’صابرہ خاتون ‘ والدہ قاری صہیب ایم ایل سی کے جانے کا غم
پُرسہ: مولانا مظفر احسن رحمانی
ایم ایل سی قاری صہیب کی والدہ بہت خاموش طبیعت اور شریف النفس کے ساتھ مہمان نواز ، صوم و صلوٰۃ کی پابند اور علماء کی قدر داں تھیں ، انہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی کے ساتھ گذارنے کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت میں صرف کردی، اپنے نام کا ان کی ذات پر بڑا اثر تھا ،نام بھی ’صابرہ ‘ تھا اور انہوں نے اپنی زندگی بھی ’صبر وشکر ‘ کے ساتھ گذار دی۔
ان کی شادی سمستی پور ضلع کے ’رہوا ‘ گاؤں میں ایک متمول اور صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھنے والے مشہور قاری قرآن ، سینکڑوں حفاظ کے استاد ، تادم حیات بہار کے مشہور دینی وتربیتی ادارہ ’جامع العلوم ‘ مظفرپور کے نائب مہتمم اور صدر شعبہ حفظ حضرت قاری نسیم احمد رحمہ اللہ سے ہوئی تھی ،قاری صاحب خود بھی بڑے مہمانوں کے قدرداں اور خرد نواز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں سے بے حد محبت کرنے والوں میں سے تھے ، خود ان کی اپنی یافت کچھ زیادہ تو نہیں تھی اور آپ کثیرالعیال بھی تھے ،اس ماحول میں ایک خاتون کا گھر چلانا کتنا مشکل ہوسکتا ہے وہ کوئی جگر رکھنے والی خاتون ہی اندازہ کرسکتی ہے، قاری صاحب نے ابھی کچھ ہی دنوں قبل اپنے رب کے حضور حاضری دی ہے ۔
مرحومہ کا آبائی گاوں دربھنگہ ضلع سے چالیس کیلومیٹر کی دوری پر واقع علم و ادب کی بستی ’جالے ‘ہے ، ان کا تعلق اس آبادی کے مشہور شخصیت جناب دبیر صاحب مرحوم سے ہے جو ان کے نانا تھے اور اپنے وقت میں سماجی و رفاہی کاموں اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہت مشہور علمبرداروں میں سے تھے ، ان کے دادا جناب نصیراحمد مرحوم جناب دبیر صاحب مرحوم کے سگے بھائی تھے ، قدیم زمانے میں آپسی رشتے کو ترجیحی بنیاد پر پسند کیا جاتا تھا ،اس طرح جناب دبیرصاحب مرحوم کی بیٹی کی شادی جناب نصیر صاحب کے فرزند جناب سراج احمد صاحب مرحوم سے ہوئی،(جناب سراج احمد صاحب مرحوم تا حیات بہار کے بلکہ ہندوستان کے سب سے معتبر تنظیم امارت شرعیہ بہارواڈیسہ کے شعبہ مالیات کے ذمہ دار رہے ،امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور اس وقت کے ناظم حضرت مولانا سید محمد نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ مرحوم پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے ، امارت شرعیہ بہار و اڈیسہ کی ترقی میں جہاں ان بزرگوں کا ہاتھ ہے وہیں اس خاموش اور صالح فکر کے حامل شخص کی قربانیوں کا دخل رہا ہے) جن سے ایک لڑکا جناب منہاج انجینئر صاحب (یہ بھی رفاہی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں اور خدمت خلق کے حوالے سے خلق خدا میں متعارف ہیں ،دین دار بھی ہیں اور علماء نواز بھی)، اور ایک لڑکی ’بی بی صابرہ خاتون ‘ ہوئیں ،جن کی شادی روسڑا بلاک کے ضلع سمستی پور کے ایک زمیندار اور سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے سید شاہ محمد عثمان صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے جناب قاری نسیم احمد سے ہوئی ۔
مرحومہ بہت دیندار تھیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اہنے شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت کی خاطر صوبہ بہار کے مشہور تجارتی شہر مظفرپور میں گذار دی، یہی وجہ ہےکہ اُن کے سارے بچے دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر حافظ و عالم بھی ہیں ، اللہ نے انہیں چھ لڑکے اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔
ابرار احمد سب سے بڑے فرزند ہیں ، دوسرے فرزند جناب قاری صہیب احمد جو بہت اچھے حافظ اور قاری ہیں ،اس وقت بہار کی سیاست میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ، راشٹریہ جنتا دل کے بہت مضبوط نمائندہ اور ایم ایل سی (بہار قانون ساز کونسل ) کے نمائندہ ہیں، ان کی شادی شاہ حبیب الحسن صاحب مرحوم کی نواسی عزیزہ حافظہ زریں معصوم سے ہوئی جس نے جالے میں رہ کر سبیل الفلاح جالے سے قران کریم حفظ کیا، انہیں اللہ نے بہت عمدہ قرآن پڑھنے کا ذوق عطا کیا ہے، تیسرے فرزند قاری محمد فضیل بہت عمدہ قرآن پڑھنے کے ساتھ علم شرقیہ میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ، چوتھے فرزند محمد جنید جو اپنی جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ،پانچویں فرزند جناب قاری طفیل احمد صاحب جن کا شمار بہار اور ہندوستان کے اچھے قاریوں میں ہوتا ہے اور اپنے والد جناب قاری نسیم احمد صاحب کے انداز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس وقت وہ اپنے گھر پر ہی بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے دارالاقامہ (ہوسٹل) کے ساتھ باضابطہ ادارہ چلاتے ہیں انہوں نے دولفظ مجھ سے پڑھے ہیں اس لئے وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،محمد عباد یہ بھی حافظ قاری ہیں اور پڑھ رہے ہیں دو بیٹی شگفتہ فاطمہ اور شافیہ فاطمہ ہیں دونوں ہی شادی شدہ ہیں اور سکھ و سکون کی زندگی بسر کررہی ہیں۔
مرحومہ اپنے مائیکہ جالے میں خوشی اور غم کے دنوں میں ضرور آتی تھیں اور جب قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیات سے تھے تو کبھی کبھی شوق سے بھی آجاتی تھیں ان کے ایک ماموں جناب شبیر جالوی صاحب بہت ہی خلیق اور ملنسار ہونے کے ساتھ خاندانی روایات کی پاسداری کرنے والوں میں تھے ان کی زندگی بھر آتی رہیں ان کے انتقال کے بعد شاید وقت نے انہیں موقعہ نہیں دیا ،جب وہ جالے آتیں تو اڑوس پڑوس کی عورتیں ان سے ملنے اور حال احوال کے دریافت کے لئے کثرت سے آتی تھیں گویا ان کی شرافت ،مروت اور آپسی لحاظ نے انہیں سب کا گرویدہ بنادیا تھا ،مرحومہ کا علاج ایک لامبے عرصے سے چل رہا تھا اور اس وقت وہ دہلی کے ایمس میں زیر علاج تھیں علاج کے دوران ہی دہلی ایمس میں اللہ کو پیاری ہوگئیں ،اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے ۔ نماز جنازہ اور تدفین انتقال کے ایک روز بعد۲۰ جولائی ۲۰۲۳ کو آبائی گائوں رہواسمستی پور میں ہوئی اور نمازہ جنازہ ان کے فرزند قاری طفیل نے پڑھائی، جلوس جنازہ میں علما، صلحا سمیت بڑی تعداد میں سوگوار موجود تھے ، جن میں برادران وطن کی بھی تعداد ا چھی خاصی تھی۔
شریک غم
مظفر احسن رحمانی
معتمد رابطہ عامہ دارالعلوم سبیل الفلاح جالے