مولانا محمد اسلام قاسمی ؒ: سفرِحیات کے درخشاں پہلو

عمر فاروق قاسمی 

  بات تقریباً دو سال قبل کی ہے ۔ اپنے پی ایچ ڈی مقالہ کے عنوان ” نور عالم خلیل امینی: احوال و آثار“ کے ایک باب معاصرین سے متعلق معلومات کے حوالے سے مقالہ نگار نے بذریعہ فون و واٹشپ مولانا محمد اسلام قاسمی سے رابطہ کیا تھا۔انھوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ متعلقہ معلومات مقالہ نگار تک بھیج کر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ زبان میں چونکہ بعد میں چل کر لکنت پڑ گئی تھی اس لیے فون پرسمجھنے میں تو بڑی دشواری ہوئی ؛ لیکن بذریعہ واٹشپ جو کچھ انھوں نے ارسال کیا اس سے بڑی مدد ملی تھی انھوں نے اپنی زندگی کے حوالے سے اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی کے مضمون سمیت جو مضامین ان کے پاس تھے وہ بھی ارسال کئے اور اپنی کئی کتابوں کی پی ڈی ایف فائلیں بھی بھجوائیں ۔ جب کہ عام طور پر مصنفین ایسا نہیں کرتے ۔ مضمون نگار اس حوالے سے مولانا کا تاقیامت ممنون و مشکور رہے گا۔آئندہ سطروں میں جو کچھ منتشر خیالات ہیں انھی فائلوں اور مضامین کی روشنی میں لکھے گئے تھے بلکہ انھی کا چربہ اور خلاصہ تھا . معمولی ترمیمات کے ساتھ پیشِ قارئین ہے۔

 مولانا اسلام قا سمی دُمکوی کی پیدائش ۱۲جمادی الآخری ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۶ فروری ۱۹۵۴ کو راجہ بھٹیا ضلع جامتاڑا میں ہوئی ، تعلیمی سفر کا آغاز اپنے ننھیال موضع بھٹراضلع جامتاڑا(قدیم ریاست بہار اورموجودہ ریاست جھارکھنڈ )سے کیا ۔خاندانی روایت کے مطابق ہوش سنبھالنے کے بعد گھر والوں نے انھیں بھی بکریاں چرانے اور گلہ بانی کی ٹریننگ دینی شروع کی ، لیکن آپ کی قناعت پسنداور مستقبل شناس والدہ نے خاندان کی اس روایت سے انحراف کرتے ہو ئے یہ اعلان کردیا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا ، جہاں نہ اسکول ہو ، نہ مدرسہ ،نہ مسجد میں باضابطہ کوئی امام ایسی جگہ میں اس خواب کی تعبیر کہاں سے نکلے گی ۔ چناں چہ گھر والوں نے’’ یہ منہ اور مسور کی دال ‘‘ سمجھ کر اس ارادے کا مذاق ہی اڑایا ۔ مگر کسے معلوم تھا کہ جس خواب کو ناقابل تعبیر سمجھ کر مذاق اڑایا جارہا ہے وہ ایک دن حقیقت کاروپ دھار لے گا اور جسے گلہ بانی کے لیے منتخب کیا جارہا ہے وہ ایک دن اقلیم ادب کی حکمرانی پر مامور ہوجائے گا. مولانا محمد اسلام قاسمی اپنے تعلیمی سفر کے آغاز کے حوالے سے لکھتے ہیں :

    ’’جب میری عمر چار ، پانچ سال کی ہوئی تو گھر والوں نے بچے کو اپنی ضرورت اور فہم کے مطابق گھر کی بکریوں کو چرانے کی تربیت دینے کی کوشش شروع کردی ، مگر اللہ مسبّب الاسباب ہے ، مقلب القلوب ہے ، میری والدہ نے کہ دیا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا ۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز ۔ اس ’’ عظیم خاتون ‘‘ کی اس بات کا مذاق اڑایا ِ گیا، آخربچہ پڑھے گا کہاں ؟ اور کس سے ؟ گاؤں میں نہ کوئی اسکول ، نہ کوئی مکتب اور نہ کچی مسجد میں متعین امام صاحب !!

 جذبہ ، خلوص اور لگن ہو تو منزل کی راہیں مل جاتی ہیں ،والدہ محترمہ نے گھر والوں کے علی الر غم مجھے آبائی وطن سے تقریباًبیس کیلو میٹر دور میری نانی کے پاس اس تاکید کے ساتھ چھوڑ دیا کہ اس کو اسکول بھیجنا ہے ۔ ‘‘ (۱)

 ماں کی اس خواہش کے مطابق پھر آپ کا تعلیمی سفر شروع ہوا ، اسی زمانے میں ننھیالی گاؤں کے مسلمانوں کے اصرار پرلقمان نامی ایک مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے کے لیے اقامت پذیر ہوگئے تھے، مولوی محمد لقمان کے مکتب میں آپ کی نانی نے قاعدہ بغدادی لے کر بیٹھادیا اس کے بعد جامعہ حسینہ گریڈیہہ جھار کھنڈ اور مدرسہ اشرف العلوم گلٹی ، ضلع بردوان کے چشمۂ فیض سے اپنی تشنگی دور کی ۔ ۱۹۶۷ میں جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا ۔ یہاں آپ نے شرح جامی کی جماعت میں درسی کتابیں پڑھیں ،یہاں آپ نے علامہ صدیق احمد کشمیریؒ ، مفتی عبد القیوم مظاہریؒ ، مولانا محمد اللہ ابن مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوریؒ جیسے اساتذۂ علم وفن سے اکتسابِ فیض کیا ۔ ایک سال یہاں رہنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگیں ۔ چناں چہ ۱۹۶۸ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا ۔ تین سال یہاں کی فضاوں میں رہ کر اپنی تعلیمی صلاحیت کو مزید تابناک کیا ۔۱۹۷۱ میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔ یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا سید فخر الدین مراد آبادی ؒ، مفتی محمو دالحسن صاحب گنگوہی ؒ، مولانا شریف الحسن دیوبندی ؒ، مولانا فخر الحسن مراد آبادیؒ ، مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ ، علامہ حسین بہاریؒ ، مولانا سید انظر شاہ کشمیری ؒ، مولانا نصیر احمد خاں بلند شہری ؒ اور مولانا اسلام الحق اعظمیؒ جیسے اساطین علم وفن تھے ۔ فراغت کے بعد عربی زبان میں جمال وکمال پیدا کرنے کے لیے ۱۹۷۲ میں شعبہ ٔ عربی ادب میں داخلہ لیا اور مولانا وحید الزماں کیرانوی کی عربی ذوق ادب سے فائدہ حا صل کیا ۔اس کے بعد اردو عربی میں خو ش نویسی کا شوق انھیں شعبہ ٔ خطاطی لے گیا ۔ اور ۱۹۷۳ ، ۱۹۷۴ میں موالانا شکور احمد دیوبندی ؒاور مولانا اشتیاق احمد ؒکی زیر تربیت آپ نے اس فن میں بھی کمال و جمال پیدا کیا ۔لیکن علمی تشنگی تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ چناں چہ ۱۹۷۵ میں شعبۂ افتا میں داخلہ لیا اور مفتی احمد علی سعید ؒاور مفتی نظام الدین اعظمیؒ جیسی شخصیات سے فتوی نویسی کی ٹریننگ لی ۔گویا آپ نے عہد طالب علمی میں کل سات سال دارالعلوم میں گزارے ۔

 شعبہ ٔ افتا کی ٹریننگ لینے کے بعد ۱۹۷۶ میں دارالعلوم دیوبند نے ایک عربی رسالہ ’’ الداعی ‘‘ کے نام سے جاری کیا ۔ مولانا وحید الزماں قاسمی اس کے ذمہ دار بنائے گئے تھے ۔انھوں نے اس رسالے کی بہ حسنِ خوبی اشاعت کے لیے دارالعلوم سے دو معاون کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔ چناں چہ دارالعلوم نے معاون اول کے طور پر مولانا بدر الحسن قاسمی اور معاون ثانی کے طور پر مولا نا اسلام قاسمی کو مقر ر کیا ۔ تقریبا ً چھ سالوں تک آ پ اس رسالے کی آبیار ی کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ ۸۲ ۱۹ میں دارالعلوم دیوبند کی تقسیم کا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ،مولانا بدر الحسن قاسمی اور مولانا اسلام قاسمی قاری محمد طیب گروپ کے حامیوں میں سے تھے ۔ حالات غیر موافق نظر آنے لگے تھے ، اس لیے آپ وہاں سے نکل گئے اور دارالعلوم وقف سے وابستہ ہو گئے ۔ ’’الداعی‘‘ کے زمانے میں انھیں عصری علوم کی ڈگری لینے کی طلب پیدا ہوئی ۔ چناں چہ وہ اس شوق کی تکمیل میں بھی لگ گئے ۔اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

 ’’ الداعی میں ملازمت کے دوران ہی انگریزی پڑھنے کا شوق پیدا ہو ا ، اور بالآخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے انگلش امتحانات دے کر کامیابی حاصل کی ، بی اے کی تعلیم تو مکمل ہو گئی مگر اجلاس صد سالہ دارالعلوم دیوبند میں منعقد ۱۹۸۰ء کی مشغولیات کی وجہ سے آخری امتحان میں شرکت نہیں ہو سکی۔ پھر دس سال کے بعد ۱۹۹۰ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی تکمیل کی ۔(۲)

 دارلعلوم دیوبند سے علیحدگی کے بعد سے ابھی تک وقف دارالعلوم میں استاذ رہے ، اور وہاں کے بڑے اساتذہ میں شمار کیے گئے ، اس وقت مسلم شریف ، المختارات العربیہ ،حجۃ اللہ البالغہ جیسی اہم کتابیں آپ کے زیر درس تھیں ۔ ۳۰ مئی ۲۰۱۸ کو آپ پر فالج کا اثر ہو ا جس کی وجہ سے تدریسی و تحریری سر گرمیاں متاثر ہوگئیں ہیں ۔ تاہم تدریسی سر گرمیاں بعد تک بھی جاری رہیں البتہ تحریر ی کام مکمل طور پرموقوف ہوگیا تھا تاآنکہ فرشتہ اجل آ پہنچا ۔

 تصنیفات و تالیفات :

  آپ کے نوک قلم سے مندرجہ ذیل کتابیں منظر عام پر آئیں ۔

 (۱)متعلقات قران اور تفاسیر(۲) جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی (۳) منہاج الابرار شرح اردو مشکوۃ الآثار (۴) دارالعلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ (۵)دارالعلوم اور خانوادۂ قاسمی ( ۶) دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب (۷)مقالات حکیم الاسلام (۸)درخشاں ستارے (۹) خلیجی بحران اور صدام حسین ( ۱۰) ضمیمہ المنجد عربی اردو ؔ(۱۱)رمضان المبارک فضائل و مسائل (۱۲) زکوۃ و صدقات اہمیت وفوائد (۱۳) ترجمہ مفید الطالبین ( ۱۴) جدید عربی میں خط لکھئے عربی اردو (۱۵) ازمۃ الخلیج عربی (۱۶) القراۃٔ الراشدہ ترجمہ اردو

 خطاطی اور تحریری اسلوب :

  فالج کے شکار ہونے سے پہلے تک مولانا محمداسلام صاحب کی خطاطی بے مثال تھی ۔ الداعی کے زمانے میں وہ اس فریضے کو خصوصیت کے ساتھ انجام دیتے تھے ، صدسالہ کے موقع پر الداعی کا خصوصی شمارہ شائع ہو ا تھا اس کی کتابت آپ نے ہی کی تھی ۔ مولانا بدرا لحسن قاسمی ان کے حوالے سے لکھتے ہیں :

 ’’ مولانامحمد اسلام قاسمی میرے زمیل ہیں ۔ الداعی کے ادارت کے زمانے میں ان کی بے مثال خطاطی پر ہی میرا انحصار تھا ، اجلاس صد سالہ کے موقع پر جو خصوصی شمارہ ہم نے شائع کیا تھا ، وہ آج بھی ایک مرجع کے طور پر مطلوب ہے ، امام حرم شیخ محمد السبیل مرحوم نے بارہا اس کی فوٹو کاپی مولانا سعید عنایت اللہ صاحب کے ذریعے منگوائی ،مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کی ترتیب و اخراج کی ماہرانہ فن کاری کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل تھی ، مقامی مشاہدات میں وہ میرے ساتھ اور ہم مزاج تھے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی صحت بحال ہوجائے اور الداعی کے پانچ چھ سال کے مشاہدات و تجربات وہ لکھیں تو میرا بوجھ ہلکا رہے اور تلخ و شیریں ان کے قلم سے آئے ۔ میرے پاس تو باہر ہی کے تجربات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اگر باقاعدہ لکھا جائے تو سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے ۔ اللہ تعالی ان کی صحت و بینائی اور قوت اپنے لطف و کرم سے بحال کردے اور وہ پھر سرگرم ہو جائیں ۔ ‘‘(۳)

 مولانا کے اسلوب میں سنجیدگی اور توازن ہے، زبان وبیان میں سلاست وروانی کے ساتھ سادگی ہے ، ا لفاظ کے ضیاع سے حتی الامکان گریز کرتے ہو ے اپنے مافی الضمیر کو بہت ہی مختصر انداز میں پیش کرنے کے عادی ہیں ، ان کی عبارت پڑھنے کے وقت قاری کسی قسم کی پیچیدگی اور تعقید ِلفظی و معنوی کا شکار نہیں ہوتا ہے ۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں اس کو پڑھنے والا آسانی سے سمجھ لیتا ہے ۔ ان کی تحریروں میں معلومات کا ذخیرہ ہے ، حالات حاضرہ اور معاصر دنیا کی پیش ورفت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ،لیکن اس کو بہت ہی سادہ انداز میں پیش کرتے ہیں ،پھر بھی بلا کی چاشنی اور غصب کی روانی ملتی ہے ۔ خاکہ کھینچنے اور شخصیت نگاری میں بھی وہ اس ہنر سے خوب کام لیتے ہیں ۔اپنے ایک استاذقاری محمد ایوب مظاہری کے طمانچہ مارنے کو کس انداز میں بیان کرتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے :

 ’’ایک دفعہ مجھے بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کرشمہ دیکھنے کو ملا جو اب تک ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہے ۔ مدرسہ کے احاطے میں ایک پھل دار درخت تھا ، اس پر چڑھنے کی غلطی ہو گئی ، شومئی قسمت قاری صاحب نے دیکھ لیا ، پھر بائیں ہاتھ سے ایک زور دار تھپڑ ، دس بارہ سال کے بچے کو واقعی تارے نظر آگئے ، اور اس کا درد آج تک ذہن میں موجود ، یہی وہ کسک ہے جو ان کی دعاؤں کے ساتھ اس طرح ملی کہ میں اسے اپنے لیے زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ تصور کرتا ہوں ، کاش کہ ایک طمانچہ !!

 دراصل قاری صاحب کے بائیں ہاتھ میں چوٹ کی وجہ سے کچھ کمی آگئی تھی اور ہاتھ پورے طورپر سیدھا نہیں ہو پاتا تھا ، پتہ نہیں اس زاویہ قائمہ کے حساب سے کیا شکل بنتی تھی کہ اسی ہاتھ سے چوٹ زیادہ لگتی تھی ۔ ‘‘(۴)

 د ارالعلوم دیوبند میں مولانا نور عالم خلیل امینی اور مولانا اسلام قاسمی دونوں بزرگوں نے طالب علمی کا زمانہ ایک ساتھ گزاراہے ،کئی کتابوں میں ہم سبق بھی رہے ہیں ْ۔مے خانۂ وحیدی کے مے خوار وں میں دونوں شامل تھے ۔ بعد میں مولانا امینی جب مدرسہ امینیہ چلے گئے اس وقت مولانا محمد اسلام صاحب دارالعلوم دیوبند میں موجود تھے ۔ ایک موقع پر جب مولانا امینی مدرسہ امینیہ سے النادی کے ایک پرو گرام میں شرکت کے لیے دیوبند آئے ،اور النادی کے طلبہ میں پہلے جیسا جوش و خروش نہیں دیکھا تو مولانا کیرانوی کے مشورے سے جن طلبہ کو پروگرام کے بعد از سر ِنو سر گرم ہونے کی مولانا امینی نے دعوت دی تھی ان میں مولانا محمد اسلام دمکوی بھی تھے ۔ اس کا تذکرہ مولانا امینی نے ’’وہ کوہ کن کی بات ‘‘میں کیا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمداسلام صاحب اس زمانے میں دارالعلوم کے ممتاز طالب علموں میں سے ایک تھے ۔ اور دونوں کے درمیان مضبوط رابطے تھے ۔ وہ کوہ کن کی بات کے حاشیے میں مولاناامینی نے جن لوگوں کا تعارف کرایا ہے ان میں مولانامحمد اسلام صاحب قاسمی بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو حاشیہ کی یہ عبارت :

 ’’مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی دمکوی ’’ دمکا ‘‘ (بہار)( اوراب جھارکھنڈ) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند میں کئی کتابوں میں میرے ہم سبق رہے ۔نرم خو اُس وقت بھی تھے اور اب بھی ہیں ۔ حسن خط اور حسن اخلاق دونوں کے مالک ہیں ۔ حضرت الاستاد کے کاروان ِ ادب اور ان کی ’’النادی ‘‘کے اس وقت سر گرم ممبر تھے ۔ دارالعلوم سے فراغت کے کچھ عرصے بعد ’’ دعوۃ الحق ‘‘ کی جگہ پر جب ’’ الداعی ‘‘ نکلنا شروع ہوا ،تو برادرم مولانا بدرالحسن کے ساتھ ، انھوں نے کئی سالوں تک اس میں کام کیا ، نئے انتظامیہ کے قیام کے بعد وہ ’’ وقف دارالعلوم ‘‘ سے وابستہ ہو گئے ، اِ س وقت بھی وہ اسی میں بہ حیثیت مدرس عربی کام کر رہے ہیں ۔ ‘‘ ( ۵)

رابطہ: 9525755126

 حوالے جات

(۱)میرے اساتذہ میری درس گاہیں درخشاں ستارے ص ۱۱-۱۲،ناشر : مکتبہ النّوردیوبند،اشاعت اکتوبر ۲۰۱۹)

 (۲) حوالہ سابق ص ۸

 (۳) علم و کتاب نامی گروپ ، بہ حوالہ اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی ،مضمون حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی : حیات وخدمات کی ایک جھلک ۔ m.dailyhunt.in/news/ind تاریخ اشاعت: 19june2021,1.06 am

 (۴) میرے اساتذہ میری درس گاہیںدرخشاں ستارے ۔ص ۲۳، مضمون قاری محمد ایوب مظاہری ، ناشر: مکتبہ النُّورر دیوبند ،اشاعت اکتوبر۲۰۱۹

 ( ۵) وہ کوہ کن کی بات ۔ص ۱۲۹، ۱۳۰، حاشیہ ۲۵

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com