت کرناہو، ٹیپو سلطان کے خلاف پوری مہم چلاناہو، یا حلال کھانے کی مخالفت کرناہو، یاالیکشن کے قریب آکر مسلمانوں کے لیے 4% ریزرویشن کو ہٹاناہو۔ اسکے علاوہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بیک وقت تمام مسلم مخالف مہمیں پوری طاقت کے ساتھ چلائی گئیں۔ہر چھوٹے بڑے بی جے پی لیڈران نے اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ فرقہ واریت کا کھلم کھلا کھیل کھیلا۔ ملک کے وزیر داخلہ کھلے عام مسلم مخالف بیانات دے رہے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیں گے۔

 الیکشن قریب آتے آتے ملک کے وزیر اعظم پوری طرح کھل کرمسلمانوں کے خلاف سامنےآگئے۔ مسلمانوں کے خلاف تیار کی گئی ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کے نام سے فرضی کہانی پر مبنی فلم کاسہارا لیااور عوام کو اس کے دیکھنے پر ابھارا، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی فلم ہے۔ تین لڑکیوں کی کہانی کو جھوٹے طورپر32 ہزار لڑکیوں کی کہانی بتاکر ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس جھوٹی فلم کی ساری حقیقت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لوگوں کے سامنے آگئی ۔ اس طرح کی غلط اور پروپیگنڈہ پر مشتمل فلم کو صرف الیکشن میں فائدے کے لئے ملک کےوزیر اعظم نے اپنی انتخابی تشہیرکاحصہ بنالیا۔یہی نہی بلکہ ‘بجرنگ بلی کی جئے’ جیسے سراپا مذہبی نعرے کواپنے انتخابی تشہیر کا حصہ بنایا، اور اپنے ووٹروں سے اسی نعرے کے ساتھ ووٹ ڈالنے کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔ یہ سب اس لئے تاکہ ہندواکثریت کے ذہن کو مسموم کرکے یکطرفہ ووٹ حاصل کرلیاجائے۔

کانگریس پارٹی جسکا سیدھا مقابلہ بی جے پی کے ساتھ تھا وہ بھی اس پورے الیکشن میں پورے کیل کانٹے درست کرکے اتری تھی، اور بی جےپی کے ہر وار کا پوری دانشمندی کے ساتھ مقابلہ کیا، بلکہ کہاجائے تو بےجانہ ہوگاکہ کانگریس نے اس الیکشن میں دل وجان سے حصہ لیاتھا، دفاعی پوزیشن میں آنے کےبجائے ‘ بی جےپی’ کو خود اسکے جال میں پھنساکر دفاعی پوزیشن میں لاکھڑاکردیاتھا۔

 اس پورے تشہیری مہم کے دوران مسلمان “بی جے پی” کے خاص نشانےپر تھے، سنگھ کے سارے تیر ایک ساتھ کرناٹک کے مسلمانوں پر برسائے جا رہے تھے، مگر مسلمانوں نے بھی اپنے ہوش وحواس اور سنجیدگی کوبرقراررکھا، مشتعل ہونے یابے جابیان بازی کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی اور سنگھ کے تمام زہر آلود تیروتفنگ کاخاموشی سے مقابلہ کرتے رہےاور اپنے کام میں لگے رہے۔

کرناٹک کے مسلمان دوسرے صوبوں کی بنسبت مذہبی، معاشی طور پرعمومازیادہ خوشحال اور تعلیمی لحاظ سے زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ اس پورے الیکشن میں انہوں نے اپنی بھرپور دانشمندی کاثبوت دیا، بہترین حکمت عملی اپنائی ، بی جے پی کے مشتعل کرنے والے بیانات کے سامنے بالکل خاموش رہے، اپنی طاقت اکٹھا کر تے رہے،اور موقع ملتے ہی متحدہ ووٹ کے ذریعہ ایساجواب دیا کہ بی جے پی اور اس کے سارے پروپیگنڈے کی ہوا نکل گئی۔ انکی ساری چالیں الٹی پڑگئیں۔

کرناٹک کے مسلمانوں نے سمجھ لیا تھا کہ فرقہ پرستوں کے اقدامات پر ردعمل ظاہر کرنا یا سڑکوں پر احتجاج کرنا ان کےلئے فائدہ منداورخود کےلئے نقصان دہ ہے۔اگر پورے ملک کے مسلمان ایسے ہو جائیں تو یقیناً ان کی سماجی اور سیاسی پوزیشن مضبوط ہو گی۔

 یہ ملک کے تمام صوبوں کے مسلمانوں کےلئے خاص کر یوپی کے مسلمانوں کے لئے ایک اہم پیغام ہے کہ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر کرناٹک کے مسلمانوں کی طرح سیاسی طورپر اتحاد کا ثبوت دیں ۔ اشتعال انگیزی یا بیان بازی کے ذریعہ بی جےپی کا لقمہ تر بننے کے بجائے خاموش حکمت عملی اپناکر اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں۔

اس الیکشن میں کانگریس نے عام توقعات سے بڑھ کر اپنی مضبوط حکمت عملی کی وجہ سے 224 نشستوں میں سے مجموعی طور پر 136 نشستیں حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ وہیں بی جے پی نے صرف 65 نشستیں حاصل کی ۔18 نشستوں پردوسری جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اورچارپرآزادامیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔

 کانگریس کو ملنے والے نتائج نے جہاں بی جے پی کے زہریلے غبارے کی ہوانکال دی اور مودی کے ناقابل شکست ہونے کے مفروضہ کویکلخت مٹادیا جس سے یقینی طور پر مودی کی اناپرستی کو زبردست چوٹ پہنچی ہوگی، وہیں بکھری، مرجھائی کانگریس میں ایک نئی جان پھونک دی اور اسی کے ساتھ ساتھ پے درے پے شکست خوردہ اور ملکی سیاست میں حاشیہ پر موجود بشمول کانگریس کے تمام جمہوریت پسند سیکور پارٹیوں میں امید کی جت جگادی ہے کہ مودی برانڈ سے مقابلہ کیا جاسکتاہے، بلکہ صحیح حکمت عملی کے ساتھ متحدہ طور پر الیکشن لڑاجائے تو فسطائی قوت سے صحیح معنوں میں صرف دودوہاتھ کیاہی نہی جاسکتا بلکہ حقیقی مسائل کو عوام کے سامنے مضبوطی کے ساتھ پیش کرکے خاص کر 2024 الیکشن میں فرقہ پرست طاقت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار بھی کیا جاسکتا ہے۔

(لیکچرار، مرکزالمعارف، جوگیشوری، ممبئی)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com