محمد علم اللہ، نئی دہلی
گزشتہ دنوں میں بال بنانے والے کے یہاں گیا تو ایک بزرگ پہلے سے داڑھی بنوا رہے تھے۔ میں وہیں سوفے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ ابھی چند منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک شخص آیا اورکہنے لگا، ’’ اور ناؤ صاحب کیا حال ہے، اور کتنی دیر لگے گی؟ ‘‘ میں بال بنانے والے شخص میں سائل کے رویے کی وجہ سے ناگواری کے تاثر کو دیکھ سکتا تھا، شاید اسی وجہ سے اس نے اسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ابھی لائن لمبی ہے اور یہ کہ دیر لگے گی۔ خیریت پوچھنے والا شخص جب چلا گیا تو وہ گویا ہوا: ’’ لائن تو زیادہ لمبی نہیں تھی، لیکن اس کے بولنے کا انداز مجھے پسند نہیں آیا۔ اس لیے اس کو ٹرخانے کے لیے کہہ دیا لائن لمبی ہے۔‘‘ پھر بات اسی طرح کے الفاظ اور القاب پر ہونے لگی۔
محترم بزرگ صاحب کہنے لگے: ’’ ابھی چند دنوں قبل میں نے اپنے ایک ہم عمر شخص کے بارے میں ایک شخص کو ‘ بڑھؤ کہتے ہوئے سنا، جو کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ کہنے لگے: ’’ ساٹھ سال کے بعد ہمارے معاشرے میں انسان کو بے کار سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں ہوتا۔ کوئی انھیں، بڈھا کہتا ہے، کوئی بڑھؤ تو کوئی بابا، حالاں کہ اس کے لیے ہمارے معاشرے میں کئی خوب صورت الفاظ موجود ہیں جیسے بڑے میاں، بزرگوارِ محترم، چچا جان، جنابِ عالی وغیرہ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان پیارے الفاظ کا استعمال ترک کرتے جا رہے ہیں جس سے اپنائیت اور محبت کی بو آتی تھی، ہم غیر محسوس طریقے سے مستقل ان الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں، جن سے اجتناب برتنا چاہیے۔‘‘پھر وہ بتانے لگے:’’جدید معاشرے نے اس سلسلے میں کافی تبدیلیاں کی ہیں، مثلا بڑی عمر کے لوگوں کو ’سینئر سٹیزن‘ کہا جاتا ہے، نوجوانوں کو ’جینٹل مین ‘یا چھوٹے بچوں کو ’ینگ مین‘۔ ہمیں بھی اس طرح کی چیزوں کو سیکھنا چاہیے اور ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جو دقیانوسی تصورات کے حامل ہیں اور جو سننے والوں کے کانوں کو بھلے نہیں لگتے۔‘‘
جب میں بال کٹواکر نکلا تو بزگوارِ محترم کی بات میرے ذہن میں گردش کرنے لگی کہ غیر محسوس طریقے سے ہم اس طرح کے کتنے ہی کریہہ اور ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں میڈیا نے بھی تاریخی طور پر سماجی دقیانوسی تصورات کو برقرار رکھنے اور ان کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور کئی مرتبہ چھَپی ہوئی شکل میں ہم اس کا عکس دیکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں بعض گروہوں یا افراد کو تنگ نظری اور تعصب کی بنیاد پر یک جہتی طریقوں سے پیش کر کے، میڈیا نے اکثر مختلف برادریوں کو بھی پسماندہ اور بدنام کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے، جہاں روایتی سوچ نے اکثر ایسے الفاظ اور تصورات کو جنم دیا ہے، جو معاشرتی تعصبات کو تقویت دیتے ہیں اور جس سے حقیقت کے بارے میں ایک مسخ شدہ تاثر پیدا ہوتا ہے۔
میں اس موضوع پر غور ہی کر رہا تھا اور کچھ لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ گزشتہ دنوں نیٹ کا نتیجہ آیا اور ایسی ہی کچھ چیزیں باضابطہ اخبارات میں شائع شدہ دیکھنے کو ملیں۔ مثال کے طور پر ایک اخبار کی سرخی کچھ اس طرح سے تھی، ’’پنکچر والے کے بیٹے نے ماری بازی، نیٹ میں فتح یابی کا گاڑا جھنڈا‘‘، ایک اور اخبارکی سرخی تھی، ’’ رکشہ چالک اپنی بیٹی کی کام یابی کو دیکھ کر ہوا جذباتی، کہا ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کیا ہوتا ہے نیٹ‘‘۔ ایک اور اخبار کی سرخی تھی، ’’ پنکچر لگانے والے کی بیٹی بنے گی ڈاکٹر ‘‘ وغیرہ۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ کیوں کہ میڈیا میں ہمیں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ ہر طبقہ اور سماج کا خیال رکھنا ہے، آپ کے لفظوں سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ ہمیں اکثر میڈیا میں الفاظ کے چناؤ، اس کے رچاؤ اور استعمال کے بارے میں محتاط رویہ رکھنے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا سماج کا آئینہ اور ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقیات اور اصول و ضوابط اب محض کتابی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں۔
اس طرح کی چیزیں اکثر ہمیں کسی کھیل یا امتحانات وغیرہ کے نتائج آنے کے بعد دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کسی بھی مسابقہ جاتی امتحان کے نتائج کے بعد آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس قسم کے الفاظ سے مزین درجنوں خبریں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ جس میں ایسی اصطلاحات اور الفاظ کا استعمال کیا گیا ہوگا جسے میڈیا کے وہ افراد اپنے محبوب شخصیتوں کے لیے کبھی استعمال نہیں کریں گے۔
میں نے اس حوالے سے اپنے فیس بک میں چند سطری نوٹ لکھا تو اس پر گفتگو کرتے ہوئے شری شیوا جی کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر سید نورالامین کا تبصرہ تھا کہ’’اس نامہ نگاری کا کیا کیا جائے جو ذلیل کر کے عزت دیتی ہے پنکچر والے کی بچی یا بچہ۔ یہ نہیں لکھ سکتے کہ معاشی بحران کے باوجود باپ نے اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے ہار نہیں مانی۔ پیشہ بیان کرنا سماجی ڈسکورس میں معیوب ہے۔ بچے کی کام یابی اور اس کی قربانیوں کا اعتراف ہونا چاہیے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا:’’گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک تہنیتی پروگرام میں جانا ہوا تو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا کہ ہر ایک مقرر یہ فلاں پنکچر والے، آٹو والے جیسے الفاظ استعمال کر رہے تھے اور تو اور حد اس وقت ہوگئی جب ایک صاحب فلاں کام والے بھابھی کہہ کر بلا رہے تھے اور گل پوشی کر رہے تھے یعنی جو بات بچوں کے اپنے ہم جماعت ساتھیوں میں چھپی تھی آج وہ سب کے سامنے سر محفل آگئی تھی۔ وہ کہتے ہیں میں بچوں کے چہرے دیکھ رہا تھا خوشی کم نظر آ رہی تھی اور شاید اسی سبب وہ نظریں چرا رہے تھے۔‘‘
اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حیدرآباد کے سید مکرم نیاز کا تبصرہ نوٹ کیے جانے لائق ہے، وہ کہتے ہیں:’’ستر اور اسی کی دہائی کے اردو اخبارات میں ایسا بالکل نہیں پڑھنے کو ملتا تھا۔ ہماری تربیت اسی دور کے اخبار و رسائل کی مرہون منت ہے۔ نوے کی دہائی سے زبان/لہجہ تبدیل ہونا شروع ہوا اور اب تیس برسوں میں تو پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔‘‘
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور اسکالر مشتاق خان کہتے ہیں:’’یہ دراصل ہندی صحافت کا چربہ ہے جو ذات کے سخت ہیرارکی سے بندھا ہوا ہے۔ اس لیے کسی اور مذہب یا ذات والے شخص کی تعریف بغیر رکیک انداز میں ذکر کے ممکن نہیں (اور یہ بڑی حکمت سے داخل کی جاتی ہے۔) گو اپنے تئیں یہ لوگ عزت افزائی کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکِن عصبیت کے عنصر کو کم زور نہیں ہونے دیتے۔ وہ کہتے ہیں یادو، کرمی، پاسی، گھسیارے کی خبریں ہائی لائٹ کرنے کا مقصد اونچی ذات والوں کو باور کرانا ہوتا ہے کہ دیکھو تمھارے رہتے یہ قومیں کیوں کر ترقی کی راہ پر گام زن ہیں۔ چوں کہ زیادہ تر میڈیا برہمنوں کے قبضے میں ہے اس لیے اس کی خبریں عصبیت سے خالی نہیں۔ ایک بے چارگی کا احساس اس قوم کے کام یاب لوگوں کے بہانے انھیں کچوکے لگاتا ہے کہ یہ کام یابی استثنائی ہے مزید کی گنجائش نہیں۔ میڈیا منفی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حالاں کہ ہمیں امیر بچے کے والدین کے بارے میں تقریباً کچھ معلوم نہیں ہو پاتا۔ سرکار کسی آدیواسی، قبائلی، اقلیت کے لیے کتنا کم کام کر رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وقتی کام یابی کے بعد ضروری نہیں کہ آگے اس بچے کو مستقل بلند مقام ملتا جائے۔ لیکن اس کی ذاتی انا پر چوٹ پہنچائی جا چکی ہوتی ہے۔ جو خاندان کے افراد یا دور کے دوست نہ جانتے ہوں کہ فلاں کس شعبے سے متعلق ہیں ان کو بھی واقفیت ہوجاتی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’’طبقاتی، امارتی اور معاشی نظام کے تحت مختلف طبقوں میں بٹتا ہوا سماج جب کسی مقام یا کام یابی کو حاصل کرتا ہے تو اولاً جو تصویر دکھائی جاتی ہے اس میں آٹو چلاتا ہوا، رکشا چلاتا یا سر پر ٹوکری لاد کر پھیری کرنے والے شخص کے ساتھ اس کام یاب بچے کی تصویر ہوتی ہے۔ چاہے وہ کشتی میں، تیز اندازی میں یو پی ایس سی میں یا کسی بینک کی نوکری کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوا ہو۔ افسوس اس تعصبی ذہنیت کا جس پر سیدھی سیدھی خبر لکھنے کے بہ جائے اس شخص کی معاشی حیثیت دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے گو کہ عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو سبق لینے کو ابھارتی ہو، لیکن حقیقتاً کسی غریب کی غربت و افلاس کے بوجھ کا مذاق اڑانے جیسا ہوتا ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کیا ضروری ہے کہ کسی خاکروب، پنکچر والے، بیلدار کے پیشے کا دنیا کے سامنے ڈھنڈورا پیٹا جائے اور اس کی بے چارگی و کس مپرسی کا اعلان کیا جائے۔ آج سے دو دہائیاں قبل زیادہ تر ہندستان میں کام یابی حاصل کرنے والے لوگ اسی طرح کے غریب گھرانے کے بچے ہوا کرتے تھے پھر خواہ وہ منموہن سنگھ ہوں، ملکھا سنگھ، اظہر الدین وغیرہ مگر اس وقت کا میڈیا کبھی ان کے آبا کے پیشے کو اس طرح اجاگر نہیں کرتا تھا کہ جس سے تضحیک محسوس ہوتی ہو۔‘‘
لندن میں رہنے والے معروف صحافی محمد غزالی خان اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں:’’یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقل گالیاں دینے کے باوجود ” گودی میڈیا “ دیکھ اور پڑھ کر ہم اس سے کتنا متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں ’پنکچر والا‘ متعصب میڈیا نے مسلمانوں کی تحقیر کے لیے خوب استعمال کیا ہے اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے نے اسے غریب مسلمان کے لیے بہ آسانی اپنا لیا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ٹھیٹ ہندی کے الفاظ مسلمان گھرانوں میں ہمارے بچپن کیا جوانی تک بھی ہم نے کبھی نہیں سنے تھے۔ ایسا کرنا معیوب سی بات سمجھی جاتی تھی۔ مگر اب منتری، نیتا، دنگا، آتنکواد، آندولن جیسے الفاظ کا بلا تکلف استعمال ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں یہ مثالیں ’پنکچر والے‘جیسے لفظ کے استعمال میں چھپی بے حسی کی شدت کو کم کرنے کے لیے دے رہا ہوں، بلکہ یہ ہماری ذہنی مغلوبیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔‘‘
ہمارے سماج میں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے سماج میں ہم دھڑلے سے دھنیا، جولاہا، چمار، لنگڑا، لولا جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ اس قدر عام ہے کہ کوئی اس کو عیب بھی تصور نہیں کرتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سماج حساس ہو اور سب کو ساتھ لے کر چلے، جب ہم ایسا کریں گے، تبھی ہم ترقی یافتہ یا مثالی قوم کہلا سکتے ہیں۔ سماجی دقیانوسی تصورات گہرائی سے جڑے ہوئے معاشرتی تعصبات کی وجہ سے برقرار ہیں، لیکن وہ ناقابل تغیر نہیں ہیں۔ بدلتے ہوئے زمانے میں ان دقیانوسی تصورات کو روکنے اور چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، جس سے زیادہ جامع اور مساوی معاشرے کی راہ ہموار ہو۔ میڈیا، تعلیم، فعالیت اور تعمیری مکالمے کے اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر، ہم بیانیے کو نئی شکل دے سکتے ہیں اور ہمدردی اور افہام و تفہیم کے ذریعے سے ایک مثالی سماج کو فروغ دے سکتے ہیں۔