محمد علم اللہ، نئی دہلی
سال1941 کی مردم شماری کے مطابق غیر منقسم ہندستان کی آبادی 31.8 کروڑ تھی جس میں سے 66 فیصد ہندو اور 24 فیصد مسلمان تھے۔ تقسیم ہند کے بعد اگلی مردم شماری 1951 میں ہوئی، اس کے بعد ہی سے ہر دس سال میں مردم شماری کا یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق ہندستان کی آبادی 36.1 کروڑ تھی، خاص طور پرتقسیم پنجاب اور بنگال کے بعد۔ ان 36136.1 کروڑ افراد میں سے 84 فیصد ہندو اور 10 فیصد مسلمان تھے۔ ملت ،جو غیر منقسم ہندستان کا تقریبا ایک چوتھائی تھی، تقسیم کے بعد آبادی کا 10 فیصد رہ گئی تھی۔ آج، وہ آبادی کا تقریبا14 فیصد ہیں۔ ان اعداد و شمار کے بعدہندستان کی سیاسی زندگی میں ان کی نمائندگی کیا رہی ہے؟ اس مضمون میں آزادی کے بعد سے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں ان کی رکنیت کے ذریعہ ان کے سیاسی اثر و رسوخ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے مقابلے میں ہمیشہ کم رہی ہے۔ اس مدت کے تین مرحلوں میں مسلمانوں کی نمائندگی تقریباً ایک سی رہی ہے۔ اوسطاً 25 سے 35 ارکان پارلیمنٹ، جو کہ لوک سبھا کا 5 فیصد سے 6 فیصد ہے۔ یہ ہماری آبادی کا صرف نصف ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ تیسرے مرحلے (2002–2019) کے دوران مسلمانوں کی نمائندگی نمایاں طور پر خراب ہوئی ہے۔ مسلم ارکان پارلیمنٹ کی اوسط تعداد 29 تھی۔ اگر مسلم ارکان پارلیمنٹ اپنی آبادی کے تناسب سے ہوتے تو یہ تعداد 74 ہوتی۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے وقت سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسلم امیدواروں کی کم تعداد اور ان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے گراوٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔مسلم نمائندوں کی تعداد میں کمی ایک حالیہ رجحان ہے۔ حالانکہ 1952 کے بعد ہر انتخاب کے ساتھ مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا اور 1984 میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ لیکن اس کے بعد سے تقریبا ہر انتخاب کے ساتھ اس کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے، جو 2014 میں 22 یعنی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔
2014 کی لوک سبھا میں 1952 کی پہلی لوک سبھا کے بعد سے مسلمانوں کی نمائندگی سب سے کم تھی۔ دونوں صورتوں میں ان کے ارکان پارلیمنٹ کا حصہ لوک سبھا کی کل تعداد کا صرف 4 فیصد تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر 25 ارکان پارلیمنٹ پر صرف ایک مسلمان تھا۔ پہلے انتخابات میں کم نمائندگی کی وضاحت اس وقت کے غیر معمولی حالات سے کی جا سکتی ہے۔ تقسیم اور فسادات کے زخم 1952 میں بالکل تازہ تھے ، جب مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے تھے اور رائے دہندگان کی جانب سے انھیں ووٹ دینے کا امکان کم تھا۔
تاہم، سات دہائیوں بعد 1952 کو دہرانے کے لیے کوئی تشدد یا سماجی وجہ نہیں تھی، لیکن 2014 میں بی جے پی کی فتح نے انھیں اتر پردیش میں الگ تھلگ کر دیا اور یوں بی جے پی نے یوپی میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ آزاد ہندستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اتر پردیش سے ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوا۔ تقریباً 4 کروڑ مسلمانوں والی ریاست، یعنی ہندستان کی20 کروڑ مسلم آبادی میں سے پانچواں حصہ اتر پردیش سے ہے۔
اگر تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو 1980 اور 1984 میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے زیادہ تھی۔ ان دونوں انتخابات میں کل لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کا تناسب 8 فیصد اور 9 فیصد تھا۔ اگرچہ یہ ان کی آبادی کے مطلق تناسب میں بھی نہیں تھا ، لیکن یہ سب سے زیادہ تھا جو انھیں ملا ، لیکن ان دونوں انتخابات میں مسلم آبادی کے مقابلے میں مسلم نمائندگی کی سطح 82 فیصد اور 73 فیصد تھی۔ 1984 کے انتخابات اندرا گاندھی کے بہیمانہ قتل کا نتیجہ تھے جس کے بعد ملک میں کانگریس کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔ چنانچہ کانگریس نے 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اس نے مناسب تعداد میں مسلم امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیے۔
کسی میں یہ سوال کرنے کی جرأت ہے کہ کیا مسلمانوں کی نمائندگی اس لیے کم ہے کیونکہ انھیں سیاسی جماعتوں نے نامزد نہیں کیا ہے یا اس وجہ سے کہ ان میں سے بہت سے امیدوار نامزد ہونے کے باوجود جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے؟
اس سوال پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت تو سچ ثابت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کم ٹکٹ دیے ہیں۔ چنانچہ 1952-1977 کی ابتدائی مدت میں لوک سبھا کے لیے صرف 4 فیصد مسلمان ہی نامزد کیے گئے، جبکہ مسلم رائے دہندگان کی تعداد کل رائے دہندگان کا 10 فیصد تھی۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے رائے دہندگان میں اپنے حصے کے تناسب سے مسلم امیدواروں کو نامزد کرنے میں ہچکچاہٹ برقرار رہی،تاہم بعد کے عہد میں اس نمائندگی میں اضافہ ہوا مگر اب تک خاطر خواہ نمائندگی صرف ایک خواب ہی بن کر رہ گئی۔بلکہ آنے والے وقت میں تو یہ اندیشہ بھی ہے کہ پارلیمان میں مسلم نمائندگی کہیں عنقا ہی نہ ہوجائے۔
حالانکہ بی جے پی کے علاوہ دیگر پارٹیاں زیادہ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار رہی ہیں، لیکن وہ ہر الیکشن کے تناسب سے نہیں جیت رہی ہیں۔ ٹکٹ ملنے کے بعد بھی مسلم امیدوار انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے اور ان کی جیت کی شرح میں تیزی سے گراوٹ آتی جارہی ہے۔ پہلے مرحلے (1952-1977) میں مسلم امیدوار 50 فیصد کی شرح سے اپنی نشستیں جیت رہے تھے جبکہ پارٹیوں نے نسبتاً کم مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ حالیہ مدت (2002-2019) میں یہ گراوٹ 17 فیصد تک آگئی ہے جوغیر مسلم (بنیادی طور پر ہندو) کے مقابلے میں بہت کم ہے جن کی کامیابی کی شرح 29 فیصد ہے۔ صورت حال یہ ہے مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ آنے والے مستقبل میں لوک سبھا میں مسلم نمائندگی کی حیثیت میں کوئی بہتری آئے گی۔
مذکورہ بالا گفتگو میں اگرچہ اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ کس طرح پارٹیاں آبادی میں اپنے حصے کے تناسب سے مسلم امیدواروں کو نامزد نہیں کرتی ہیں، معاً مسلم ان کی کامیابی کی کم شرح بھی ہے ، لیکن ایک اور بڑاسبب ہے جو مسلمانوں کو لوک سبھا میں مکمل نمائندگی کو محدود کرتا ہے۔ وہ ہےبرطانیہ سے لیا ہوا : ’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ‘‘ کا موجودہ انتخابی نظام یعنی ایک شخص کا ایک ووٹ ۔یہ دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ یہ نظام اقلیتی برادریوں کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے اگر ان کے ووٹ جغرافیائی علاقے میں مرکوز ہیں، برادری جتنی زیادہ علاقائی طور پر مرکوز ہوگی، اسے حاصل کردہ ووٹوں سے اتنی ہی زیادہ نشستیں ملیں گی۔ اس کے برعکس اس نظام کا خمیازہ ملک بھر میں پھیلی اقلیتی برادریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے منتشر اقلیتی برادری کو اس کے ووٹوں سے کم نشستیں ملیں گی۔ اگر غور کیا جائے تو مسلمانوں کی حالت سکھوں جیسی نہیں ہے جن کی پنجاب میں اکثریت ہے اور لوک سبھا میں بھی ان کی اچھی نمائندگی ہے کیونکہ وہ پنجاب کی ہر 10 نشستوں کا حصہ ہیں جو پنجاب کے جیتنے والے امیدوار کو ہر ایک فیصد ووٹ پر ملتی ہے۔ مسلم رائے دہندگان پورے ہندستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے لیے، یا کسی بھی اقلیتی برادری کے لیے، جو پورے ہندستان میں یکساں طور پر منتشرہے، یہ تقریبا ناممکن ہے کہ انھیں جیتنے والے امیدوار وں کے طور پر اپنا پورا حصہ ملے گا۔لہٰذا اس سے پہلے کہ کوئی اس نتیجے پر پہنچے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی کم نمائندگی صرف امتیازی سلوک اور تعصب کی وجہ سے ہے تو انھیں ایک بار اس نظام کی باریکیوں اور اس کی سفاکیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی کم نمائندگی کی سب سے بڑی وجہ انتخابی نظام ہے۔
’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ‘‘نظام کے نفاذ اور اس کے ذریعے پارلیمانی سطح پر اقلیتوں کوکم نشستیں ملنے کی حقیقت کے بعد سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ریاستوں کی سطح پر بھی یہی نظامی تعصب لاگو ہوتا ہے؟ 16 لوک سبھا انتخابات میں اب تک کل 489 مسلم ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔ وہ ملک کے کس حصے سے آئے ہیں؟ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ممبران پارلیمنٹ ان ریاستوں سے ہیں جہاں مسلم آبادی قابل ذکر اور خاصی تعداد میں ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق 50 فیصد مسلمان تین ریاستوں یوپی، مغربی بنگال اور بہار میں آباد ہیں اور لوک سبھا کے لیے منتخب ہونے والے 25 فیصد مسلم ممبران پارلیمنٹ ان تین ریاستوں سے ہی آتے ہیں۔ جموں و کشمیر اور کیرالہ وہ دو ریاستیں ہیں جہاں مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں مسلمان کل آبادی کا تقریبا 5 فیصد ہیں، لیکن ان کی زیادہ جغرافیائی کثافت کے سبب آبادی کے مقابلے میں ان کی نمائندگی بھی زیادہ ہے ۔پورے ہندستان میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد کتنی زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 29 لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم رائے دہندگان آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت 82 فیصد لوک سبھا سیٹوں پر مسلم ووٹروںکی تعداد 20 فیصد سے بھی کم ہے۔’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم ‘‘کے بنیادی اصول کے مطابق، لوک سبھا کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ گنجان آباد علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم امیدواروں کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں ، ایسے حلقے جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ 1998 سے لے کر اب تک پچھلے پانچ عام انتخابات میں جیتنے والے مسلم ممبران پارلیمان پر نظر ڈالیں تو ایک بات واضح ہے کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی والی 29 سیٹوں سے 55 فیصد مسلم ممبران پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔ باقی 45 فیصد باقی 514 نشستوں سے منتخب ہوئے ہیں جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد 40 فیصد سے کم ہے۔
یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ زیادہ مسلم امیدواروں کے میدان میں ہونے کی وجہ سے لوک سبھا انتخابات ہار جاتے ہیں۔ تاہم پچھلے 5 لوک سبھا انتخابات کے اعداد و شمار اس نظریہ کی حمایت نہیں کرتے ہیں ۔ درحقیقت جیتنے والوں کا تناسب ان حلقوں میں زیادہ ہے جہاں زیادہ مسلم امیدوار ہیں۔ اور سب سے زیادہ حلقے ایسے ہیں جہاں چھے یا اس سے زیادہ مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نشست سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کی تعداد اور مسلم رائے دہندگان کی بڑی فیصد کے درمیان قریبی تعلق ہے۔
سوال یہ ہے کہ مختلف پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ کیا کچھ پارٹیاں اسے جیتنے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں جبکہ دیگر اسے نظر انداز کرتی ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی مسلم ووٹوں سے دور ہے۔ ہندستان میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے، پھر بھی بی جے پی کے امیدواروں میں سے صرف ایک فیصد مسلمان ہیں۔ یہ ہندستانی آبادی میں ان کے 14 فیصد حصے کے باوجود ہے۔ شاید یہ جان کر حیرت ہوگی لیکن دوسری پارٹی جو مسلمانوں پر سب سے کم توجہ دیتی ہے وہ کانگریس ہے۔ اس کے صرف 7 فیصد امیدوار مسلمان ہیں۔
لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتادل(آرجے ڈی) اس فہرست میں سب سے نمایاں جماعت ہے جس میں مسلم امیدواروں کی شرح سب سے زیادہ ہے، خاص طور پر بہار میں، 17 فیصد کے ساتھ۔ سماج وادی پارٹی (بنیادی طورپر اترپردیش میں) 16 فیصدکے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسرے نمبر پر ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس ہے جس کے 15 فیصد مسلم امیدوار (خاص طور پر مغربی بنگال میں) ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ کانگریس پارٹی میں مسلم لیڈر کی شرح سب سے کم ہے ، پچھلی سات دہائیوں میں سب سے زیادہ مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح کانگریس ہی سے رہی ہے۔ یہ شرح 46فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کے ہر دو مسلم امیدواروں میں سے تقریباً ایک جیتتا ہے۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے مسلمانوں کو نامزد کرنے کا کم فیصد واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی صرف ان مسلم امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے جن کے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔دوسری طرف اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان کانگریس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اگر مسلم رائے دہندگان کو ’اسٹریٹجک‘ طور پر ووٹ دینے کی ضرورت ہے تو وہ کانگریس کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
سی پی آئی (ایم) کے مسلم امیدواروں کی جیت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ شرح 44 فیصد ہے۔ اس کے صرف 10 فیصد امیدوار مسلمان ہیں۔ تاہم مغربی بنگال میں گزشتہ دو ریاستی اسمبلی انتخابات میں سی پی ایم کو ٹی ایم سی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔توقعات کے برعکس ایس پی اور بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کی جیت کی شرح سب سے خراب ہے۔ شاید اس کی وجہ کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی کے درمیان ان حلقوں میں مسلم ووٹوں کی تقسیم ہے جہاں مسلم رائے دہندگان نے حکمت عملی کے تحت ووٹ نہیں دیا ہے۔
درحقیقت جموں و کشمیر کے علاوہ کسی بھی ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں مسلم ایم ایل اے کا تناسب اس ریاست کے مسلمانوں کے فیصد کے برابر ہے۔ آسام اور کیرالہ دیگر دو ریاستیں ہیں جہاں 15-20 فیصد سے زیادہ ایم ایل اے مسلمان ہیں، حالانکہ دونوں ریاستوں میں آبادی میں ان کا حصہ نمایاں ہے۔ لیکن کچھ سال ایسے بھی گزرے ہیں جب ان ریاستوں میں (1980 اور 1982 میں کیرالہ میں اور مثال کے طور پر 1983 میں آسام میں) مسلم ایم ایل اے کی تعداد مسلم آبادی کے برابر رہی ہے۔
بنگال میں لگاتار سیکولر حکومتوں کے باوجود مسلم ایم ایل اے کی تعداد ریاست کی مسلم آبادی سے بہت کم رہی ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد کسی بھی ریاست میں سب سے زیادہ ہے۔ لیکن مسلم آبادی کے فیصد کے لحاظ سے مسلم ایم ایل اے کا فیصد اس کا صرف آدھا ہے۔
جموں و کشمیر ہندستان کی واحد ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہاں کی کل آبادی کا دو تہائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کیرالہ کی طرح جموں و کشمیر میں بھی مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ مسلم آبادی کی اکثریت وادی میں رہتی ہے – جہاں مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہاں اتنی گھنی آبادی کی وجہ سے اسمبلی میں 67 فیصد ایم ایل اے مسلمان ہیں، جو یہاں کی کل آبادی میں مسلمانوں کے حصے کے تقریباً برابر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم بڑی مسلم آبادی والی دس ریاستوں کو دیکھیں تو کسی بھی ریاست میں (جموں و کشمیر کو چھوڑ کر) ان کی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس فہرست میں سب سے نیچے گجرات ہے، جہاں صرف 2 فیصد مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔
٭٭٭