مذہبی کرداروں اور علامتوں کے استعمال کے خطرے!

مولانا عبدالحمیدنعمانی

مذہبی علامتوں اور نفرت پر مبنی فرقوں کے درمیان تعلقات کو لے کر جس طرح کا ماحول بنا دیا گیا ہے اور بنایا جا رہا ہے اس نے بھارت کی شناخت اور قابل تحسین خصوصیات پر کئی سارے ایسے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جو مذہبی علامتوں اور کرداروں کی شبیہ بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں، ہندستانی تناظر میں زہر پینے والے نیل کنٹھ شیو، تیر کمان بردار مریادا شوتم رام اور ہونٹوں پر میٹھی تان کی بانسری رکھے کرشن کے کردار کو فرقہ پرستی اور باہمی نفرت و تصادم کی طرف لے جانے کی جو جارحانہ کوششیں کی جارہی ہیں، ان سے بالکل واضح طور سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والے نہ تو بھارت کو جانتے ہیں اور نہ اس کے عوام سے وابستگی رکھنے والے کرداروں کے معانی و مطالب سے واقف ہیں، پرانک کردار نیل کنٹھ شیو کی طرح دیوتاؤں اور راکشسوں کے مشترکہ حرکت و عمل کے نتیجے میں نکلے زہر کو پینے اور اسے خود میں رکھنے کے بجائے، سماج میں گھول کر انسانی رہائش و راحت کو تباہ کرنے کا کام، سماج کے معروف کرداروں کے نام پر ہی کر رہے ہیں، بھارت میں مندر/مسجد اور عظیم ہستیوں کو آستھا اور بندگی کے مراکز کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، ملک کی طویل روایات و تواریخ میں کبھی بھی، فرقہ وارانہ نفرت و تصادم کے لیے استعمال کرنے کی عوامی اور قومی سطح پر روایت و روش نہیں رہی ہے، اس مکروہ روایت و روش کا منظم سلسلہ، برٹش سامراج کے عہد بد میں جاری ہوا اور اسی کو فرقہ پرست عناصر غلامانہ ذہنیت کے تحت رکھے ہوئے ہیں، یہ آزاد بھارت کے جمہوری اور آئین پر مبنی نظام حکومت و حیات سے پوری طرح متصادم و مخالف ہے، شہریوں کے مساوی حقوق و اختیارات کے مد نظر اکثریت پرستی اور تفوق پسندی کی سوچ کے لیے آزاد سیکولر بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے، ملک کی آزادی کا مطلب یہ قطعا نہیں ہے کہ اس کا کوئی گروہ، طبقہ اور کمیونٹی، دیگر اقلیتی گروہ، طبقہ اور کمیونٹیز پر اپنا تسلط و غلبہ قائم کرنے کی مذموم سعی کرے، اس کے خلاف مزاحمت و جد وجہد، ملک کے وقار و آئین کو بچانے کے مقصد سے ضروری اور وقت کا تقاضا ہے، بھارت کے تکثیری سماج میں تہذیبی تنوعات اس کی خصوصیت و شناخت ہیں، اس تناظر میں “بھارت میں رہنا ہے تو اللہ اکبر نہیں، جے شری رام کہنا ہوگا “جیسے نعرے، پوری طرح غیر ذمہ دارانہ عمل اور ہندستانی سنسکرتی اور روایات کے خلاف ہیں ،چند دنوں پہلے (24/25/دسمبر 2023) کرناٹک کے آر ایس ایس کے سینئر لیڈر کلڈ کاپر پربھاکر نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جے شری رام کہنا ہوگا، اللہ اکبر نہیں، حیرت و تشویش کی بات ہے کہ آر ایس ایس سے وابستہ مسلم راشٹریہ منچ کے مسلم نام والے لوگوں اور اس کے سر پرست کی طرف سے کوئی تنقید و مذمت ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ مسلم نمائندوں کو حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے اس کے باوجود کہ وہ آر ایس ایس کے ہندوتو وادی نمائندوں سے بڑھ کر یا برابری کرتے نظر آتے ہیں تاہم وہ مسلم سماج کی جائز باتوں کو تو کہہ ہی سکتے ہیں، یہ خطرناک صورت حال ہے کہ فرقہ وارانہ شدت پسندی اور تفریق کو سماج کے مین اسٹریم میں لانے کی کوششیں، سیاسی کامیابی بن گئی ہیں اور ان کی تقویت میں، اقتدار اور ملک کے سسٹم کی حصہ داری و شمولیت صاف طور سے نظر آتی ہے، یہ دہلی کے سنہری باغ کی مسجد کے ساتھ، کاشی، متھرا کے مندر/مسجد کے معاملے میں اور اجودھیا کے رام مندر کے تعمیر و افتتاح کے سلسلے میں بھی واضح طور سے نظر آتی ہے، آئینی حیثیت سے ایک سیکولر حکومت کا کردار و رویہ، تمام مذاہب کے متعلق یکساں اور برابری کا ہونا چاہیے، پارٹی یا حکومت کے طور پر کسی ایک کمیونٹی یا مذہب، دھرم کے پلڑے میں وزن ڈالنا، کوئی راست رویہ نہیں ہے، ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سومنات مندر کے متعلق اپنی غیر جانبداری اور سیکولر پالیسی کا ایک قابل تقلید کردار پیش کیا تھا، انھوں نے شنکر آچاریہ کی ملاقات کے موقع پر بھی وزیر اعظم کے وقار و کردار کا پورا پورا تحفظ کیا تھا، یہ افسوس و تشویش کی بات ہے کہ گاندھی، نہرو کے کردار کے تحفظ و دفاع میں کانگریس ناکام ہے، جب کہ رام کے نام پر ان کے بے داغ کردار کو سامنے لانے اور غیر متنازعہ عبادت گاہ کی تعمیر کرنے میں پورا ہندوتو وادی سماج پوری طرح ناکام ثابت ہوا ہے، جس ماحول اور حالت میں مندر – مسجد کی تعمیر کا عمل سامنے آ رہا ہے وہ مندر -مسجد کے کردار و تقدس کے خلاف ہے، کچھ افراد کو مندر-مسجد میں “ایڈجسٹ “کرنے کے چکر میں مندر-مسجد کے کردار و تقدس سے سمجھوتا ایک تکلیف دہ عمل ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند مولانا ارشد مدنی نے جو تبصرہ کیا ہے اس سے مندر-مسجد کے کئی ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو عبادت گاہ کے کردار و تقدس کی بقا۶ و تحفظ میں رکاوٹ اور جذبہ بندگی کے انہدام کی راہ ہموار کرنے کا کام کرتے ہیں، ایسے معاملات میں رہی سہی کسر سیاسی افراد اور پارٹیوں کی شرکت و مداخلت پوری کر دیتی ہے، کچھ جہات سے بھارت میں رام، راون کا کردار کئی معانی رکھتا ہے، اس سلسلے میں نیکی و بدی کی علامتوں کو اپنی اپنی جگہ رکھنا، کردار کی حفاظت کے لیے، ایک مخصوص قسم کا اپنے اندر تقاضا رکھتا ہے، جے شری رام کے نعرے سے رام کے کردار اور آدرش کو تباہ کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، اللہ اکبر، جس کی تحسین گاندھی جی نے بھی کی ہے اور نو ایجاد نعرہ جے شری رام میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش ،بھارت کے تکثیری سماج اور تہذیبی تنوعات، جن کا اعتراف گرو گولولکر نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے غیر ضروری ہونے کے تناظر میں کیا ہے ،سراسر ناسمجھی و نادانی ہے، آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت کی طرف سے بار بار ملک کے تہذیبی تنوعات کی پیروی کرتے ہوئے فرقہ وارانہ اتحاد کی بات کہنے کے باوجود، یک طرفہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی، کس طرح کی جا رہی ہے، کیا ہندستانی راشٹر واد میں، مساجد کے، مندر تحریک کی سیاست کے لیے کوئی جگہ ہے؟اس تعلق سے وسیع پیمانے پر بحث و گفتگو کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے، یہ اچھا اور خوش آئند بات ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے یہ کہتے ہوئے رام مندر کے افتتاحی پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ رام مندر کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے،” پران پرتشتھا مہوتسو ” میں اپوزیشن کے لیڈروں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اطلاع ہے کہ بہت سے لیڈروں نے دعوت قبول کر لی ہے، جب کہ کچھ نے خاموشی اختیار کی ہے، مذکورہ تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت کی خبر پر مختلف افراد اور پارٹیوں کی طرف سے تنقید و تبصرے کا سلسلہ بھی جاری ہے، سیکولر جمہوری نظام میں وزیر اعظم(اور سرکار)کسی خاص مذہب کا نمائندہ نہیں ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ سومنات مندر کی تقریب سے جس جواہر لعل نہرو نے خود کو الگ رکھا تھا، اسی طرح رام مندر افتتاحی تقریب سے موجودہ وزیر اعظم بھی خود کو الگ رکھیں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کی تاریخ میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے سیاسی فائدے کے لیے مذہب کے استعمال کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور اس کے آئندہ عام انتخابات پر بھی یقینی طور پر اثرات پڑیں گے، ملک کے میڈیا اور مختلف تنظیموں نے جس طرح “پران پر تشٹھا کی تقریب اور اس میں وزیر اعظم کی شرکت کی تشہیر اور مذہبی پروگرام کو حکومت کے زیر اہتمام تقریب میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کے آنے والے دنوں میں مختلف چیزوں پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے، بھارت میں گوننس کا جس طرح ایک بنیادی اصول ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے مختلف فیصلوں میں سرکار مذہبی معاملات سے الگ رکھنے کی باتوں کا جس طرح حوالہ دیا ہے اس کے پیش نظر معاملے کی نوعیت الگ ہو جاتی ہے لیکن اس پر عمل کوئی آسان نہیں ہے،تاہم یہ طے ہے کہ مذہبی علامتوں اور سماج آدرش سمجھی جانے والی ہستیوں کا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کے بہتر نتائج برآمد نہیں ہوں گے، اور ملک میں جس طرح کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ان میں مذہبی کرداروں اور علامتوں کے استعمال کے بڑے خطرے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com