یہ مقام مسرت ہے یا مقام افسوس؟

سہیل انجم

اگر کوئی شخص یا کوئی ملک کوئی ریکارڈ بناتا ہے تو اسے مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ اسے دعائیں دی جاتی ہیں کہ وہ مزید ریکارڈ بنائے۔ مذکورہ شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کرے۔ اور اس طرح اپنا اور ملک کانام روشن کرے۔ لیکن جو لوگ غلط کاموں کا ریکارڈ بناتے ہیں انھیں نہ مبارکباد دی جاتی ہے، نہ دعائیں او رنہ ہی ان سے مزید ریکارڈ بنانے کی خواہش کی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ یہ خبر آئی کہ ہندوستان اب آبادی کے اعتبار سے دنیا کا نمبر ون ملک بن گیا ہے۔ ابھی تک چین کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔ لیکن اب ہندوستان کی آبادی سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال اپریل کے اواخر میں ہندوستان کی آبادی ایک ارب بیالیس کروڑ ستاون لاکھ ہو گئی ہے تو ہندوستان کی آبادی ایک ارب بیالیس کروڑ چھیاسی لاکھ ہو گئی۔ آبادی کے اعتبار سے دونوں ملکوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہندوستان نوجوانوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ یعنی یہاں آبادی میں نوجوانوں کا حصہ زیادہ ہے۔ آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 2030 تک ہندوستان میں نوجوانوں کی آبادی دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہو جائے گی۔ ادھر دوسری طرف چین ہے جہاں معمر افراد کی آبادی زیادہ ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان جوانوں کا تو چین بوڑھوں کا ملک ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کو ہندوستان کی تازہ مردم شماری کا انتظار ہے۔ یہاں 2011 میں مردم شماری ہوئی تھی۔ اسے 2021 میں ہونا تھا لیکن کرونا کی وبا کی وجہ سے نہیں کرائی جا سکی اور ابھی تک اس کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے کہ وہ کب کرائی جائے گی۔ جب تک مردم شماری نہ ہو جائے اس وقت تک شہریوں کی صحیح تعداد کیسے معلوم ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ چین کو عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے اور افزائش نسل میں کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اس طرح ہندوستان اور چین کی مجموعی آبادی دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ایک تہائی سے زیادہ ہوگئی ہے۔ چین میں فیملی پلاننگ پر سختی سے عمل کیا جاتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بچو ں کی پیدائش پر اثر پڑا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں چین کے مقابلے میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں بچوں کی اموات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں شرح پیدائش اگر چہ چین کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن ہندوستان کی سابقہ شرح کے مقابلے میں کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 1960 میں ایک عورت کے پانچ سے زیادہ بچے ہوتے تھے لیکن 2020 میں یہ تعداد صرف دو تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود آزادی کے بعد سے یہاں کی آبادی میں چار گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر 1960 کی طرح اب بھی ہر عورت کے پانچ پانچ بچے پیدا ہوتے تو اندازہ لگائیے کہ ملک کی آبادی کہاں تک پہنچ گئی ہوتی۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے چلیں کہ آبادی کے اعتبار سے امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2050 میں آٹھ ملکوں میں دنیا کی نصف آبادی ہوگی۔ یہ ملک ہیں کانگو، مصر، اتھوپیا، ہندوستان، نائجیریا، پاکستان، فلپنس اور تنزانیہ۔

یو ں تو پوری دنیا میں بڑھتی آبادی پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود آبادی پر کنٹرول پانے میں وہ کامیابی نہیں مل رہی ہے جو ملنی چاہیے۔ آبادی پر کنٹرول کا ایک منفی پہلو بھی ہے جو چین میں دیکھنے کو ملا ہے۔ ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کا ذہن معمر افراد کے مقابلے میں تیز چلتا ہے اور وہ معمر افرا دکے مقابلے میں زیادہ جوش و خروش سے کام کرتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ چین کے معمر افراد سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ روزمرہ استعمال کی اشیاء تیا رکرنے میں ہندوستان سمیت کئی ملکوں سے آگے ہیں۔ آپ بازار میں جائیں تو آپ کو چینی مصنوعات کی بھرمار ملے گی۔ چینی مصنوعات سستی ہوتی ہیں اور پرکشش بھی۔ یہاں تک کہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی چین سے بن کر آنے لگی ہیں۔ دیوالی کے رنگ اور پتنگ کے مانجھے تو سب چینی ہی فروخت ہو رہے ہیں۔ چین ہلکی پھلکی اشیا سے لے کر بھاری بھرکم اشیاء تک بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ چین کی وہ کون سی شے ہے جس پر ہندوستان کے شہری فدا نہ ہوئے ہوں۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی تنازع ہے۔ دونوں کے درمیان 1965 میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔ 2020 میں وادی گلوان میں دونوں ملکوں کی افواج میں خونیں تصادم بھی ہوا تھا جس میں ہندوستان کے بیس جوان ہلاک ہوئے تھے۔ حکومت کا ایک طرف یہ کہنا ہے کہ چین نے ہماری ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے وہیں دوسری طرف دونوں ملکوں کے درمیان گلوان ٹکراؤ کے بعد مذاکرات کے 18 ادوار ہو چکے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جب چین نے ہماری ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے تو پھر مذاکرات کس لیے ہو رہے ہیں۔ امت شاہ نے گزشتہ دنوں اروناچل پردیش کے دورے میں للکارتے ہوئے کہا تھا کہ 2014 کے پہلے کوئی بھی ہماری زمین پر قبضہ کر لیتا تھا لیکن اب کوئی سوئی کی نوک کے برابر زمین پر بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔ اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ حکومت صحیح بول رہی ہے یا حزب اختلاف کے رہنما۔

سوال یہ ہے کہ ہم چین کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔ کیا آبادی میں چین کو پچھاڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں چین سے آگے نکل گئے ہیں۔ ہمیں اس پہلو پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ آبادی میں جتنا زیادہ اضافہ ہوگا بے روزگاری بھی اتنی ہی زیادہ بڑھے گی۔ سرکاری ملازمتیں تو یوں بھی بہت کم ہو گئی ہیں۔ اگر حکومت چار سال کے لیے فوج میں بھرتی ہونے کی اسکیم نکالتی ہے تو مخالفت کرنے کے باوجود بہت سے نوجوان اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چار سال ہی سہی اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ حکومت بار بار یہ بھی کہتی ہے کہ نوکری دینے والے بنئے مانگنے والے نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھریں اس کے بعد ہی دوسروں کو نوکری دینے والے بنیں گے۔ اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کی بات کرتی ہے لیکن دوسری طرف موجودہ حکومت کے حامی سادھو سنتوں کی ہندوؤں سے اپیل ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ کوئی کہتا ہے کہ دو کی سوچ سے آگے بڑھیے۔ کوئی کہتا ہے کہ چار چار پیدا کیجیے۔ کوئی یہ تعدا دس تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چار بچوں میں سے دو کو گھر رکھیے، دو کو آر ایس ایس یا وشو ہندو پریشد کو دے دیجیے تاکہ سناتن دھرم کی رکشا ہو سکے۔ اس کے پیچھے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر ہندو زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے تو مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی۔ مسلمان اکثریت میں آجائیں گے اور ہندو اقلیت میں۔ حالانکہ ایسا کہنے والے بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کی شرح پیدائش کافی کم ہوئی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے یہاں زیادہ بچے پیدا ہونے کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمان محض بیس فیصد ہیں۔ اسی فیصد تو غیر مسلم ہی ہیں۔ بھلا یہ بیس فیصد والے اسی فیصد والوں کو کیسے پچھاڑ سکتے ہیں۔ ہاں ہزاروں سال تک اگر یہی صورت حال رہتی ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنی اپیل میں مسلمانوں کی دلیل شامل کرنے سے معاملہ جذباتی ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسی اپیلیں خوب کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اپیلیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے پاس اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ جنھوں نے افزائش نسل کا راستہ ہی اختیار نہیں کیا۔ بہرحال جہاں ایک طرف آبادی میں اضافہ باعث تشویش ہے وہیں دوسری طرف چین کو پچھاڑ دینے سے ایک جذباتی سکون ملتا ہے۔ اگر یہی مقابلہ پاکستان کے ساتھ ہوتا تو اور بھی جذباتی سکون ملتا۔ ویسے یہ معاملہ ہے بہت پیچیدہ۔ اس لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ریکارڈ سازی پر ہندوستان کو مبارکباد دی جائے یا اظہار تشویش کیا جائے۔ کوئی بتائے کہ یہ مقام مسرت ہے یا مقام افسوس؟

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com