نظام عالم پر چین کی بڑھتی گرفت طاقت کا توازن بدلنے والا ہے ؟

ثناء اللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد دنیا نے عالمی نظام پر امریکہ کی بالادستی قبول کرلی اور اس طرح سرد جنگ کا وہ سلسلہ بھی لگ بھگ ختم ہوا جو سوویت یونین اور یونائیٹیڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے بیچ عالمی بالادستی کے حصول کے لیے جاری تھا اور جس کی وجہ سے لگ بھگ پوری دنیا کو کسی نہ کسی ایک طرف جانا پڑ رہا تھا ۔ مانا جارہا تھا کہ اس سے عالمی نظام میں ایک قسم کا استحکام آئے گا اور دنیا نسبتاً مثبت خطوط پر زیادہ قوت سے چل سکے گی لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس ۔ عالمی نظام پر امریکہ کی بالادستی کئی اعتبار سےخطرناک ثابت ہوئی ۔ امریکہ نے مختلف خطوں میں جنگیں چھیڑیں، مختلف خطوں میں سیاسی عدم استحکام کا باعث ہوا اور یوں دنیا بھر میں امریکی بالا دستی کے ساتھ ہی دہشت گردی کو بھی فروغ ملا ۔ جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کی اس بالا دستی کے پیچھے اس کی جو قوت کارفا تھی اس کا تعلق ٹکنالوجی اور جنگی آلات سے تھا، یوں نے اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ اس کے آلات جنگ فروخت ہوتے رہیں ، اس کی قوت کا لوہا مانا جاتا رہے اور وہ عالمی دولت سے مستفید ہوتا رہے ۔ اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ اس نے سب کچھ غلط ہی کیا ، نہیں ، کئی سارے معاملات میں اس نے واقعی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی اور عالمی سطح پر بطور خاص کمزور ممالک میں انسانی حقوق کے تعلق سے اس نے اپنا مثبت کردار بھی ادا کیا ، یوں اس کی بے مثال قوت سے بالواسطہ طور پر بہت سی جگہوں پر کمزوروں کو قوت بھی حاصل ہوئی اور وہ ظلم سے بچ بھی سکے، لیکن عام کیفیت یہی رہی کہ ا س کی بالادستی کے نتائج بہت مثبت نہيں رہے ۔

عالمی نظام پر امریکی بالادستی کا وہ دور اب لد چکا ہے ، سوویت یونین کو بھی افعانستان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا اور امریکہ کو بھی افغانستان میں ہی دھول کی کھانی پڑی ہے ۔ اسی شکست کے بعد روس کی کمزوری بھی عیاں ہوگئی تھی اور اب امریکہ کی کمزوری بھی عیاں ہورہی ہے ۔یوکرین پر روس کا حملہ روس کی قوت کا اشاریہ ہو نہ ہو امریکہ کی کمزوری کا اشاریہ تو ضرور مانا جارہا ہے ۔

لیکن اس کے بیچ چین بڑی تیزی سے عالمی نظام پر اثر انداز ہورہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بالکل نئے وسائل اور نئے طریقے سے وہ عالمی نظام پر قابض بھی ہوجائےگا اور امریکی بالادستی ختم بھی ہوجائے گی ۔ پوری دنیا میں چین اپنی تجارتی خرد مندی کے لیے جانا جاتا ہے ، دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں چین کی مصنوعات بازاروں پر قبضہ نہ کررہی ہوں ، ایک طرف عالمی منڈی پر اس کی یہ گرفت ہے دوسری طرف وہ ایک بڑی طاقت بھی ہے ، اسے اقوام متحدہ میں ویٹو پاور حاصل ہے ، وہ دنیا کے تین سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور اس کی قوت کا راز جنگ کی بجائے اس کی صنعت و تجارت ہے ۔

اس طرف آکر چین تیزی سے عالمی نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ مشرق وسطی میں اس کی دلچسپیاں بڑھی ہیں ، تجارتی تعلقات ہی نہیں اسٹریٹجک رشتے بھی بہت مضبوط اور وسیع ہوئے ہيں اور مشرق وسطی میں اسے ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ اس نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان رشتے کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بڑی تعداد کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک قابل اعتبار ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ عرب نیوز کے ایک سروے کے مطابق چین کے سلسلے میں یہی رائے کھل کرسامنے آئی ہے ۔

عالمی نظام پر چین کی بڑھتی گرفت کو اہل نظر امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا سوچا جا رہا ہے کہ چین کی قوت کا راز اس کی تجارت وصنعت ہے اور صنعت وتجارت کے فروغ کے لیے دنیا کو جنگ کی بجائے امن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چین ہر ممکن طریقے سے یہی کوشش کرے گا کہ عالمی سطح پر امن و امان کا ماحول بنا رہے ۔ ایسے بھی اسے آلات جنگ بیچ کر اپنی بالادستی ثابت کرنے کی ضرورت نہيں ہےپھر اسے یہ بھی پتہ ہے کہ اس کی قوت اور امریکی کی دن بہ دن گرتی ہوئی حالت کا سبب بھی جنگ ہی ہے ، جنگ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ، حل نہيں نکلتے ۔ چین مختلف طریقوں سے یہ باتیں واضح بھی کرتا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی سرزمین پر کسی تیسری طاقت کے قبضہ یا گھس پیٹھ کو درست نہیں سمجھتا ، ظاہر ہے کہ وہ بغیر کھلے جیسے امریکی بالادستی کو آئینہ بھی دکھا رہا ہے ۔

یہ بات بھی معلوم ہے کہ طاقت میں اصل طاقت کے ساتھ طاقت کے رعب کا بھی اپنا کردار ہوتا ہے۔ عالمی نظام پر نظر رکھنےوالے محسوس کررہے ہیں کہ امریکہ کا وہ رعب ختم ہورہا ہے جب کہ چین کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور دنیا کے بہت سےممالک کو ایسا لگتا ہے کہ طاقت کے جس نشہ میں چور ہوکر امریکہ نے دنیا کو بہت سے معاملات میں پریشان کیا ہے ، چین سے انہیں یہ خطرہ نہيں ہے ، حالاں کہ یہ بات پوری طرح سے درست بھی نہیں ۔چین کا اپنے پڑوسی ممالک بطور خاص بھارت کے ساتھ رویہ خاصا جارحانہ نظر آتا ہے ، اس نے بھارت کی بہت سی اراضی پر قبضہ کیا ہے اور وہ بھی حسبِ ضرورت اپنی قوت کا دھونس جماتا ہی ہے پھر اس کے یہاں حقوق انسانی کی پامالی کا مسئلہ بھی ہے ۔ وہاں موجود مسلمانوں کے وجود کو خطرے لاحق نظر آتے ہیں اور ان امور سے بہر حال صرف نظر نہيں کیا جاسکتا ۔ لیکن سامنے کی سچائی یہ ہے کہ چین عالمی منظر نامے پر ایک ایسی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے جس کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے اور جس سے امیدیں بھی وابستہ کی جارہی ہیں کہ وہ عالمی نظام کو ایک ایسا توازن دے پائے گا جو اس پورے نظام کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی باعث خیر ہوگا ۔ اس خاص حوالے سےآنے والے چند سال خاصے دلچسپ ہوسکتے ہیں ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com