قربانی انسانی فطرت کا تقاضا

مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی

اظہار عقیدت و محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، ماں باپ ، بھائی بہن ، بیوی بچے ،دوست احباب، رشتہ دار سب سے انسان اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، اسی طرح اس کی فطرت یہ بھی تقاضا کرتی ہے “معبود ” سے اپنی عقیدت کا اظہار کرے،۔ ، اور سب کے ساتھ اظہار محبت کے لئے علی حسب المراتب مختلف طریقے اختیار کرتا ہے، ماں باپ کی خدمت کرتا ہے، بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مشقت برداشت کرتا ہے، احباب سے محبت کا اظہار کرتا ہے، اور خالق کی عبادت کرکے اس کے تئیں اپنی عقیدت و محبت ظاہر کرتا ہے، اس کی فطرت اسے یاد دلاتی ہے کہ تمہارا کوئی خالق ہے، وہی مالک اور وہی رازق ہے ،دنیا کا سارا کاروبار اسی کے اشارے پر چلتا ہے، ہماری ہر سانس،اس کا ہر مدو جزر اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، لہذا انسان اس خالق کے سامنے اپنی نیاز مندی کا اظہار کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنی نیاز مندی کا اظہار کیسے کرے، تو جس طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مسائل حل کرنے کیلئے غور و فکر کرتا ہے، اسی طرح اپنے محتاجگی اور رب کی بے نیازی، اپنی لاچاری اور رب کی بے پناہ قدرت میں غور فکر کرکے خالق کائنات کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے اس سے اظہار عقیدت و محبت اور نیاز مندی کے طریقے تلاش کرتا ہے، عقل اسے مختلف طریقے بتاتی ہے، یہیں سے رب سے اظہار عقیدت کے مختلف طریقے وجود میں آتے ہیں، یہاں انسان سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ عقل سے وہ کام لینا چاہتا ہے جو اس کی حد سے باہر ہے،۔ اسے “اهدنا الصراط المستقيم” کہہ کر ہدایت کی بھیک مانگنی چاہیے، لیکن وہ عقل پر بھروسہ کر بیٹھتا ہے، لہذا لازمی طور پر اس سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، فطرت تقا ضا کرتی ہے کہ چوں کہ خالق کا مرتبہ اعلی ترین ہے لہذا اظہار عقیدت کے لئے اپنی عزیز ترین چیزوں کا نذرانہ پیش کیا جائے، چناں چہ ایک تو بدنی مشقت اٹھاکر محبت کا اظہار کرتا ہے، دوسرے مال کا نذرانہ پیش کرتا ہے، یہ دونوں طریقے ہر وہ شخص اپناتا ہے جو کسی شکل میں بھی خدا پر یقین رکھتا ہے، بدنی اور مالی نذرانہ چونکہ فطرت کا تقاضا ہے لہذا اس فیصلہ میں غلطی نہیں ہوتی، یہاں تک انسان صحیح سمت سے ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد ایک بہت بڑی غلطی یہ سرزد ہو جاتی ہے کہ وہ جان و مال کے نذرانہ کی کیفیت، و کمیت کی تعیین میں عقل سے استعانت طلب کرلیتا ہے، وہ عقل سے اس سوال کا جواب طلب کرتا ہے کہ عبادت کس طرح کرے، کتنی مشقت برداشت کرے، کس قدر مال صرف کرے، ظاہر ہے اس سوال کا جواب اس کی حد میں نہیں ہے، اسلئے گمراہی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جس سے عقیدت و محبت کے بجائے نافرمانی جھلکتی ہے، چناں چہ بدنی عبادت کیلئے جو طریقے اختیار کرتا ہے اس میں مشقت کے بجائے جسم کو اذیت پہونچتی ہے، مالی قربانی کے طریقوں میں مال کا ضیاع لازم آتا ہے، جبکہ دونوں باتیں ممنوع ہیں۔

اسلام کا طریق تعلیم یہ ہے کہ فطرت سلیمہ جن اعمال و افعال کا تقاضا کرتی ہے، ان کے حدود اربعہ کی تعیین کرکے اسے برتنے کی اجازت دیتا ہے، اور فطرت جن چیزوں سے اباء کرتی ہے ان سے روک دیتا ہے، رب سے عقیدت و محبت کا اظہار بھی فطرت کا تقاضا ہے، نیز انسانی فطرت یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ جانی اور مالی نذرانہ پیش کیا جائے، خالق و مالک نے جو عطا کیا ہے اس کا شکرانہ پیش کیا جائے، لہذا اسلام نے ان دونوں کا حکم دیا ساتھ ہی حد بندی کرتے ہوئے کمیت و کیفیت، طریقہ عبادت حتی کہ وقت کی بھی تعیین کردی، نماز روزہ کی شکل اور دیگر بدنی عبادات کا حکم دیا کہ اگر جسمانی و روحانی مشقت کے ذریعہ اظہار عقیدت کرنا چاہتے ہو تو “,تیاگ”، “رہبانیت”، اور “تپسیا” کے نام پر جسم کو اذیت دینے کے بجائے، نماز پڑھو روزہ رکھو، اس میں طریقہ ایسا اختیار کیا جس سے جسم کو اذیت کے بجائے فائدہ پہونچے، حج میں بدنی اور مالی دونوں مشقت ہے لیکن اتنی جو انسان کے بس میں ہے، مال صرف کرکے محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہو تو مجسموں پر “چڑھاوا” یا کسی خاص طبقہ کو دینے کے بجائے، صدقے کرو، زکوٰۃ دو، جو لوگ اپنی عزیز ترین چیز جان کے بدلے جانور کا خون بہاکر محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ، انہیں حکم دیا کہ گوشت پوست ضائع کرنے کے بجائے اپنے ساتھ غرباء مساکین کو کھلاؤ، یہ حکم نہیں دیا گیا کہ ذبیحہ کا خون خدا کے خود ساختہ تصوراتی مجسہ پر بہایا جائے، اس کی کھال اور گوشت جلا دئے جائیں، ذبح میں وہ طریقے اختیار کئے جائیں جس سے جانور کے تئیں انسان کی قساوت قلبی جھلکتی ہو، اسلام کے علاوہ جن مذاہب کے ماننے والے بھی قربانی پیش کرتے ہیں ان کے طریقوں پر ادنی تامل سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مال کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں، اور ظاہر ہے مال اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس کا ضیاع رب کی نافرمانی ہے نہ کہ اس کے تقرب کا ذریعہ، قربانی اور دیگر عبادات کیلئے غلط طریقوں کا انتخاب بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خود ساختہ اور عقل کے سہارے گڑھے گئے ہیں۔

چونکہ انسان نے رب کی تعیین میں بھی عقل کا سہارا لیا تو وہ گمراہ ہو گیا اسی طرح طریق عبادت کی تعیین میں بھی اس سے شدید غلطیاں سرزد ہوئیں،

اسلام نے دونوں امور میں رہنمائی کی، رب حقیقی کا پتہ دینے کے ساتھ یہ بتایا کہ تمام قسم کی عبادات اسی کیلئے مخصوص ہیں، نیز اس کی عبادت کے طور طریقے کی طرف بھی رہنمائی کی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانوں کو پہلے یہ پیغام دیا کہ اللہ ایک ہے “قل هو الله أحد” دوسرے تمام خود ساختہ معبودانِ باطل کا انکار کرکے اس ایک کی طرف جھکنا ہوگا، “الله لا اله الا هو ” ” اللہ وہ معبود برحق ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں”، اور جب یہ طے ہوگیا تو انسان کو اسی کی عبادت کرنی چاہئیے، یہی سیدھا راستہ ہے “فاعبدوني هذا صراط مستقيم” یہ بھی اعلان کیا کہ چونکہ اللہ نے سیدھا راستہ دکھلا دیا ہے، ایسے دین کا پتہ دے دیا ہے جس میں کوئی کجی نہیں، وہی ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے جنہوں نے کبھی شرک نہیں کیا،

قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

“(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کہیے کہ میرے رب نے تو مجھے ہدایت دے دی ہے سیدھے راستے کی طرف وہ دین ہے سیدھا جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں اور ملت ہے ابراہیم کی جو یکسو تھا (اللہ کی طرف) اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا”

لہذا بندوں سے کہہ دیا جائے کہ عبادت کی تمام شکلیں بھی اسی رب کیلئے مخصوص ہیں، جو یکتا و تنہا ہے، اور اس کائنات کا پالنہار ہے۔

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِین

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے”

رہا یہ سوال کہ نماز، روزہ حج زکوٰۃ ، قربانی اور دیگر تمام عبادات کی کیفیت کیا ہوگی تو یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرکے سکھایا، اس کی تعلیم دی۔ اور ایسے طریقے سکھائے جن سے فطرت کا تقاضا بھی پورا ہوجائے اور جسم و جان اذیت سے بھی محفوظ رہے اسی طرح مالی عبادات میں ایسا معتدل طریقہ مقرر کیا، جس سے دوسرے بندگان خدا کو فائدے بھی حاصل ہوجائیں اور شکرانہ و نذرانہ پیش کرنے والے کو یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے جو کچھ کمایا تھا وہ عبادت کے نام پر چھین لیا گیا، بلکہ وہ فرحت و سکینت محسوس کر سکے۔

قربانی جانی و مالی شکرانہ کی انتہائی شکل ہے، رب کی خوشنودی اور اس کے تقرب کا اعلی ترین ذریعہ ہے، جس طرح جان کی قربانی سے اعلی ترین مقصد، رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اسی طرح دوسرے اہم مقاصد کیلئے قربانیاں مطلوب ہیں، جیسا مقصد ہوگا ویسی قربانی مطلوب ہوگی۔

نیز ہرسال سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کا اعادہ کرواکے بندوں کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ تسلیم رضا کی اعلی ترین شکل کیلئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئیے، جس نے جان عطا کی ہے وہ اگر جان دینے کا حکم دے تو پس و پیش کی کوئی گنجائش نہیں، مالک کی اطاعت کا ایسا جذبہ ہو کہ اس کی رضا کیلئے عزیز ترین شی کی قربانی دینی پڑے تو بندہ اس سے بھی گریز نہ کرے، تب جاکر وہ اعلی ترین مقام حاصل کر سکتا ہے جس کی تلاش میں اس کی فطرت بے چین ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com