مولانا عبدالحمید نعمانی
بہت سی باتیں نا سمجھی کی پیداوار ہوتی ہیں، باتوں کو اگر منظر، پس منظر سے کاٹ کر دیکھا جائے تو مطلب بے مطلب ہو کر رہ جاتا ہے، پیشن گوئی، کوئی ایسی ہدایت یا حکم نہیں ہوتا ہے کہ اس پر عمل لازما کیا ہی جانا چاہیے، پرانوں خصوصاً بھوشیہ پران میں بعد میں پیش آنے والی درجنوں باتوں کے متعلق پیشن گوئیاں ہیں، مثلا یہ کہ اکبر پہلے جنم میں برہمن تھا، شنکر آچاریہ کے گوتر کا تھا، لیکن ایک بھول کے سبب وہ اس جنم میں ملیچھ(مسلمان) بن کر پیدا ہوا، لیکن پہلے جنم کے برہمن ہونے کی وجہ سے اس کے کارنامے، کام عظیم رہے۔ ایک بار مکند برہمن گائے کا دودھ پی رہا تھا تو لاعلمی میں دودھ کے ساتھ بال بھی پی گیا، اسی غلطی کی وجہ سے بعد والے جنم میں ملیچھ بن کر پیدا ہوا، (سنچھیپت بھوشیہ پران، پرتی سرگ، چوتھا کھنڈ، صفحہ 373 تا 374، مطبوعہ گیتا پریس گورکھپور)
ظاہر ہے کہ باتوں کو ادھر ادھر کرنے کا کام کیا گیا ہے، بھارت میں مغلوں کی حکومت اور عروج رہا ہے، یہ تو تاریخ ہے، ہندو اکثریتی سماج میں بھوشیہ وانی کے مقابلے میں بہت کم تر درجے اور مصداق کے تعین، موقع، محل، مخصوص حالات میں پیش آنے والی باتوں کے ضمن میں غزوہ ہند کی بات ہے، لیکن اس کو لے کر ایک طرح کا غدر برپا رہتا ہے،
اس سلسلے میں سب سے زیادہ نشانہ، عالمی شہرت یافتہ تعلیمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند ہے، آئے دن کسی نہ کسی بہانے سے اسے گھیرنے اور جاری عمل میں واسطہ بلا واسطہ رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، ایسا عموماً وہ عناصر کر رہے ہیں جن کا بھارت اور اس کا بھوشیہ بنانے میں کوئی خاص رول نہیں ہے، جب کہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان و وابستگان کا ملک کی تعمیر و تشکیل میں بنیادی کردار رہا ہے، انھوں نے غزوہ ہند کا مصداق و معنی وہ کبھی نہیں سمجھا جو لوگ اپنے دھرم کے بھی فہم سے دور رہ کر سمجھ رہے ہیں اور غلط طور پر ملک کے دیگر باشندوں کو باور کرا کر گمراہ کرنے کا کام کر رہے ہیں، ایسے افراد میں کمیشن برائے اطفال کے چیئرمین پریانک قانون گو جیسے لوگ بھی شامل ہیں انھوں نے گزشتہ دنوں ایک کلاس کے شرکاء و طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کئی ساری گمراہ کن اور ناقص و غلط معلومات پر مبنی باتیں کہی تھیں، پروگرام دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون گو صاحب کو مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے متعلق بہت سی بنیادی معلومات بھی نہیں ہیں، 2014 کے بعد سے بھارت میں اسلام، مسلمان اور مدارس و مدارس کے معاملات کے ایسے ” ماہرین ” کی کھیپ تیار ہو گئی ہے جو ان کے مختلف مسائل میں کچی پکی معلومات فراہم کر کے سرکاری فوائد کی ملائی خوب خوب کاٹ رہے ہیں، گزشتہ دنوں اسی کمیشن کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کو مولانا تھانویؒ کی معروف کتاب بہشتی زیور کے سلسلے میں نوٹس دیا گیا تھا، جب کہ بہشتی زیور نہ تو دارالعلوم دیوبند کے کورس میں شامل ہے اور نہ اس میں کوئی ایسی بات ہے جس کا طلبہ کے ذہن پر غلط اثر مرتب ہو، اب کمیشن نے غزوہ ہند سے متعلق دارالعلوم دیوبند کے فتوے کو ملک مخالف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کہا ہے، اس پر ظاہر ہے کہ ملک میں پیدا شدہ فرقہ وارانہ ماحول کا اثر ہے، کمیشن نے گرو کل میں پڑھائی جانے والی کتابوں اور ستیارتھ پرکاش جیسی کتابوں کے مواد پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، اس تفریق کے اسباب بہت واضح ہیں، اس سے میڈیا پر توجہ کی ضرورت پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے، دارالعلوم دیوبند کا نام اس لیے بھی لیا جاتا ہے کہ آدمی فوری طور سے نظر میں آجاتا ہے اور اسے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع و راستہ مل جاتا ہے، جب بہشتی زیور سلسلے کی عام فہم بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو غزوہ ہند کی پیشن گوئی سے متعلق مصداق و مطلب کا تعین، مشکل ترین اور مبہم و مجمل مسئلہ سیدھے سیدھے کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے، فتوی میں ذکر کر دہ غزوہ ہند کا معنی و مصداق معلوم کیا جا سکتا تھا، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ وہ خفیہ ہو یا دنیا کے کسی مسلم ادارے نے احادیث کی کتابوں سے نکال دیا ہو، جیسا کہ اکثریتی سماج میں معروف بنیادی گرنتھوں سے باب کے باب اور بے شمار شلوک، منتر نکال دیے گئے اور مسلسل نکالے جا رہے ہیں، ہمارے پاس والمیکی رامائن کا وہ اڈیشن بھی ہے جس سے سیکڑوں صفحات، لنکا کانڈ اور اتر کانڈ کو نکال دیا گیا ہے۔
غزوہ ہند کی روایات، احادیث و سیر کی کئی کتابوں، نسائی، مسند امام احمد، سنن سعید بن منصور، مستدرک حاکم، مسند بزاز، حلیۃ الاولیا۶، سنن بیہقی، تاریخ بغداد وغیرہ میں حضرات ابوہریرہ اور ثوبان رضی اللہ عنہما سے مروی ملتی ہیں، اس سلسلے کی کچھ روایات صحیح، کچھ حسن، کچھ ضعیف ہیں، لیکن کسی روایت کا وہ مصداق و معنی نہیں ہے، جس کا موجودہ ہند میں کسی غزوہ سے تعلق ہو، اور اس کے غیر مسلموں سے جنگ کر کے زیر و اسیر کرنے کی بات ہو، غزوہ کا پہلا حصہ ماضی میں کئی بار مختلف ادوار میں پورا ہو چکا ہے، باقی قیامت کے قریب ایک گروہ، دجال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف، حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہو جائے گا، موجودہ آئین والے بھارت میں غزوہ و جہاد کے لیے شرعی طور سے کوئی گنجائش نہیں ہے، جہاد ہمیشہ، خود مختار ریاست کے زیر انتظام ہی اس ملک سے ہو سکتا ہے، جس سے معاہدہ نہ ہو، بھارت میں تو ہندو مسلمان دونوں ایک ہی ملک کے شہری ہیں تمام باشندوں کا ایک مشترکہ آئین ہے، بھارت میں اور بھارت کے تمام قابل ذکر ممالک میں ایک دوسرے کے سفارت خانے ہیں، ایسی حالت میں اسلامی قوانین اور عالمی معاہدے و قوانین کی رو سے کسی طرح کا کوئی غزوہ، جہاد نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی جائز ہے، اس کے باوجود بھی جو لوگ غزوہ ہند کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کرتے ہیں وہ قطعی طور سے اسلامی احکام جہاد سے نابلد ہیں، مدارس کے تعلیم یافتہ افراد کو اچھی طرح معلوم ہے کہ غزوہ ہند کا کیا مطلب و مصداق ہے، معتبر مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند وغیرہ کا کسی قابل ذکر تعلیم یافتہ کا کسی غزوہ ہند میں شامل نہ ہونے کا مطلب بہت صاف ہے، غزوہ ہند سے متعلق روایات کا مطالعہ و جائزہ سے واضح ہے کہ جس طرح اکبر بادشاہ وغیرہ سے متعلق بھوشیہ پران کی پیشن گوئیاں ماضی میں پوری ہو چکی ہیں، اسی طرح حدیث کی پیشن گوئیاں ماضی میں پوری ہو چکی ہیں، دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کا خطہ غزوہ، سندھ، خراسان ہوتے ہوئے شام، دمشق کے علاقے ہیں، جس طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بیان کا حضرت آدم علیہ السلام والا مہبط ہند، خطہ ہند سے آج کے بھارت سے باہر ہے اسی طرح غزوہ ہند کا خطہ بھی موجودہ بھارت سے باہر ہے، بھارت کے مدارس اور علماء خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان ہمیشہ اپنے وطن کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، ماضی سے حال تک مسلم سماج کی اپنے وطن سے وابستگی و وفاداری شک و شبہ سے بالا تر رہی ہے، اس وابستگی و وفاداری کو دارالعلوم دیوبند، مضبوط و مستحکم کرنے اور بڑھانے کا کام کرتا رہا ہے، بلا شبہ دارالعلوم دیوبند کے فکر و منہج کے اثرات ملک اور عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں لیکن ان کا تعلق غیر مسلموں سے محاذ آرائی و نفرت سے نہیں ہے بلکہ مسلم سماج کے داخلی مسائل میں مذہبی و نظریاتی پہلوؤں کے معتدل منہاج فکر و عمل سے ہے، باقی غیر مسلموں خصوصا ہندو برادران وطن سے دارالعلوم دیوبند کا رویہ، نفرت کے بغیر، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اتحاد اور باہمی تعلقات بنا کر زندگی گزارنے کا ہے، دارالعلوم دیوبند کی اس قابل تحسین مذہبی، سماجی اور عرفی حیثیت کو مختلف طریقوں سے مجروح کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس سلسلے میں قوانین اور دیگر متعلقہ معاملات کے ماہرین کی ٹیم تشکیل دے کر اقدامی عمل کرنا چاہیے، غزوہ ہند سے متعلق فتوی کوئی واحد معاملہ نہیں ہے، بہت سی باتوں کو پس منظر سے الگ کر بہت مکروہ شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اگر بہتر طور سے کوششیں ہوں گی تو دیگر امور کی طرح غزوہ ہند پر غدر کی حقیقت بھی واقعی شکل میں لوگوں کے سامنے آ جائے گی اور پتا چل جائے گا کہ کچھ عناصر، بات بے بات پر کیوں اور کس لیے غدر مچاتے ہیں۔
noumani.aum@gmail.com