جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں 9 فروری 2017 کو اختر مسلمی فن اور شخصیت کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں ایک شرکت ہوئی، اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر اختر مسلمی کی شاعر ی پر بحث و مباحثہ اور مقالہ پیش کیا جارہا تھا، مقالہ نگاروں میں ایک شیروانی پوش مولانا صاحب بھی نظر آئے، اول مرحلہ میں حاضرین کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ادب اور شاعری کے اسٹیج پر ایک مولوی کیا کام لیکن جیسے ہی انہوں نے بولنا شروع کیا پورے ہال میں سکتہ طاری ہوگیا، ہر کوئی انہیں ہمہ تن گوش ہوکر سننے لگا، دلکش گفتگو، مسحور کن انداز، شاعرانہ اور بلیغانہ کلام نے ہر کسی کو ان کا گرویدہ بنادیا ، وہاں موجود ہمارے ایک دوست نسیم اختر قاسمی نے کہا کہ انہوں نے مولوی برادری کی نہ صرف لاج رکھی ہے بلکہ یہ بتا بھی دیا ہے ا ہل مدارس اردو زبان کے ساتھ اردو ادب پر بھی مکمل گرفت رکھتے ہیں۔
اردو ادب اور اختر مسلمی کی شاعر ی پر محققانہ اور بلیغانہ کلام کرنے والے یہ شیروانی پوش مولوی اعظم گڑھ ضلع سے تعلق رکھنے والے مدرسۃ الاصلاح کے مؤقر استاذ جناب مولانا انیس احمد اصلاحی تھے، دوسرے سیشن کے اختتام پر ان سے ملاقات ہوئی، تعارف کراتے وقت ہمارے دوست اور بیباک نوجوان صحافی جنا ب علم اللہ نے جیسے کہا کہ یہ شمس تبریز قاسمی ہیں ، انہوں نے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ ہم بھی قاسمی آپ بھی قاسمی، ان کی زبان سے قاسمی سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی اور پھر جامعہ کے وسیع و عریض ہال میں دیر تک گفتگو ہوتی، ہر بات کار آمد اور مفید نظر آئی، خاص طور پر دو مختلف مکاتب فکر کے ادارے دارالعلوم دیوبند اور مدرسۃالاصلاح اعظم گڑھ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ان کی گفتگو کی قدر و قیمت مزید بڑھ گئی اور میں نے یہ محسوس کیا کہ ملت ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں گفتگو کے یہ اقتباسات پیش کئے جانے چاہئے۔
شمس تبریز قاسمی
سوال: آپ اپنے ذاتی احوال وکوائف کے بارے میں بتائیں
جواب: اتر پردیش میں واقع اعظم گڑھ کی سرزمین سے میرا تعلق ہے، مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ میں مکتب سے لیکر فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی ،1987 میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور ایک سال دورۂ حدیث شریف میں رہ کر وہاں سے بھی اکتساب فیض کیا ، دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کے بعد لکھنو یونیورسیٹی سے اردو ادب میں میں نے فضیلت کیا، اس کے بعد کچھ دنوں تک ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازمت کرنے لگا ، پھر اسے چھوڑ کر محمد بن سعود یونیورسیٹی ریاض میں پڑھنے چلا گیا، وہاں سے تعلیم مکمل ہونے کے بعد مدرسہ الاصلاح میں بطور استاذ تقرری ہوگئی جہاں اب تک میری خدمات کا سلسلہ جار ی ہے۔
ؒ ؒ
سوال :
آپ نے دارالعلوم دیوبند اور مدرسۃ الاصلاح دونوں میں تعلیم حاصل کی ہے ،یہ دو نوں دو مختلف مکاتب فکر کے ادارے ہیں، آپ نے دوران تعلیم دونوں میں کیا فرق محسوس کیا ؟
جواب:
دونوں اداروں میں کبھی میں نے کوئی فرق محسوس نہیں کیا، دونوں جگہ روشن خیال اور وسیع النظر علماء ملے، کوئی بھی ذہنی تنگی مجھے دیکھنے کو نہیں ملی ،ایک مرتبہ انتہائی عجیب وغریب واقعہ بھی پیش آیا، ہوا یوں کہ دارالعلوم میں پڑھنے کے دوران ہم لوگوں نے شعرو شاعری کی ایک نششت منعقد کی ، میں نے مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کی خدمت میں یہ درخواست کرنے کی جرأت کردی کہ حضرت ہمارے اس نششت کی سرپرستی آپ فرمادیں ،حضرت نے کہا ہم علماء کیلئے شعروشاعری کو بڑھاوا دینا مناسب نہیں ہے اور آج تک کسی نے مجھ سے اس طرح کی بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کی ،تاہم انہوں نے اس پر پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی اس نششت کے انعقاد سے منع کیا ، یہ یقیناً وسعت نظری کی بات ہے کہ انہوں نے طلبہ کو اشعار میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کی اجازت دی بھلے ہی انہوں نے سرپرستی قبول کرنے سے انکار کردیا ۔
سوال:
دارالعلوم دیوبندکے تعلق سے کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہاں تنگ نظری پائی جاتی ہے یا وہاں کے طلبہ زیادہ وسیع الفکراور روشن خیال نہیں ہوتے ہیں ،ایک دائرے میں رہ کر سوچتے ہیں ،آپ کے تجربات اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟
جواب:
دارالعلوم دیوبند میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے ،وہاں کے تعلق سے میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ اعلی ظرفی ،وسعت نظری پائی جاتی ہے، دارالعلوم دیوبند نے کسی بھی بات کو کہنے کیلئے طلبہ کو مکمل آزادی فراہم کر رکھی ہے، دارالعلوم کے ماحول سے ہرگز اس کا اظہار نہیں ہوتاکہ وہاں پر صلاحیتوں کو یا طلبہ کے خیالات اور ان کی آراء کو کچلا جاتاہے، اور اگر کوئی اس طرح کی بات کرتاہے وہ سماعت پر مبنی ہے ، درالعلوم دیوبند کے تعلق سے غلط پیروپیگنڈہ ہے ،حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ دراصل مظاہر علوم کے تناظر میں کرتے ہیں کہ کیوں کہ وہاں ایک گونہ شدت پائی جاتی ہے، لیکن دارالعلوم میں ایسا کچھ نہیں ہے سوال کرنے کی مکمل آزادی ہے، ملیشا، کیرالا اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے شافعی المسلک کے طلبہ وغیرہ پڑھتے ہیں اور خوب سوال کرتے ہیں لیکن اساتذہ کے چہروں پر ذرہ برابر بھی شکن نہیں آتا ہے اور نہ ہی انہیں حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
سوال:
تعلیمی تحریک مولانا محمد قاسم ناناتوی نے بھی شروع کی تھی اور سرسید احمد خاں نے ،آپ کے خیال میں کون سی تحریک زیادہ کامیاب ہے ؟
جواب :
دونوں تحریک ضروی تھی اور دونوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ سرسید نے جدید علوم کو فروغ دیا اور مولانا محمد قاسم ناناتوی نے علوم اسلامیہ کے فروغ کی تحریک چلائی البتہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے ایک سیمینار میں میں نے یہ بات کہی تھی کہ جب دارالعلوم دیوبند اور اے ایم یو کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت ایک معاہد طے ہوا تھا کہ علی گڑھ کے طلبہ دین سیکھنے کیلئے دارالعلوم دیوبند جائیں گے اور دارالعلوم دیوبند کے طلبہ جدید علوم کے حصول کیلئے علی گڑھ جائیں گے لیکن وہ معاہدہ ون وے بن گیا ہے ، دارالعلوم دیوبند کے دسیوں طلبہ ہر سال اے ایم یو جاتے ہیں لیکن اے ایم یو کا ایک بھی طالب علم دیوبند یا کسی اور مدرسہ میں نہیں جاتاہے جو معاہدہ کی خلاف ورزی ہے ۔
سوال:
تعلیمی تحریک سر سید نے بھی چلائی اور ادھر قاسم ناناتوی نے بھی چلائی اور ان دونوں کے درمیان ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش علامہ شبلی نے کی آپ اسے کس نظریہ سے دیکھتے ہیں؟
جواب:
میرے خیال میں علامہ شبلی نے ایک بیچ کی راہ نکالی اور یہ نظریہ فروغ دینا چاہا کہ ہم اپنے طلبہ کو جدید علوم سیکھنے کیلئے یونیورسیٹی بھیجنے کے بجائے ایسا نصاب تشکیل دیں جسے وہ یہیں رہ کر پڑھ لیں اور ا س کے بعد ان کی راہیں آسان ہوجائے وہ جہاں چاہے جو کچھ کرنا چاہے کرسکیں، اسی لئے وہاں کے نصاب میں انگریزی شامل ہے ، مدرسہ الاصلاح میں بھی گریجویشن تک انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں اظہار رائے کی مکمل آزادی پائی جاتی ہے، تنگ نظری اور عدم روشن خیالی کا الزام محض ایک پیروپیگنڈہ ہے
عام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے ،وہاں صرف امیروں اور نواب زادوں کو پڑھایا گیا ہے۔
اصلاحی اور فلاحی فکر کوئی مستقل تحریک نہیں ہے یہ صرف سوچنے کا ایک انداز ہے،اصل تحریک مولانا محمد قاسم ناناتوی اور سرسید احمدخان کی ہے۔
سوال:
جدید علوم کے فروغ میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کہاں تک کامیاب ہے ؟
جواب:
علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی مسلمانوں کو سرکاری ملازمت دلانے اور حکومت میں شامل کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی لیکن شروع سے وہاں ایک رئیسانہ کلچر رہا ہے، غریبوں کو کبھی وہاں پڑھنے کا موقع نہیں ملا اورنہ ہی عام مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے میں علی گڑھ کا کوئی کردار ہے اور نہ عمومی تعلیم کا وہ کبھی مرکز رہا ہے۔ مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنے میں علی گڑھ سے زیادہ خدمات انجمن اسلامیہ ممبئی اور اس کے بانی صابو صدیق مرحوم کی ہے ، کیوں کہ یہاں جدید تعلیم عام مسلمان اور نچلے طبقہ کے لوگوں تک پہونچائی گئی اور اس کے فیض کو عام کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ سر سید احمد جو کہتے تھے کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں ہاتھ سائنس ہے وہ صرف کہنے کی بات تھی ان کی ساری توجہ سائنس اور جدید علوم کے حصول پر تھی ،اسلامیا ت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی عام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں علی گڑھ کا کو ئی کردار ہے ۔
سوال:
ایک نظریہ اور فکر اصلاحی اور فلاحی بھی ہے ،اس کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے اور کب سے اس کی شروعات ہوئی؟
جواب:
اس سوال پر کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اصلاحی تحریک کوئی فکر نہیں ہے ، وہ صرف ایک طرز فکر ہے ۔اصل فکر دیوبند اور علی گڑھ کی ہے اور اسی کے اثرات پورے بر صغیر میں نمایاں ہیں ، اصلاحی تحریک کو ایک اندازہ نظر کہہ سکتے ہیں، حاصل فکر کا عنوان دے سکتے ہیں اور اس کا نمبر بہت بعد میں آتاہے ،اصل دیوبند ، علی گڑھ ہے اور اس کے بعد ندوہ ہے۔ البتہ فرق اتنا ہے مدرسہ الاصلاح میں قرآن کریم کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے ، اس کے بعد حدیث کو وقت دیا جاتا ہے ، پھر فقہ کا نمبر آتا ہے، اس کے علاوہ لسانیات پر بھی ہمارے یہاں خاص توجہ ہے ۔
سوال:
مولانا حمید الدین فراہی کون تھے اورمسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں ان کا کیا کردار ہے؟
جواب:
اس کا جواب انہوں نے کچھ اس انداز سے دیا جیسے لگا کہ وہ کچھ چھپا نا چاہتے ہیں یا پھر یہ سوال کوئی اہمیت کا حا مل نہیں ہے۔ بہت اصرار کے بعد صرف اتنا بتانے پر انہوں نے اکتفا کیا کہ ان کا تعلق بہت بعد کے ادوار سے ہے، ماضی قریب میں جن لوگوں نے تعلیمی تحریک چلائی ہے، مسلمانوں میں سماجی اور معاشرتی بیداری پیدا کی ہے اس میں مولانا حمید الدین فراہی سرفہرست ہیں تاہم اسے سوچنے کا ایک مختلف انداز کہ سکتے ہیں، ورنہ اصل فکر اور تحریک مولانا محمد قاسم ناناتوی اور سرسید احمد خاں کی ہی ہے، بعد والوں نے انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زمانے کے اعتبار سے اپنے زوایہ فکر میں کچھ تبدیلی پیداکی ہے،اس لئے یہ سب مستقل فکر اور تحریک نہیں ہے بلکہ انہیں دونوں کی تحریک سے ماخوذ ہے۔
سوال:
آج کل دارالعلوم دیوبند ، مدرسہ الاصلاح سمیت مختلف مدارس کے طلبہ یونیورسیٹوں کا رخ کررہے ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے اور ان سے آپ کی کیا توقعات وابستہ ہیں، ایسے طلبہ کے بارے میں عموما کہاجاتاہے کہ وہ راہ راست سے بھٹک گئے ہیں ۔
جواب:
بہت خود اعتمادی کے ساتھ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ یونیورسیٹی کا رخ کرنے والے طلبہ کے پاس دینی علوم کا سرمایہ ہے وہ کبھی بھی بھٹک نہیں سکتے ہیں خواہ آکسفور ڈ جائیں یا علی گڑھ میں پڑھیں یا کہیں اور دا خلہ لے لیں،ان کے قدموں میں ڈگمگاہٹ نہیں آئے گی ،کیوں کہ دینی شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے اور نقش اول بہت گہرا ہوتا ہے، جدید یت کوفر وغ دینے کا الزام وغیرہ بھی صحیح نہیں ہے ، ہزار میں سے ایک طالب علم یونیورسیٹی جاتا ہے 999 فضاء میں گم ہوجاتے ہیں اگر کوئی تجارت میں جاتاہے تو وہاں ہم کہیں گے کہ علم کا ضیا ع ہوگیا ایسا نہیں ہے وہ تجارت میں بھی جاتاہے تو اپنی تعلیم کے پیش نظر تجارت کرتاہے اسی طرح یونیورسیٹی میں آنے والے طلبہ بھی مزید علوم سیکھنے آتے ہیں اوروہ اپنے مشن سے بھٹکتے نہیں ہیں۔
سوال:
شاعر ی کا ذوق آپ کو کہاں سے پیدا ہوا، اردو ادب پر بھی آپ کی زبردست گرفت ہے ، انداز تخاطب بہت نرالا ہے، یہ سب کہاں سے سیکھا آپ نے؟
شاعری کا شوق شروع سے ہے ،پڑھنے کے زمانے میں بھی ہم لوگ شعروشاعری کی نششت کرتے تھے اور میں اکثر اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کیلئے نثر کے بجائے نظم کی صنف کو ترجیح دیا تھا، اردو شعرا ء اور ادباء کو شروع سے پڑھتا رہا ہوں، اختر مسلمی اعظم گڑھ سے تھے اور ہم عصر بھی تھے اس لئے ان سے بھی بہت قربت رہی۔
سوال :
الیکشن کا موسم ہے اور آپ کا تعلق اعظم گڑھ کی سرزمین ہے جو علمی مرکز ہونے کے ساتھ اہم سیاسی مقام بھی ہے ، ایسے میں آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اکھلیش سرکار کی گذشتہ پانچ سالہ کارکردگی کیسی رہی اور آپ کے جائزے کے مطابق کس پارٹی کی اتر پردیش میں اگلی سرکاربنے گی ؟
جواب:
سیاست سے میرا گہرا تعلق نہیں ہے اور نہ زیادہ اہل سیاست کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے لیکن سیاسی امور سے عدم واقفیت کا انکار بھی نہیں کرسکتے ہیں، مجھے ایسا لگتاہے کہ اکھلیش یادو کی پانچ سالہ حکومت مجموعی طور پر بہتر رہی ہے اور حالیہ انتخابات میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ایس پی ۔کانگریس اتحاد کے ساتھ ہے۔ توقع ہے کہ اکھلیش یادو دوبارہ وزیر اعلی بنیں گے ، تاہم ووٹوں کی تقسیم کا بہت خدشہ ہے اور یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کیا ہوگا۔
سوال :
اکھلیش سرکارنے گذشتہ منی فیسٹو میں مسلمانوں کے تعلق سے بہت سارے وعدے کئے تھے جس میں اردو میڈیم اسکول قائم کرنے اور اردو کو روزگار سے جوڑنے کی بھی بات شامل تھی لیکن اکھلیش یاد نے اس میدان میں بھی کوئی کام نہیں کیا ہے۔
جواب :
کچھ جگہوں پر اردو میڈیم اسکول قائم کئے گئے ہیں اور اکھلیش سرکار ہرممکن اردو کو روزگار سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہے ، اردو کا مستقبل روشن ہے اور جیسے جیسے روزگا سے اسے جوڑا جائے گا یہ زبان مقبول ہوجائے گی ۔
ابھی گفتگو جاری تھی کہ سیمینار کی تیسری نششت شروع ہوگئی، انتظامیہ کی طرف سے بلاوا آگیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو کا سلسلہ یہیں پر رک گیا۔