ثناءاللہ صادق تیمی
سماجی زندگی میں منفی احساسات و جذبات عام بات ہے ۔ ہر کسی کو ہر کسی سے شکایت ہے ، کوئی کسی کی خوشی دیکھنا نہیں چاہتا۔ حکمرانوں کو عوام سے شکایت ہے جب کہ عوام ساری مشکلات کی جڑ حکمرانوں کو سمجھتے ہیں ۔ ہر طبقہ دوسرے طبقے کے بارے میں منفی خیالات کا حامل ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو کسی سے محبت نہیں ۔ طبقات کی سطح پر عجیب وغریب غلط فہمیاں اور نفرتیں ہیں ۔ غریبوں کو مالداروں کے یہاں ایمانداری نظر نہيں آتی ، متوسط طبقہ مالدار اور غریب دونو ں کے بارے میں برے خیالات پالے ہوا ہے اور مالدار طبقے کا بھی یہی حال ہے ۔یوں ہر طبقہ دوسرے کے بارے میں شاکی ہے اور کوئی کسی کی اچھائی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کے اسباب وعوامل ہیں اور جب تک ان اسباب و محرکات کو نہ دیکھا جائے یہ کیفیت سمجھ میں نہيں آسکتی ۔افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ دن بہ دن ان طبقات کے بیچ خلیج بڑھتی ہی جاتی ہے جس سے مزید غلط فہمیوں کوپنپنے کا موقع مل رہا ہے ۔
غور کیجیے تو انسان اس مادی دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ، یہاں ہر آدمی آگے بڑھنا چاہتا ہے اور آگے بڑھنے کی راہ ہمیشہ مشکلات سے بھری ہوتی ہے ، اب اگر وہ سمجھدار اور توفیق یاب ہو تو اپنی پریشانیوں کا سبب تلاش کرتا ہے اور سمجھداری سے اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ وہ خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی پر الزام رکھ کر خود کو مطمئن کرلیتا ہے۔ انسان کی کامیابی یا ناکامی کے پیچھے اصل اس کا اپنا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس کی سمجھ نہيں ہوتی ، وہ لازما اسباب کہیں اور تلاش کرکے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طبقے کو دوسرے طبقے سے شکایت ہے ۔ ایک صاحب کا تعلق معاشی اعتبار سے نبستا ایک کمزور پریوار سے تھا، شروع شروع میں ان کی نفسیات یہ تھی کہ وہ مالداروں کو ساری برائی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ، پھر انہیں سمجھ آئی اور کڑی محنت اور لگن سے انہوں نے اپنا مقام بنایا ، کچھ سالوں بعد وہ سماج کے مڈل کلاس کا حصہ بن گئے ، انہوں نے اور بھی کوششیں جاری رکھیں اور سماج کے ایلٹ گروہ میں گنے جانے لگے ۔ ہر طرح کی سہولتیں انہيں دستیاب ہوئیں اور بڑے آدمی کا اسٹیٹس مل گيا۔ انہوں نے جب اس پر توجہ سے سوچا تو انہيں سمجھ میں آیا کہ تینوں در اصل ایک ہی ہیں ، ایک ہی نفسیات ہے تینوں کی، تینوں کو اپنے علاوہ دوسرا مسئلہ لگتا ہے اور برائیوں کی جڑ ۔ وہ غریب تھے تو سارے غریب متوسط اور مالدار طبقوں سے جلتے تھے ، انہیں گالیاں بکتے تھے ، ان کے اندر ایمانداری ، اخلاقیات اور شرافت کو قبول نہیں کرتے تھے ، میں جب مڈل کلاس سے جڑے تو پتہ چلا کہ اس طبقے کو تو دونوں سے ہی مسئلہ ہے ، یہ غریب کو حقیر اور مسائل کی بنیاد بھی مانتا ہے اور مالداروں کو غاصب اور بے ایمان بھی ۔ اس کی نظر میں غریب میں اعلا تہذیبی قدریں نہيں ہوتیں اورمالداروں میں غیرت و حمیت کا چلن نہیں ، سر تا پا بد عنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور جب ایلیٹ کلاس سے منسلک ہوئے ، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو دونوں کو ہی حقیر سمجھتا ہے ، اس کی نظر میں بھی سارا مسئلہ انہی دو کمزور طبقات سے پیدا ہوتا ہے ، غریب مفت کی سہولتیں حاصل کرتا ہے اور مڈل کلاس اوقات سے باہر خود کو ایلیٹ کلاس سے بڑھ کر سمجھنے کی غلطی کرتا ہے ۔جب کہ یہ ساری درجہ بندی اللہ پاک کی اپنی مشیئت ہے اور ہر انسان کے لیے میدان کھلا ہوا ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی توجہ صرف کرنے کی بجائے اپنے کل کو روشن کرنے کی کوشش کرے تو وہ کہیں سے کہیں نکل جائے۔
اس پورے منظرنامہ کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بہر حال موازنہ کرتا ہے اور اسی موازنے سے خوشی یا غم کشید کرنے کی غلطی کرتا ہے ۔ غریب جب مڈل کلاس اور ایلٹ کلاس کی فروانی دیکھتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے ، اب وہ مختلف طریقوں سے اس تکلیف کو خوشی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ ان دوطبقات میں بد عنوانی ، بے حیائی ، بے دینی اور نہ جانے کیا کیا ڈھونڈ نکالتا ہے کہ وہ اپنی تکلیف کم کرسکے اور خود کو جھوٹی تسلی دے سکے لیکن اس سے بہر حال یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے اندر اپنی نا مرادیوں اور محرومیوں کو جھیلنے کی سکت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مڈل کلاس کو غریبوں کا سکون اور مالداروں کی حیثیت پریشان کرتی ہے اور وہ دونوں میں کمیاں نکال کر خود کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، اس طرح اسے ان دونوں کے مقابلے میں خود کو برتر مقام دینے کا راستہ مل جاتا ہے اور یوں وہ بھی زندگی کی ناہمواریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو آمادہ کرلیتا ہے اور جہاں تک ایلیٹ کلاس کی بات ہے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ساری سہولتوں ، دولتوں اور قوتوں کے باوجود جو سکون ، چین ، بشاشت اور مسرت ان دو طبقات کو حاصل ہے وہ اسے نہیں ، اسے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ساری سہولتوں سے دور رہ کر بھی زندگی کو اتنی آسانیوں سے کیسے کاٹ سکتا ہے اور یوں وہ ہر طرح کی خرابیاں تلاش کرکے خود کو ہر اعتبار سے برتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، و ہ سوچتا ہے کہ چلو یہ اچھی نیند کے مزے لے رہے ہیں ، سکون سے جی رہے ہیں لیکن ان میں تہذیب کہاں ہے ؟ ان کے پاس دولت کہاں ہے ، ان کو جانتا کون ہے ؟ ان کے یہاں شرافت کہاں ہے ؟ ان تمام کوششوں سے در اصل یہ طبقہ بھی اپنی برتری اور خوش فہمی کو تازہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ زندگی اور نت نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرسکے ۔ اگر یہ کیفیت نہ ہو ، یہ مقابلہ نہ ہو ، یہ موازنے کی نفسیات نہ ہو تو سماج کو ایک قسم کا ٹھہراؤ بھی لاحق ہوسکتا ہے اور ترقی رک بھی سکتی ہے ۔
لیکن غلطی ہماری یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کا مطمح نظر دنیا ہے ، اس لیے ہم ہمیشہ خود کو بڑے لوگوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور حسد وجلن کے جراثیم ہمارے ذہن ودل پر قبضہ جما لیتے ہيں ۔ ہمارا نصب العین اگرآخرت ہو تو ہم دنیا کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب اپنے سے کمتر کو دیکھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہم بہر حال نعمت میں ہیں اور دین کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھیں کہ ہم واقعی بہت پیچھے ہیں ، اس لیے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اگر ایسا ہو تو مقابلے کا فائدہ بھی حاصل ہو اور حسد و جلن کی کیفیت بھی نہ ہو ۔ سچ پوچھیے تو اللہ پر صحیح ایمان ، توکل ، خود پر توجہ اور اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھنا یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے لیس ہوکر آدمی ان منفی جذبوں سے بچ کر اپنا سفر کامیابی سے آگے بڑھا سکتا ہے ورنہ ان اقدار و عقائد کی کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر طرف شکایتیں ہیں اور کوئی کسی سے خوش نظر نہیں آتا۔کمال یہ ہے کہ ہر معاملے میں قضاء وقدر کی بات کرنے والا انسان اس معاملے میں اللہ کے قضاء و قدر کے بارے میں سوچتا ہی نہیں ۔