محمد علم اللہ
ہندستانی مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں ذہنی اور مزاجی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہم آہنگی کے فقدان کا واضح اثر قیادت پر دکھائی دیتا ہے ۔بسااوقات قیادت کے نام پر ایسے گروہ،منڈلی اور دھڑے ابھرتے رہتے ہیں جو نہ باہم چیت پر قادر ہوتے ہیں اور نہ اشتراک عمل کا کوئی واضح لائحہ عمل ہی رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے جو ایک نمایاں کمی سامنے آتی ہےاس نے قیادت کے معاملے میں عام لوگوں اور خاص طبقے کی ترجیحات کو الگ کر دیا ہے۔عوام جسے بھی اپنا نمائندہ بناتے ہیں اسے خواص مسترد کر دیتے ہیں ۔خاص طبقات کا انتخاب بالعموم قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہ ایسی صورت ہے جس سے نہ صرف معاشرتی انتشار کو تقویت ملتی ہے بلکہ یہ خلیج بڑھتی جاتی ہے اور ہم آہنگی کے بجائے معاشرے پر انتشار کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے خاص طبقہ عام لوگوں سے مایوس ہو جاتا ہے اور عام لوگ خاص لوگوں سے کوئی توقع نہیں رکھتے ۔اور یوں قوم کے دو اہم حصے دو مختلف رویوں میں چل رہے ہیں۔اس سے ظاہر ہے مجموعی طورپر قوم کو جو فائدہ پہنچنا چاہیےنہیں پہنچتا ہے۔
اس صورت حال کی ذمے داری خاص طبقے پر ہی عائد ہوتی ہے کہ اس نے علم و فکر کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھا سمجھا اورمسلم معاشرے کی اجتماعی بنیاد کی ذہنی، نظریاتی اور سیاسی تربیت کے لیے کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ عام لوگوں کو اپنے طریقے سے سوچنے اور سمجھنے کے لیے آزاد چھوڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کسی مرکز، تنظیم یا ادارے کے ماتحت نہیں رہے اور اپنے طریقے سے بڑھتے اور پھیلتے رہے۔ اس قسم کی توسیع سماجی اصلاح کے خلاف تھی۔ خاص طبقے کی طرف سے کوئی سماجی اصلاح نہ ہونے کے سبب معاشرہ بتدریج تزئین کاری اور چمن بندی سے محروم ہو گیا اور معاشرتی ترقی کی صورتحال صحت مند ہونے کی بجائے غیر متوازن ہو گئی۔ کسی بھی صحت مند معاشرہ کے لیےیہ رویہ کسی بھی طورپر سود مند نہیں ہوسکتا ۔
ہمارے خاص طبقے نے عوامی سوچ اوررویے کی زمین میں اچھے بیج نہیں بوئے بلکہ فطرت کے بیج کی آبیاری کرنا بھی اپنا فرض نہیں سمجھا۔ انھوں نے عام لوگوں کو بے وقوف کہا اور خود کو ان سے الگ کر کے اپنے دیوان خانوں، ڈرائنگ روم اور صوفوں پر براجمان رہے۔ عوام الناس اور خاص طبقے کے مابین اس خلیج کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ ہمارا خاص طبقہ نہ تو عام لوگوں کے جذبات کو جان سکا ہے اور نہ وہ ان کے حالات، مسائل اور ضروریات سے باخبر رہ سکا۔ اس لیے اس خاص طبقے کی سوچ خود بخود اس سمت میں چلی گئی جس میں عام لوگوں کے اطمینان یا اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں عام لوگوں کے اطمینان کا کوئی پہلو نہیں تھا۔ اس طرح خاص طبقے کی قیادت ایسی قیادت تھی جو اپنے درجے کے لحاظ سے پوری طرح موزوں تھی لیکن عام لوگوں کے نقطۂ نظر سے مایوس کن تھی۔ مسلم معاشرے میں ذہنی اور مزاجی تضادات کا پس منظر بھی ناانصافی اور جبر کی طرف جاتا ہے۔ جو لوگ کسی نظریے، فلسفے، اصول یا ماس بیس کے سہارے قائدانہ عہدوں پر فائز ہونے کے بجائے جبر کے ہتھیاروں کے سہارے معاشرے کے ٹھیکیدار بن کر باقی سب کو اپنا غلام بننے پر مجبور کرتے ہیں، دراصل انہوں نے معاشرے کی سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔ فہم، عزم اور تدبر کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، پھر اسے بے عمل اور آخر کار بے جان بنا دیا۔ اس سیاسی جبر کی وجہ سے دانشوروں نے خود کو دیوان خانوں اور حجروں تک محدود رکھنا بہتر سمجھا۔ عوام الناس میں پہنچ کراچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا اب جان جوکھم میں ڈالنا تھا۔ بہتری اسی میں تھی کہ پناہ گاہیں تلاش کی جائیں۔ لیکن ان پناہ گزینوں سے زیادہ ظلم خاص طبقے کے اس طبقے کی طرف سے ڈھایاگیا جس نے مختلف مضمرات اور فلسفوں کا حوالہ دے کر استحصال اور جبر کی بنیاد پر قائم کردہ نظام کا دفاع شروع کیا۔ اس تناظر میں کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ مسلم معاشرے کو بکھراؤ سے بچانے کے لیے ہمیں ناجائز حکمرانوں کو ان کے تمام ناجائز کاموں سمیت قبول کرلینا چاہیے۔ بعض اوقات یہ سکھایا جاتا تھا کہ اگرچہ حکمران طبقہ غلط طریقے سے اقتدار حاصل کر چکا ہے اور حکومت کو غلط طریقے سے چلا رہا ہے، لیکن یہ زیادہ دانشمندی ہو گی کہ محاذ آرائی کے بجائے اس کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کیا جائے اور کچھ سماجی اور دینی خدمات حاصل کرلی جائیں تو یہ زیادہ عقل مندی کا راستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خاص طبقے کی غلامی نے معاشرے کی انقلابیت اور روح انقلاب کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔
یہ خیال عام ہو گیا کہ ہمیں ایک بہتر اور نئی دنیا بنانے کے بجائے موجودہ ناقص نظام کے ساتھ پرامن ہم آہنگی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ سے یہ سوچ عام ہو گئی کہ کسی بھی نظام کو سچائی کی کسوٹی پر پرکھنا بے سود ہے اور جو بھی باطل موجود اور طاقتور ہو اس سے سمجھوتہ کر کے ذاتی اور قومی مفاد کے حصول کی کوشش کی جائے۔ جب اس طرح کے خیالات عام لوگوں میں جڑ پکڑے گئے تو پھر کسی وقت بھی اگر مجاہدین یا علمائے حق کے کسی گروہ نے جہاد اور انقلاب کے لیے کوئی کوشش کی تو عام لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اور خود خاص طبقہ اس سے دور رہا۔ کیونکہ جب معاشرہ ایک بار استحصالی اور جابرانہ قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکناسیکھ جائے، تو دوبارہ تن کرکھڑا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ وہی فلسفے اور مضمرات جو مسلم حکمرانوں کے دور میں جابرانہ نظام کی حمایت کے لیے استعمال ہوتے تھے، اب ان ہی فلسفوں اور مضمرات کی بنا پر انگریزوں سے وفاداری جائز قرار پائی۔ دراصل ہمارا خاص طبقہ یہ بھول گیا تھا کہ یہ قوم کی جان اور قوم کی عزت ہے۔ اگر وہ توہین پر راضی ہو جائے تو عام لوگوں میں عزت نفس اور وقار کیوں اور کہاں سے پیدا ہوسکتا ہے؟
ہمارے حکام، صوفیا، علمائے کرام، شعرا، غرض خاص طبقے کے ہر گروہ نے جھوٹ کے مقابلے جو سستی کی پالیسی اختیار کی، اس نے مسلم معاشرے کو اصولوں کی بنیاد پر سوچنے کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا درس دیا۔ لیکن چونکہ مسلم معاشرہ اپنے مفادات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ بعض اصولوں اور انقلابی ضابطوں کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا، اس لیے جب اس نے اپنے اصولوں کو ترک کیا تو تو کھلے اور چھپے مفادات کی وجہ سے نہ اس کا اتحاد برقرار رہ سکا اور نہ اسے برقرار رکھا جا سکا۔ ایک نظریاتی معاشرے کو خود غرض معاشرے میں تبدیل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاشرے میں مفادات کا تصادم غالب آگیا۔ اس کی وجہ سے مسلم معاشرہ ذہنی اور مزاجی طور پر تقسیم ہوتاچلاگیا۔ اس طرح عام لوگوں اور خاص طبقے کی سوچ کے دھارے بھی مختلف ہوتے گئے۔ پھر عام لوگوں اور مختلف علاقوں کے خاص طبقے میں کوئی مشترک سوچ بھی باقی نہ رہی بلکہ تضاد اور انتشار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مسلم معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری کے فقدان کی ایک بڑی وجہ ہماری مذہبی قیادت بھی ہے۔ اس نے اسلام کو جو اتحاد کی بنیاد تھا، تقسیم کا ذریعہ بنادیا۔ بنیادی اصولوں کو چھوڑ کر فروعی مسائل کو بنیادی مذہب کی حیثیت دے دی اور پھر اس کی بنیاد پر ایسے ’ریکارڈز‘ قائم کیے جو دلوں میں نفرت کا زہر پھیلاتے ہیں۔ مذہب متحد کرنے کے بجائے کاٹنے اور الگ کرنے کا سبب بن گیا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ مذہبی پیشواؤں نے جدید حالات اور ضروریات کی طرف سے بھی آنکھیں موند لیں۔ نئے دور میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کے حل کے لیے انھوں نے کوئی راہ نہ سجھائی بلکہ لاحاصل قدامت پرستی اور ہٹ دھرمی کوضروری ٹھہرایا۔ اس فرقہ واریت اور قدامت پرستی نے ماہرین ِاسلام کے وقار کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس نقصان کی وجہ سے وہ قیادت کے قابل نہیں رہے اور اس طبقے کی خصوصیات عام مسلمانوں کے کام نہ آسکیں۔ مسلم معاشرے کی ایک عام فطرت یہ بن گئی کہ یا تو وہ مولوی کا دشمن ہے اور کسی مذہبی قیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے یا پھر وہ فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر سوچنے لگتا ہے اور فرقہ پرستی کی وجہ سے ایک خاص قسم کی مذہبی قیادت کے پلیٹ فارم کواپنا سیاسی پلیٹ فارم سمجھ بیٹھتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں ذہنی اور مزاجی تضادات کو مزید بڑھانے اور ہوا دینے والی ہیں۔ اگر ہم مسلم معاشروں کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو ہمیں بنیادی طور پر وہ ایک پسماندہ معاشرہ نظر آئے گا۔ اگردلوں کو ٹٹولاجائے تو پتہ چلے گا کہ ان میں شکوک، برے خیالات، بدگمانی اور مایوسی بھری پڑی ہے۔ یہ صورت حال اس لیے ہے کہ نہ تو ان کی منزل معین ہے اور نہ ہی منزل کے آثار نظر آتے ہیں۔ اجتماعی سفر اس طرح جاری رہتا ہے کہ گھوم پھرکر ہم اسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مایوسی عروج پر پہنچ رہی ہے۔ لیکن اداس لوگوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خوش فہمیوں کی ایسی جنت کے متلاشی رہتے ہیں جو آسانی سے ہاتھ آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم عوام ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو گمراہ کرتے ہیں، جذباتی نعرے لگاتے ہیں اور جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔
جو لوگ کھرے یا سنجیدہ حقائق کی نمائندگی کرتے ہیں انھیں پسند نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عام لوگوں کی پسندیدہ قیادت وہ ہوتی ہے جو انھیں تکلیف دینے یا ان کی حالت میں کسی تبدیلی کی دعوت دینے کے بجائے یہ یقین دلائے کہ آپ اپنے غلط طور طریقوں کو بدلے بغیر بھی اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں بشرطے کہ آپ ہماری قیادت کو قبول کرلواور ہمیں اپنے کندھوں پر سوار ہونے کی اجازت دیں۔ یوں کئی قیادتیں قومی خوش فہمیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر آتی جاتی رہی ہیں، لیکن مسلم معاشرے کی تقدیر نہیں بدلی۔ یہ تبدیلی تب آئے گی جب معاشرہ فیصلہ کر لے کہ اسے اپنی حالت، فطرت، عادات اور ہر چیز میں تبدیلی لانی ہے۔ لیکن قوم ایسا فیصلہ اسی وقت کرے گی جب اس میں کوئی انقلابی قیادت موجود ہو اور وہ اس کی رہنمائی کرے۔ یہ رہنما طاقت وہ نہیں ہو سکتی جو عام لوگوں سے کٹ کر اپنے دیوان خانوں تک محدود ہو یا اقتدار کی چوکھٹ پر بیٹھ کر یہ نعرہ لگائے کہ’کربھلا،ہو بھلا!‘ اس طرح نہ تو بھلائی آج تک آئی ہے نہ آئندہ آنے کا امکان ہے۔ یہ تو اسی قیادت کے ذریعے ممکن ہے جو اشرافیہ کے ذہنوں کی چمک اور عوام کے دلوں کی دھڑکن کو یکجا کرتی ہے۔