مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ)
وقف ایکٹ 1995اور 2013میں جو مجوزہ ترمیمات ہیں اور جسے بل کی شکل میں مرکزی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو نے 8/ اگست 2024ء کو پارلیامنٹ میں پیش کر دیا، حزب مخالف نے اس بل کی شدید مخالفت کی، پارلیامنٹ میں حکمراں جماعت نے اسے منظور کرانے کی پوری تیاری کر لی تھی، جبکہ انڈیا اتحاد کی پارٹیوں نے مدلل مخالفت کی تیاری کر رکھی تھی، سارا کھیل حکومت کا ان دو بیساکھیوں پر ٹکا ہوا تھا، جس میں سے ایک کی قیادت نتیش کمار کرتے ہیں اور لوگ جے ڈی یو سے جانتے ہیں، دوسری بیساکھی تیلگو دیشم پارٹی کی تھی، جس کی باگ ڈور چندرا بابو نائیڈو کے پاس تھی، جے ڈی یو کے نمائندہ للن سنگھ بل کی حمایت میں زبردست بیان دے چکے تھے، یہی وہ وقت تھا جب وزیر اعلیٰ بہار کووقف بورڈ کے چیرمین اور وزیر اقلیتی فلاح صورت حال سے واقف کرارہے تھے، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، آپسی صلاح ومشورہ سے جے ڈی یو اور تیلگو دیشم کے ارکان کو فوری طور پر یہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ بل کی حمایت کے بجائے اسے ”جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی“ کو بھیجنے کی رائے دیں، ادھر حزب مخالف بھی اس پر اڑا، مسلم پرسنل لا بورڈ کی وقف ایکٹ سے متعلق ترمیمات کی حقیقت سے ارکان پارلیمان کو واقف کرانے کی مہم بھی کام آئی، حکومت کو منہہ کی کھانی پڑی اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC)کو مجوزہ ترمیمات غور وفکر کے لیے دے دیا گیا، پہلی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیٹی بنانے میں کھیل نہیں کھیلا گیا ہے،اکتیس افراد پر ارکان پارلیمان اور راجیہ سبھا سے جو نام لیے گیے ہیں، اس سے اچھی توقعات بندھی ہیں، گو اس کمیٹی کا چیرمین بی جے پی کے جگدنبا پال کو بنایا گیا ہے،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران تمام ارکان سے فردا فردا مل کران کے سامنے اوقاف کے بارے میں اسلامی موقف رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جن دماغوں میں گرد بھری ہوئی ہے یا بھر دی گئی ہے اس کو صاف کیا جا سکے۔ JPCمیں جب کوئی معاملہ ڈالا جاتا ہے تو عمومی روایت کے مطابق اسے سرد بستے میں ڈالنا کہتے ہیں،لیکن اس بل کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے اس کی رپورٹ آجانی چاہیے، ہو سکتا ہے اس کمیٹی کی مدت کار بڑھادی جائے۔ سرکاری معاملات میں ایسا ہوتا رہا ہے اور یہ روایت انتہائی قدیم ہے، ہمیں اللہ سے بہتری کی دعا کرنی چاہیے اور مشترکہ پارلیمانی ارکان سے حقائق کے مطابق نتیجے تک پہونچنے کی امید رکھنی چاہیے۔
وقف ایکٹ 1995اور 2013میں جو مجوزہ ترمیمات بل کی شکل میں زیر غور ہیں اس کا تعلق وقف کے نام سے اس کی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کی حقیت، انتظام وانصرام، اختلافی صورت حال میں سماعت اور مقدمات کے تصفیے وقف کی آمدنی کے خرچ کرنے اور وقف بورڈ کے اختیارات کو کم کرنے جیسے بنیادی مسائل سے ہے، ان ترمیمات کی منظوری سے سب کچھ بدل کر رہ جائے گا، جن کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہے اس کے علاوہ سرکار اپنی صوابدید سے وقف کی آمدنی کو خرچ کر سکے گی، اور اسکی آراضی کا استعمال وزیر اعظم رہائشی اسکیم کے لیے کیا جا سکے گا، یہ ایک نازک معاملہ ہے، اس لیے ان ترمیمات کا جائزہ ذرا تفصیل سے لینا چاہیے، بل میں درج ترمیمات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو دو لفظ سے ایکٹ میں اختلاف ہے، ایک تو ”وقف“ دوسرے ”مسلم“ چنانچہ جہاں جہاں یہ دو لفظ تھے ان کو ممکنہ حد تک بدلنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں ممکن نہیں ہوا وہاں اتنے الفاظ اس کے ساتھ جوڑ دیے گیے ہیں کہ اس میں حکومت کے ذریعہ من مانی کی راہ نکل آتی ہے، پہلے ”وقف ایکٹ مختصر سانام تھا، اب اس کو بدل کر UNIFIED WAQF MANAGEMENT, EMPOWERMENT, EFICIENCY AND DEVELOPMENT رکھا گیا ہے، وقف ایکٹ میں شیعہ سنی تو پہلے سے ہی تھے، اب اس میں آغا خانی، اور بوہرہ وقف کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، پہلے سات سے گیارہ ممبر ہوتے تھے، جو سب کے سب مسلمان ہوتے تھے، صرف چیرمین کے غیر مسلم ہونے کی گنجائش تھی، لیکن اب سات ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں، بقیہ ممبران کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ دو ارکان پارلیامنٹ اور ایک راجیہ سبھا کے رکن وقف بورڈ کے ممبر ہوں گے، ممبران کے لیے بل میں مسلم کی قید کا اضافہ نہیں ہے، اس لیے گنجائش بنتی ہے کہ یہ تینوں بھی غیر مسلم ہوں اور حکومت ان کو نامزد کردے، البتہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دو جج، ایک وکیل، چار ارکان قومی سطح کے مالیاتی ادارے، حکومت کے ایڈیشنل یا جوائنٹ سکریٹری یہ مسلمانوں میں سے ہوں گے، نیز دو خاتون ارکان کے بارے میں صاف لکھا گیا ہے کہ وہ غیر مسلم ہو سکتی ہیں۔اور عہدے کی بنیاد پر جن کو ممبر بنایا جائے گا اگر وہ مسلم سماج سے نہیں پائے جائیں گے تو ان کی جگہ پر دوسرے بھی لیے جا سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اتر پردیش کیرالہ، کرناٹکا، تملناڈواور دوسری ریاستوں میں دیگر مذاہب کے جو نیاس، خیراتی ادارے وغیرہ ہیں ان میں کوئی مسلمان ممبر نہیں ہو سکتاجس کی صراحت HINDU ENDOWMENT ACT, HINDU RELLIGIOUS PLOUS ACT, GRUDWARA PARBANDHAK SAMITI موجود ہے، گردوارہ پر بندھک کمیٹی، رام مندر ٹرسٹ وغیرہ میں کیا حکومت کسی مسلمان کو بحیثیت رکن شامل کرے گی یقینا ایسا ممکن نہیں ہے تو مسلمانوں کے وقف میں کیوں غیر مسلم ارکان کوحکومت جگہ دینا چاہتی ہے۔
ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں بھی ارکان بورڈ کے ذریعہ صدر کے انتخاب کی جگہ ریاستی حکومت کے ذریعہ چیئرمین کے نامزدگی کی بات کہی گئی ہے جبکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں ہندو مذہب کی جائیداد، انتظام وانصرام میں حکومت کے دخل کی اجازت نہیں ہے اورکمیٹی میں ہندو ارکان کا ہونا لازم ہے تو پھر وقف قانون سے مسلم ہونے کی قید کیوں ہٹائی جارہی ہے یہ انتہائی قابل غور مسئلہ ہے یہاں بھی ایکس آفیسیو کے علاوہ7 سے 11 ممبر غیر مسلم ہو سکتے ہیں، ظاہر ہے جو لوگ ایک ملک، ایک انتخاب، ایک ملک ایک کرنسی کی بات کرتے ہیں ان کے نزدیک ایک ہی طرح کے معاملات میں دو طریقے کارکا کیا جواز ہوگا۔
ترمیمات میں Significance of Waqf کو حذف کر دیا گیا ہے جیسا کہ بل کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس بل میں اوقاف کی منقولہ وغیر منقولہ جائداد یا اس کے کسی خاص حصے کی منتقلی حکومتی اداروں کے ذریعے حکومت کو کی جا سکتی ہے حالانکہ راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پہلے ہی اوقاف کی جائیداد کے بڑے حصے پر حکومت نے اپنے دفاتر، ہوٹل، وغیرہ بنا رکھے ہیں، جس سے اس کی وقف کی حیثیت ختم ہوکر رہ گئی ہے، اس ترمیم کو قبول کرنے کا مطلب ہوگا کہ ضلع مجسٹریٹ اور ریاستی حکومتوں کے عہدیدار اس بات کے مجاز ہو جائیں گے کہ وہ کسی بھی وقت اوقاف کی جائیداد کو حکومت کی ملکیت قرار دے کر اس پر قبضہ کر لیں۔
بل میں اوقاف کی جائیداد کو حکومت اپنی نگرانی میں رکھنے کے لیے اوقاف کا ایک ڈیٹا بیس یا پورٹل سسٹم بنائے گی جس میں رجسٹریشن کرنے کرانے، حساب کی دیکھ ریکھ، آڈٹ اور دیگر تفصیلات اوقاف اور وقف بورڈ سے متعلق اس میں موجود ہوں گی اور یہ مرکزی حکومت کے ذریعے کیا جائے گا۔
حالانکہ اوقاف کی جائیداد اللہ تعالی کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کے مفادات کے لیے ہے، اس لیے اس کومرکزی حکومت کے بجائے مسلمانوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جانا چاہیے۔اوقاف کی حفاظت کا یہی ایک راستہ ہے، ورنہ حکومت نے جس طرح ونوبابھاوے کی ”بھودان تحریک“ کے نتیجے میں حاصل شدہ آراضی کو برباد کر دیا کہ اب اس کا وجود ختم ہو کر رہ گیا ہے، اوقاف پر حکومت کے کنٹرول کا نتیجہ بھی یہی ہوگا۔ سیکشن -1 میں کلاز”ک“ کے بعد نئے بل میں یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
سیکشن 1 کے کلاز (R) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اسی واقف کا وقف معتبر ہوگا جس کو اسلام لائے ہوئے پانچ سال گزر گئے ہوں یہ غیر ضروری شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اس مسلمان کو کسی طرح محنت کر کے گھر واپسی کے لیے تیار کیا جا سکے، حکومت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جو مسلمان ہو جاتا ہے، وہ عموما پوری زندگی مسلمان ہی رہتا ہے، اس کا فیصلہ وقتی اور جذباتی نہ تو اپنے بارے میں ہوتا ہے اور نہ ہی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے بارے میں، یہ غیر ضروری اس لیے بھی ہے کہ اگر کوئی مذہب تبدیل کر کے ہندو مت اپنا لے اور کسی رفاہی کام کے لیے اپنی جائیداد دے تو حکومت یہ نہیں کہتی کہ ابھی اس کو ہندو مذہب میں آئے پانچ سال نہیں ہوئے ہیں، اس لیے اس کا یہ ”دان“ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
سیکشن -3 کے سب کلاز(i) میں متولی کی تعریف میں تبدیلی کی گئی اور اسے سیکشن 50A کا حصہ بنایا گیاہے۔ متولی کی نئی تعریف کے سارے پہلو منفی ہیں اور اسے وقف ایڈمنسٹریٹر کا پچھ لگوا بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جبکہ متولی یا تو واقف خود ہوتا ہے، یا وہ کسی کو نامزد کرتا ہے یا حلقہ کے عام مسلمانوں کے ذریعہ اس کا انتخاب ہوا کرتا ہے، ریاستی وقف بورڈ کے دائرے میں صرف اور صرف متولی اور بنائی گئی کمیٹی کو اپروول دینا تھا، نہ کہ متولی کی تعیین۔
سیکشن-3 کے سب کلاز (iv) میں ”ویلفیئر“ لفظ کے بعد بیوہ، مطلقہ عورتیں، یتامیٰ کو بھی شامل کیا گیا ہے، جن کی تعیین مرکزی حکومت کرے گی، یعنی ویلفیئر کے مطلب میں یہ سب بھی شامل ہوں گے، اوقاف کی آمدنی رفاہ عام کے نام پر ان پر بھی خرچ کیا جائے گا، اسلام میں بیوہ، مطلقہ عورتیں اوریتامیٰ جن کی دیکھ ریکھ کرنے والا کوئی نہ ہو، اس کی خبرگیری کرنا بڑا کار ثواب ہے، اور ایسے لوگوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، اور اسے کرنا چاہیے، لیکن وقف کی آمدنی سے نہیں، واقف نے اسی کام کے لیے کوئی جائیداد وقف کی ہو تب توبات دوسری ہے اور شرعی طور پر ان امورمیں اس کی آمدنی سے خرچ کیا جائے گا، لیکن اگر واقف نے اپنی جائیداد مسجد، مدرسہ، خانقاہ، عید گاہ، مزارات وغیرہ کے لیے وقف کیا ہے تو اس کی آمدنی واقف کی منشا کے مطابق ہی خرچ کی جا سکتی ہے اور ان بے سہارا لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے دوسری شکل نکالی جائے گی یہ ترمیم دستور کی دفعہ 26 اور 29 کے بھی خلاف ہے اس لیے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
سیکشن -3 میں 3C کا اضافہ کر کے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کلکٹر کسی جائیداد کے بارے میں یہ یقین رکھتا ہے کہ حکومت کی جائیداد ہے، تو وہ رینیو ریکارڈ میں اصلاح کر کے ریاستی حکومت کو باخبر کرے گا۔ پہلے یہ کام سروے کمشنر کے ذریعے ہوتا تھا، اب یہ کام کلکٹر کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ سروے کمشنر بھی حکومت کا ہی آدمی ہوتا ہے، اس لیے یہ ایک غیر ضروری تبدیلی ہے، یہ تبدیلی سرکار اس لیے کرنا چاہتی ہے تاکہ وقف کے سلسلے میں فیصلے کی قوت اور طاقت کا ارتکاز کلکٹر کے پاس آجائے۔
اسی سیکشن میں (4)3C کا بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ جب کلکٹر فیصلہ کر کے ریاستی حکومت کو باخبر کر دے گا تو رپورٹ کی کاپی کے ساتھ ریاستی حکومت اسے وقف بورڈ کو فراہم کرائے گی، اور وقف بورڈ کلکٹر کے فیصلے کے مطابق اپنے ریکارڈ میں ترمیم کرے گا۔ یہ مذہبی معاملات میں حکومت کی دخل اندازی ہے۔ جو دستور ہند کے دفعہ 25، 26 اور 29 کی کھلی خلاف ورزی ہے
سیکشن -4 میں ترمیم کر کے سروے کرانے کا اختیار کلکٹر کو دے دیا گیاہے، حالانکہ وقف بورڈ میں سروے کمشنر کا انتظام پہلے سے ہی موجود ہے اسی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ کام کی تقسیم سے کام وقت پر ہوتا ہے، جلدی ہوتا ہے، کلکٹر پر پہلے سے ہی کاموں کا بوجھ ہوتا ہے اس لیے عام حالتوں میں سروے کا کام پس پشت چلا جائے گا۔
سیکشن (1) 6 میں وقف ٹریبونل کے اختیارات کو سمیٹ کر اس کے فیصلے کی اہمیت کو ختم کر دیا گیا ہے، سیکشن 7 میں ٹریبونل میں اپیل کے لیے جو محدود وقت دیا جاتا تھا اس کے حد کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، مطلب صاف ہے کہ جھگڑا لگانے، وقف کی جائیداد کو ہڑپنے کے لیے جب چاہے کوئی اپیل میں جا سکے گا، حالانکہ عدالت تک میں اپیل کی مدت مقرر ہوتی ہے اور اگر مقررہ مدت میں کسی نے اپیل نہیں کیا تو سمجھا جاتا ہے کہ فریق ثانی کو اس معاملے میں کچھ نہیں کہنا ہے اور فیصلہ ہر دو فریق کے لیے قابل قبول ہے۔
سیکشن 20A میں وقف بورڈ کے چیئرمین کو عدم اعتماد کی تحریک لا کر ہٹایا جا سکتا تھا، اس دفعہ کو ختم کر دیا گیا ہے، اس سے چیئرمین میں آمریت آنے کا خطرہ ہے، یوں بھی ایک جمہوری طریقہ کار کو ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔
سیکشن (1) 23 میں یہ بات تھی کہ بورڈ میں ایک کل وقتی چیف ایگزکیٹیو آفیسر ہوگا، جو مسلمان ہوگا، ریاستی حکومت کے ذریعہ آفیشیل گزٹ میں نوٹیفیکیشن کے ذریعہ بحال ہوگا۔ وقف بورڈ دو افراد کا پینل سرکار کو بھیجے گا، جو ڈپٹی سکریٹری رینک کا ہوگا، اس سیکشن میں دو تبدیلی کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مسلم ہونے کی قید کو ہٹا دیا گیاہے، نئی ترمیم میں Who Shall be a Muslim کو حذف کر دیا گیا ہے۔ دوسری تبدیلی ڈپٹی سکریٹری کی جگہ ریاستی حکومت میں جوائنٹ سیکرٹری کو اس عہدے کا مجاز قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح دو سیڑھی CEO کے عہدے کے لیے آگے کیڈرکوبڑھا دیا گیا ہے۔ حالانکہ جب اوقاف مسلم کاز کے لیے ہیں، تو اس کا CEO مسلمان کو ہی ہونا چاہیے۔
سیکشن(1) 32 میں واقف کی منشا کے مطابق ہی بورڈ کام کرے گا اور وقف کی کل آمدنی اسلام مذہب کی تعلیمات اور روایات کے مطابق ہی خرچ کی جاسکے گی، اس دفعہ کو سرے سے حذف کر دیا گیا ہے، کیونکہ حکومت اپنی مرضی سے وقف کی جائیداد دوسروں کو منتقل کرنے اور اس کی آمدنی میں خرد برد کا ارادہ رکھتی ہے، اس دفعہ کے حذف ہونے سے وقف کی بنیاد پر ایسی تیشہ زنی کی گئی ہے کہ وقف کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہے گی، اس دفعہ میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ قانون وضع کرنے والی ایجنسی بھی قانون بنانے سے پہلے اور بعدوقف ایکٹ میں دی گئی تفصیلات کو سامنے رکھ کر ہی قانون بنائے گی، اس کو حذف کر دیا گیا ہے تاکہ مرکزی حکومت اوقاف میں منمانی دخل اندازی اور وقف کے مفادات کو متاثر کرنے والے قانون سازی کے لیے دروازہ کھل جائے۔
اسی سیکشن کے کلاز(3) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ٹریبونل کا فیصلہ آخری ہوگا اس کو حذف کر دیا گیا ہے، تاکہ کلکٹر کو سارے اختیارات تفویض کیے جا سکیں، جبکہ ٹریبونل بھی سرکارہی بناتی ہے جس میں ایک ریٹائر جج اور دو جوائنٹ سکریٹری رینج کے ارکان ہوتے ہیں، گویا یہ تین نفری بینچ ہے، جو اوقاف سے متعلق تنازعات کو سننے اور فیصلے کا اختیار رکھتا ہے ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جاتی رہی ہے، یہ بات سوچ سے باہر ہے کہ سرکار کو اپنے قائم کردہ ٹریبونل پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔
سیکشن(4) 33 کے تحت ٹریبونل کو پہلے بھی کسی پینڈنگ معاملہ کو ختم کرنے کا اختیار نہیں تھا، یہ کام سب سیکشن 3 کے تحت چیف ایگزیکٹیو افسر کے ذریعے کیا جاتا تھا، اس کو سرے سے مجوزہ ترمیم میں حذف کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ٹریبونل کے اختیارات میں تخفیف کردی گئی ہے، اگر یہ ضروری ہے تو حکومت کو ہندوستان میں ستر سے زائد ٹریبونل کے اختیارات کو بھی کم کرنے کے لیے بل لانا چاہیے۔
سیکشن (4) 36 سے ان الفاظ کو حذف کیا گیا ہے جن میں وقف 1995 اور 2013 میں استعمال کی بنیاد پر اسے وقف مان لیا گیا تھا،یہ کام سکشن 3کے (V) (1) میں ”یا تو زبانی“ کے الفاظ کو حذف کرکے بھی کیا گیا ہے، اس سے قبل کے دفعات میں بھی ”کوئی شخص“کو ہٹا کر”کوئی بھی ایسا شخص“ کے الفاظ سے زبانی وقف کو خارج کر دیا گیا ہے، اس کے حذف کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ جو زبانی اوقاف ہیں، اور جن کا استعمال زمانہئ قدیم سے مسجد، مدرسہ وغیرہ کے لیے ہو رہا ہے، اس کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گااور سرکار اسے غیر موقوفہ مان کر اپنی تحویل میں لے لے گی، یہ کام غیر قانونی طریقے سے سرکار پہلے بھی کرتی رہی ہے، چنانچہ جن مستعمل موقوفہ آراضی کا سروے نہیں ہوا تھا، سب کو سروے کرنے والوں نے غیر مزروعہ عام بہار سرکارکردیااور جس کام کے لیے ابھی استعمال ہو رہا ہے اس کو قوسین میں لکھدیا، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس زمین کا فی الوقت کیا مصرف ہے، لیکن اس اندراج کی وجہ سے اسے سرکار اپنی جائیداد ہی مانتی ہے، موقوفہ نہیں۔
سیکشن (7) 36 میں جومجوزہ ترمیم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کو وقف کرنا ہے تو وہ وقف بورڈ کے پاس (سارے کاغذات اور شواہد کے ساتھ کہ وہ زمین اس کی ملکیت ہے)درخواست دے گا کہ اسے رجسٹرڈ کیا جائے، وقف بورڈ کے پاس صرف اس قدر اختیار ہوگا کہ انکوائری وغیرہ کرا کر اس کی قدر و قیمت وغیرہ کی تعین کرا لے اور اسے کلکٹر کے پاس بھیج دے، اگر اس زمین پر وقف کے خلاف کوئی اپیل کرتا ہے،اور متنازعہ بتاتا ہے، تو اس کی سماعت ہوگی اور سیکشن 7(A) کے مطابق اگر رپورٹ میں اس زمین کا کوئی دعویدار ہے، یا وہ حکومت کی پروپرٹی قرار دی گئی ہے، تو کلی یا جزوی طور پر اس کا رجسٹریشن وقف کی حیثیت سے نہیں ہو سکے گا۔ یہ ترمیم دفعہ 29، 26، 25 کے خلاف ہے اور وقف بورڈ کے اختیارات اور واقف کی منشا کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی پختہ ہو گئی کہ تمام آراضی جن پر پہلے بہار سرکار سروے میں لکھ دیا گیا ہے، خواہ وہ جس مصرف میں بھی استعمال ہو، وقف نہیں بہار سرکار کی ملکیت ہوگی۔
بل کے جو مندرجات ہیں اس سے وقف علی الاولاد کی بھی گنجائش باقی نہیں رہے گی، والد وقف کے لیے کاغذ داخل کرے گا، اور کوئی فریق حق وراثت کی بنیاد پر عرضی ڈال دے گا۔اور معاملہ ختم ہو جائے گا،حالانکہ ہندو کوڈ میں باپ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ساری جائیداد بیٹوں کے نام کرکے بیٹیوں کو کلیۃً محروم کردے، اتراکھنڈ کے یونی فارم سول کوڈ میں بھی اس کی توثیق کی گئی ہے، پھر مسلمانوں کو حکومت کیوں وقف علی الاولاد سے محروم کر نا چاہتی ہے۔
سیکشن (1) 47 میں وقف بورڈ کو آڈیٹر کا پینل بنانے اور اسے بحال کرنے کا اختیار تھا، وقف بورڈ کے اس اختیار کو سلب کر کے ریاستی حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے پہلے آمدنی کاڈیڑھ فیصد اس پر خرچ کیا جا سکتا تھا، جس کی تفصیل وقف ایکٹ سیکشن(1)47 کے تحت درج ہے مجوزہ ترمیم میں اسے سرے سے حذف کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے کسی بھی آمدنی و خرچ کی جانچ کے لیے مرکزی حکومت ڈائریکٹ آڈٹ کا حکم کسی بھی وقف کے لیے کسی بھی وقت دے سکتی ہے، مرکزی حکومت یہ کام حکومت ہند کے آڈیٹر جنرل یا کسی بھی افسر کے ذریعے کرا سکتی ہے، حکومت ہند اس کے لیے طریقہ کار بھی وضع کر سکتی ہے، اس ترمیم کے مان لینے پر وقف بورڈ مرکزی حکومت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔ یہ 29 26, 25, دفعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ یہ اقلیت کے معاملات میں پوری دخل اندازی ہے۔
وقف ایکٹ 1995 کا سیکشن(2) 52A، (4) 52A سیکشن 61 اسی سیکشن کا 61(1)(F) سبھی کو حذف کرنے کی تجویز ہے۔ یہ وہ دفعات ہیں، جس سے وقف بورڈ کو وسیع اختیارات ہر معاملہ میں مل رہے تھے، بورڈ کے اختیارات کو محدود اور اس کو مفلوج بنانا، ان کو حذف کرنے کا بنیادی مقصد ہے۔
سیکشن 104 میں وقف کرنے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں تھا، کوئی بھی شخص وقف کے ان مقاصد کے لیے اپنی جائیداد وقف کر سکتا تھا، اس دفعہ کو حذف کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے، اس کی وجہ سے کوئی غیر مسلم اپنی جائیداد مسلم اوقاف کے مقاصد کے لیے نہیں دے سکے گا، مجوزہ ترمیمات میں سیکشن 107، 108 کو بھی حذف کرنا شامل ہے، ان دفعات کا تعلق بھی وقف بورڈ کے اختیارات سے تھا۔
یہ چند مجوزہ ترمیمات کا تجزیاتی مطالعہ ہے، پورے کا نہیں، پورے کا مطالعہ اور ان کی قانونی وضاحت تو قانون داں حضرت ہی کر سکتے ہیں، یہ چند نکات ہیں، جو بادی النظر میں سمجھ میں آئے اس کا ذکر کردیا گیا ہے، ضرورت محسوس ہوتی تو اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔