بہ طواف کعبہ رفتم (پہلی قسط)

یاسر ندیم الواجدی
شکاگو سے سے تقریبا 20 گھنٹوں کا سفر کرتے کرتے ہم جوں جوں حجاز مقدس کے قریب ہورہے تھے، دل کے جذبات میں تلاطم بڑھتا جارہا تھا۔ سیٹ کے سامنے نصب اسکرین پر میں لائیو نقشہ دیکھ رہا تھا۔ ہم چونکہ مغرب کی طرف سے آرہے تھے، ہماری میقات مقام جحفہ تھی۔ جب جہاز اس کے محاذات میں آیا تو ہم نے عمرے کی نیت کی اور یوں اس سفر عشق کا رسمی طور پر آغاز ہوگیا۔ لبیک کے ورد نے زبان کو دل کا ترجمان بنا دیا اور پھر ہوں ہوا کہ آنکھیں بھی کبھی کبھی اپنے انداز سے تلبیہ پڑھنے لگیں۔ دل وروح کی اسی کیفیت میں تھے کہ 50 منٹ کے بعد ہم جدہ ایرپورٹ پر تھے۔ امیگریشن کے طویل اور سست عمل سے فارغ ہوے اور سامان لے کر باہر ٹیکسی کے لیے نکلے تو باہر بلا کسی اطلاع کے میرے ایک شاگرد (جو اپنے تمام اساتذہ کے لیے قابل فخر شخصیت ہیں) علی ٹافت استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ امریکی نژاد عالم دین ہیں اور جدہ کی ایک یونیورسٹی میں استاذ ہیں۔ ٹیکسی چونکہ پہلے سے موجود تھی اس لیے میں نے ان کو ایرپورٹ سے رخصت کیا مغرب کی نماز ادا کی اور ہم مکہ مکرمہ کے لیے رواں دواں ہوگئے۔
راستے میں بہت ٹریفک تھا، گاڑیاں ہلکی رفتار سے چل رہیں تھی مگر تلبیہ اپنی فطری رفتار سے زبان پر جاری تھا۔ اسی ترانہ عشق کو گنگناتے ہم حدود حرم میں داخل ہوگئے۔ رات دس بجے کا وقت تھا۔ میرے ایک شاگرد ٹورانٹو سے ہوٹل میں مجھ سے پہلے آکر ٹھہر گئے تھے، ریسیپشن پر ان سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ ضروری کارروائی سے فارغ ہوے، کھانا کھایا اور میں عمرے کی ادائیگی کے لیے حرم شریف روانہ ہوگیا۔ یہاں سے وہ مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کا کروڑوں لوگوں نے زندگی میں تجربہ کیا ہے مگر شاید ہی کوئی اپنے احساسات کی صحیح ترجمانی کرسکا ہو۔ کوئی لکھے تو کیسے لکھے کہ تجلی گاہ ربانی کی طرف مجرم کی طرح کیسے بڑھا جاتا ہے، کیسے الہی جلال وجمال کے اس کامل ترین مظہر پر پہلی نگاہ اٹھائے نہیں اٹھتی اور جب اٹھتی ہے تو گرائے نہیں گرتی۔ کوئی کیسے خوف و رجاء کی اس ملی جلی کیفیت کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے۔ بہتوں نے اپنے سفر نامے لکھیں ہیں لیکن اس وادی عشق پر آتے آتے قلم ٹوٹ تو جاتے ہیں مگر ساتھ نہیں دے پاتے۔
ڈھائے بجے تک میں عمرے سے فارغ ہوا، فجر تک کچھ دیر کے لیے آرام کیا اور پھر فجر کی نماز کے لیے حرم میں جا پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا اور مقامی وغیر مقامی باشندوں کا خوب ازدحام تھا۔ اتفاق سے اسی دن جمعہ کے بعد ہم نے ٹویٹر پر گستاخ رسول کے خلاف اپنی مہم کا اعلان کیا ہوا تھا جس کے تعلق سے فوری طور پر ویڈیو وغیرہ بناکر اپلوڈ کرنا تھی۔ انٹرنیٹ کی رفتار سست تھی اس لیے کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد آخر کار کامیابی ملی۔ ایک گھنٹے کے بعد جمعہ کی نماز کے لیے حرم پاک جانا ہوا۔ نماز سے فراغت کے بعد چند لقمے منہ میں ڈالے اور ٹویٹر مہم میں شریک ہوگیا۔ الحمدللہ ہمارے بہت سے ساتھی اس مہم میں محاذ سنبھالے ہوئے تھے، مجھ سے بھی جتنا بن پایا اتنا کیا۔
مغرب کی نماز کے وقت شیخ علی ٹافٹ، ٹورانٹو سے شہاب جعفری اور شیلانگ ہندوستان سے آئے ہوے جناب ابراہیم صاحب سے ملاقات طے تھی آخر الذکر دونوں حضرات میرے پاس پڑھتے ہیں۔ مغرب سے عشاء تک مسجد حرام کی تیسری منزل پر پرکیف فضاؤں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مجھے، مکہ مکرمہ کے علاقے عزیزیہ جانا تھا۔ ہندوستان ونیپال کے ان حضرات نے جو مدارس سے فارغ ہیں اور جامعہ ام القری میں زیر تعلیم ہیں، جمعیت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہوئی ہے۔ ان احباب نے ذرہ نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوے مجھے مدعو کیا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کچھ ابنائے مدارس ہوں گے اور ان کے ساتھ کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوجائیں گی، مگر ان حضرات نے ایک پارک میں باقاعدہ ایک مختصر پروگرام کا انعقاد کیا ہوا تھا۔ یہ میرے لیے سعادت تھی کہ وادی ام القری کے ایک گوشے میں مجھے کچھ گفتگو کا موقع ملا۔ مسلم اقلیات اور ابنائے مدارس کی ذمے داری کے عنوان سے چند الفاظ اللہ نے کہلوائے اور اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان حضرات نے مدارس کی نسبت کو یہاں زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زائرین علماء کو مدعو کریں اور ان سے استفادہ کریں۔ ان کا یہ حسن ظن تھا کہ انہوں نے مجھے بھی اس لائق سمجھا حالانکہ ان میں کچھ حضرات مجھ سے سینیر تھے اور ایک صاحب میرے درسی ساتھی۔ یہ تھے ننیپال سے تعلق رکھنے والے مولانا شاہد حسین صاحب جو عرصے سے ام القری یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے زمانے میں ان کے ساتھ خوب اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا۔ میں اس سے پہلے بھی حاضر ہوا تو انھوں نے حق دوستی خوب نبھایا تھا آج بھی اسی اپنائیت اور بے تکلفی کے ساتھ ملے تو دارالعلوم میں بیتے ہوے لا ابالی دور کے حسین لمحات نگاہ کے سامنے تھے۔ اس طرح پہلا دن بڑی مصروفیت کے ساتھ کس طرح گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔