بھارت کو بھٹکانے کی مہم

مولانا عبدالحمید نعمانی

آج کی تاریخ میں یہ سوال تمام ہندستانیوں کے سامنے ہے کہ بھارت کو کیا بنانے اور کس سمت میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اس کا جواب تلاش کر لینا بہت زیادہ آسان بھی ہے اور عملاً بہت زیادہ مشکل بھی، جواب بالکل سامنے ہے لیکن جواب کو سمجھ کر اسے صحیح طور سے عمل میں لانا ایک مشکل ترین کام ہے، جب تصویر، تصور اور چہرے سے نہیں ملتی ہے تو سماج کئی طرح کے سوالات اور شکوک و شبہات کی زد میں آ جاتا ہے ان میں آج پورا سماج عملاً گھرا بلکہ دبا ہوا پا رہا ہے، یہ کھلی آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ بھارت کو مختلف جہات سے ” ہندو استھان “ میں بدل کر اس کی تنوعات اور تکثیری معاشرے کی خوب صورتی اور خصوصیات کو پوری طرح ختم کر دینے کی شر انگیز فرقہ وارانہ سر گرمیاں بلا روک ٹوک کے جاری ہیں، اس سلسلے کی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ سرگرمیاں جمہوری طریقے سے منتخب سرکاروں کی پشت پناہی اور سایہ و حمایت میں جاری ہیں، جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے تو کھیتی کے بچ جانے کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے، سب کے لیے یکساں پبلک سروکار والے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ نوعیت کے معاملے کو ابھارنے، اچھالنے میں ترقی دیکھی جائے گی تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح کا سماج اور ملک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

سنگھ کے سب سے بڑے نظریہ ساز، دوسرے سر سنگھ سنچالک گرو گولولکر نے بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کو غیر فطری اور روح و روایات سے غیر ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے جن تنوعات کو بھارت کی خصوصیت بتایا تھا ان کو فرقہ پرست عناصر ختم کرنے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں، اس تعلق سے شدت پسند عناصر اور روادار عناصر کے درمیان کشمکش اور فتح و شکست کی تاریخ و روایت کو نظر میں ایک مفید عمل ہے، بھارت کو بھارت بنائے رکھنے کا یہ نیک جذبہ ملک کے عوام کی اکثریت کو امید و حوصلہ سے جوڑ کر رکھے ہوئے ہے، اس سلسلے میں کچھ لوگ ہندوتو وادی سرگرمیوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے دیگر کمیونٹیز خصوصاً ہندی مسلم ملت کو مورد الزام اور احساس جرم میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں، اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کو سناتن سنسکرتی کی حفاظت کے عمل سے جوڑ کر دیکھنے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جب کہ اصلاً ایسا نہیں ہے، گزشتہ اور حال کی سرگرمیوں کے تحت عمل، ردعمل کا بھارت کی پر امن بقائے باہم کی روح و روایت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس تعلق سے خود اکثریتی سماج کے شدت پسند اور روادار طبقے کے درمیان مزاحمت سے بہتر نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے، ملک کے مختلف حصوں خصوصاً شمال، مشرق کی ریاستوں، آسام، منی پور، گجرات، مہا راشٹر، ہریانہ، یوپی مدھیہ پردیش، اتر کھنڈ، کے ساتھ مرکز کی سطح پر جو کچھ، سماجی بائیکاٹ، یونیفارم سول کوڈ، مقامات کے ناموں کی تبدیلی اپنی پسند و مطلب کی شخصیات کو ابھارنے اور کچھ اپنی مزعومہ نا پسندیدہ شخصیات کو سماج کے سمندر میں ڈبو دینے، اور اکھاڑ پھینکنے، ایک مخصوص کمیونٹی کا دیگر کمیونٹیز پر تسلط، تقریباً یک طرفہ طور سے سب کے سب اکثریت پرستی کے برگ و بار ہیں، روادار اور شدت پسند طبقے میں کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن وہ مختلف مواقع پر الگ الگ چہرے اور چال، چرتر کے ساتھ، سامنے آتی رہی ہے، اس طرف ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے اپنی معروف کتاب، ” ہندو بنام ہندو “ میں توجہ مبذول کرائی ہے، انھوں نے کتاب کی پہلی ہی تحریر میں لکھا

“ہندستان کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی، ہندو دھرم میں، روادار اور شدت پسند کی لڑائی ہے، گزشتہ پانچ ہزار برسوں سے بھی زیادہ وقت سے جاری ہے، اس کا خاتمہ ابھی تک نظر نہیں آتا ہے، اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جو ہونی چاہیے کہ اس لڑائی کو نظر میں رکھ کر ہندستان کی تاریخ کو دیکھا جائے، لیکن دیس میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ اسی سبب سے ہوتا ہے۔

تمام دھرموں میں کسی نہ کسی وقت روادار اور شدت پسند طبقے کی لڑائی ہوئی ہے، لیکن ہندو دھرم کے سوا وہ تقسیم ہوگئے، اکثر ان میں خوں ریزی ہوئی اور تھوڑے یا بہت دنوں کی لڑائی کے بعد تنازعہ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے، ہندو دھرم میں مسلسل روادار اور شدت پسند طبقے کی لڑائی چلی آ رہی ہے، جس میں کبھی ایک کی فتح ہوتی ہے کبھی دوسرے کی، لیکن لڑائی کا حل آج تک نہیں ہوا ہے اور تنازعات کے سوالات پر دھند چھا گیا ہے، چار ہزار سال یا اس سے بھی پہلے کچھ ہندوؤں کے کان میں، دوسرے ہندوؤں کی طرف سے پگھلا کر سیسہ ڈال دیا جاتا تھا، اور ان کی زبان کھینچ لی جاتی تھی، کیوں کہ طبقاتی نظام کا قانون تھا کہ شودر ویدوں کو پڑھے نہ سنے، تین سو سال پہلے شیوا جی کو ماننا پڑا تھا کہ ان کا خاندان ہمیشہ برہمنوں کو ہی وزیر بنائے گا تاکہ ہندو ریتی رواج کے مطابق تاج پوشی ہو سکے، تقریبا دوسو سال پہلے پانی پت کی آخری لڑائی میں ایک ہندو سردار دوسرے ہندو سردار سے اس لیے لڑ گیا تھا کہ وہ اپنے طبقے کے مطابق اونچی زمین پر تمباکو لگانا چاہتا تھا، تقریبا پندرہ سال پہلے ایک ہندو نے ہندوتو کی حفاظت کی خواہش سے مہاتما گاندھی پر بم پھینکا تھا کہ اس وقت وہ چھوا چھوت کا خاتمہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، (دیکھیں کتاب کا صفحہ، ا/2،مطبوعہ لوک بھارتی پرکاشن دہلی، چوتھا اڈیشن 2009)

ڈاکٹر لوہیا کے اس اقتباس سے اکثریتی سماج کے ہندوتو وادی عناصر کی اصل بیماری کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کی طرف سے توجہ ہٹا کر سماج کو دوسری طرف متوجہ کر کے ایک الگ قسم کے سماجی و تہذیبی تصادم اور فساد و فتور میں ڈال دیا گیا ہے اور نت نئے مسائل سامنے لا کر مزید فسادات و فتن برپا کرنے کا جتن کیا جاتا رہتا ہے، اقبال کو ایک شاعر کے بجائے شیطان اور فرقہ پرست باور کرا کر خود کی فرقہ پرستی اور شیطنت کو جائز ٹھیرایا جا رہا ہے، ساورکر کے شر کو شرافت و شربت روح افزا کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساورکر کا پوتا، ہندوتو اور سناتن دھرم کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی دعوت دے رہا ہے، اس کے نتیجے بھی اتر کھنڈ اور ملک کے دیگر حصوں میں مختلف شکلوں میں بر آمد ہو رہے ہیں، یہ بھارت کو صحیح راہ سے بھٹکانے کی مذموم و ناپاک مہم ہے اس پر بلا تفریق مذہب و فرقہ تمام ہندستانیوں کی طرف سے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com