ملک میں آئے دن ہر گوشے سے تشدّد اور بداخلاقی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں مگر سماجی اور سیاسی سطح پر ان سے مقابلہ کرنے کے لیے انقلابی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
صفدر امام قادری
ایسا کوئی دن نہیں ہوتا جب اخباروں میں ایسی خبر نہیں شائع ہوتی ہو کہ ہماری بہن اور بیٹیوں کی عزت و ناموس خطرے میں ہے۔ اب اس سلسلے سے ایک نئی صورت دیکھنے کو ملتی ہے کہ مجرمین ثبوت مٹانے میں وحشت اور بربریت کی حد کو پارکرجاتے ہیں اور اکثرہماری بہن بیٹیوں کے بہیمانہ قتل اور ان کی جان کو طرح طرح کی ایذا رسانیوں کے ساتھ ختم کردیا جاتا ہے۔ یہ بات ملک کے کسی ایک گوشے میں یا کسی ایک صوبے یا کسی ایک قوم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر طبقے اور ہر علاقے میں یہ کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ دشواری یہ ہے کہ کوئی بات سیاسی اور سماجی سطح پر لوگوں کی نگاہ میں آجاتی ہے اور تھوڑے بہت لوگ آرام کی اپنی زندگی سے نکل کر سڑکوں پر آجاتے ہیں، کبھی کبھی سیاست داں یا صاحبانِ اقتدار اپنی فکر مندی کا بھی اظہار کردیتے ہیں مگر ہزاروں ایسے معاملات دکھائی دیتے ہیں جن پر آنسو بہانے والا کوئی نہیں اور اکثر ملزمین کی ذات برادری، مذہب اور سیاسی انسلاک کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگ خاموش رہ جانا مناسب سمجھتے ہیں۔
وحشت اور بربریت انسانی سماج میں محبت اور خیرسگالی کے مخالف ایسے امور ہیں جن پر روزِ ازل سے غوروخوض کیا جاتا ہے۔ آدم کی اولاد میں ہابیل اور قابیل سے یہ تاریخ شروع ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا مذہب نہ ہوگا جس نے سماج میں ظلم اور بربریت یا بداخلاقی کے خلاف آواز نہ بلند کی ہو۔ ایک بہتر کردار اور ایک امن پسند خوب صورت آبادی کے قیام کا نشانہ ہر مذہب کا طور رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب مذہبی سماج سے دنیا جمہوریت میں تبدیل ہوکر ہمارے سامنے آئی، جمہوری قوانین میں بھی ان اخلاقی اور مذہبی اصولوں کو سرفہرست رکھا گیا اور وہاں جو باتیں باعثِ عذاب تھیں، ان کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر اگر کوئی شخص اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تو جمہوری نظام کی عدالتیں اسے قابلِ سزا نہ تصورکریں، اسی طرح سے حقوقِ انسانی اور بالخصوص خواتین کی عزت و ناموس پر اگر کوئی حرف آنے دے تو ہندستانی قانون میں اس کے لیے معقول سزا موجود ہے اور بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی ہے۔ ورنہ آج حالات ایسے ہوتے کہ ہماری بہن بیٹیاں جی بھی نہیں پاتیں۔
دشواری یہ ہے کہ جمہوری اداروں کے فروغ نے ہمیں ایک ضابطے میں جینے کا موقع ضرور فراہم کیا مگر جرائم پیشہ افراد اور انسانی مزاج کی نفسیات کے حوالے سے غور و فکر کرنے اور اس اعتبار سے لائحہئ عمل تیار کرنے کے لیے بار بار جیسی سنجیدہ کوششیں کرنی تھیں، اس طرف ہماری توجہ بہت کم رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قانون کی کتابوں اور زندگی کی کھلی کتاب کے درمیان جس ضابطہئ اخلاق کو ہمیں دلوں میں اتارنا تھا، اس کے بارے میں سماج کا کوئی طبقہ ایمانداری سے سرگرمِ عمل نہ ہوسکا۔ نتیجہ واضح ہے کہ آدھے ادھورے نتائج اور قانون اور انسانیت کی کبھی ہار اور کبھی جیت کی چکی میں پورا نظام اور سماج پسنے کے لیے مجبور رہے اور آئے دن ایسے نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں جب ہماری آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو رونے کے لیے ہماری آنکھیں بھی ساتھ نہیں دے پاتی ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ملک کے احوال پر کہانیاں لکھتے ہوئے ہندو موت اور مسلمان موت کا دردآمیز تذکرہ کیا تھا۔ ہمارے سیاسی کارخانے میں یہ فرق رفتہ رفتہ اور مضبوط ہوتا گیا اور سیاسی مصلحتوں سے مذہبی تفریق اور اس سے بھی بڑھ کر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی حلقہ بندی کو ایک ایسی حقیقت مان لیا گیا جس کے ارد گرد سماجی پہچان اور حد تو یہ ہے کہ حق اور باطل کی پہچان بھی اس دائرے میں سمٹ گئی۔ ایک سیاسی جماعت اپنے حلقے کے افراد کی ہر غلط بات کو درست ماننے کے لیے تیار ہے۔ سب سے پہلے یہ بات فسادات کے سلسلے سے ہوئی اور انسانوں کی موت یا تباہی و بربادی کو مذہبی جماعتوں کے حوالے سے پہچاننے کی کوشش شروع ہوئی۔ اس کے لیے نہ آئینِ ہند نے کوئی رہنمائی کی تھی اور نہ ہی کبھی کسی مذہبی جماعت نے اپنی کتاب میں یہ بتایا ہو کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کا قتل دوسرے مذہب کے افراد کے لیے احسن ہے اور اگر ظالم صاحبِ اقتدار جماعت سے ہے تو وہ قانون کی گرفت سے باہر ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد سماج میں طاقت ور برادریوں کے تسلط نے بھی ایک برا ماحول بنایا۔ زمین داروں اور دولت مند افراد کی مٹھی میں آزادی سے پہلے سب کچھ تھا، ملک کی نئی تعمیر و ترقی نے اور نئے قوانین نے انھیں برابری کا درجہ دیا تھا مگر وہ اپنی عادتوں سے مجبور تھے۔ دس کی حصہ داری لینے والے شخص کو سب کے برا بر کھڑا کردیا جائے تو اس کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ آزادی سے پہلے اپنے گاؤں کی بہو بیٹیوں پر ان کا مالکانہ تصرف جگ ظاہر تھا اور ہندستان کا دیہی نظام اس بداخلاقی کی چپیٹ میں ایک طویل مدت تک رہا ہے مگر آزادی ملنے کے بعد یہ لازم تھا کہ ایسی بداخلاقیوں اور ظلم وزیادتیوں پر قدغن لگے۔ ہمارے قانون نے بہت حد تک ایسے لوگوں کے لیے مشکلیں پیدا کیں مگر سماج میں ان کی طاقت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ آج تک اپنی بداخلاقیوں کے لیے اسی پرانی طاقت اور اسی پرانے ظلم و جبر کے آئینے میں قید ہیں اور دوسروں کی زندگی کو برباد کرنے میں کہیں بھی وہ پیچھے نہیں ہیں۔ ایک قباحت یہ بھی ہے کہ ان سماجی اعتبار سے طاقت ور لوگوں کو رہ رہ کر سیاسی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے اور ان کے ظلم و جبر کو دیکھنے کے لیے الگ سے پیمانے گڑھ لیے جاتے ہیں۔
مختلف ذرائع سے سوشل میڈیا اور تھوڑے بہت اخبارات میں یہ خبر بھی آنے لگی ہے کہ زنابالجبر اور بہیمانہ قتل کے جن واقعات پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاج، سماج کے طاقت ور لوگوں کے ساتھ جب ایسے حادثات ہوتے ہیں، اسی وقت ایسا رونما ہوتا ہے۔ دلت آبادی، اقلیت کے افراد اور دیگر کمزور طبقے کی بہو بیٹیوں کے ساتھ جب ایسے واقعات سرزد ہوتے ہیں، وہ تو عوامی احتجاج کا کبھی حصہ ہی نہیں بنائے جاتے۔ گذشتہ دہائی میں جس ماب لنچنگ اور لَو جہاد کے عتابات سیاسی مصلحتوں سے اقلیت آبادی پر نازل کیے گئے، اس میں بھی حکومتِ وقت اور اکثریتی طبقے کی دو رنگی پالیسی لگاتار ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ وہاں مذہبی بنیاد پر عوامی درندوں اور ظالموں کو کہیں نہ کہیں ظلم کرنے کی عمومی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ایک زمانے میں کئی برسوں کی پھانسی کے سزایافتہ افراد کی ایک فہرست دیگر تمام تفصیلات کے ساتھ ایک مشہور صحافی نے جاری کی تھی اور اپنے مضمون کا عنوان بنایا تھا”پھانسی میں صد فی صد ریزرویشن“۔ انھوں نے 54/کیس کی تفصیلات لکھی تھی، تمام پھانسی کے سزایافتگان دلت طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے جرائم پیشگی کی ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر عدالت اور پولس انتظامیہ کے بعض مسائل اور کھیل تماشوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ سماج کا طاقتور طبقہ بچ جاتا ہے اور سب سے کمزور طبقہ جرم کرے یا نہ کرے، سزاوار ہوتا ہے۔ ملک کا سیاسی نظام ان مسئلوں پر روٹین طریقے سے اور اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے سوچتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس اقتدار کو ہماری حفاظت کرنے کی ذمہ داری ملی تھی، وہ کچھ طاقت ور مجرمین اور ملزمین کو بچانے میں لگ جاتا ہے۔ یہ حال کلکتہ سے لے کر دہلی اور پٹنہ سے لے کر بنگلور تک آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یہ مسائل آسمان سے ہم پر نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی ہمارے گھر، خاندان اور گاؤں محلے میں پرورش ہوتی ہے۔ ہم خود ظلم و جبر کی تربیت اپنے گھروں میں کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے گھروں کے طاقت ور لوگ اور بداخلاق افراد ہمارے گھروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ حکومت نے ایسے مسائل کے لیے تعلیم گاہوں کو نئے سرے سے منظم کرنے اور اساتذہ و طلبا کو نئی صورت حال میں آگے لے کر آنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جرم کا مزاج ایک دن میں نہیں تیار ہوتا ہے۔ ڈھیٹ اور بے راہ رَو لوگ بھی ایک دن میں مضبوط نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے اب یہ لازم ہوگیا ہے کہ اس بدصورتی کے بارے میں ہم اپنی درسی کتابوں میں لکھیں اور اپنے بچوں کو، اسکول کالج کے نونہالوں کو اس بات کی تربیت دیں کہ وہ کس طرح ایک انصاف پسند اور ایمان پرور سماج کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ تمام طرح کے جرائم پیشہ اور بدکردار و بداخلاق افراد ہمارے انھی اسکول اور کالجوں سے نکلتے ہیں تو کیا ہم انھیں اس گھر میں ہی تربیتِ نو دے کر نئے ذمے دار شہری اور اپنی بہنوں کے عزت و وقار کے محافظ کے طور پر سامنے لاکر ایک نیا اور خوش گوار ماحول نہیں بنا سکتے؟ سرکار اور جمہوریت کے جتنے ادارے ہیں، ان سب کو اپنی تعلیم گاہوں سے ان بے راہ رویوں سے مقابلہ کرنے والا ورک فورس تیار کرنا ہوگا، تبھی اپنے آئین کے معماروں اور جنگِ آزادی کے مجاہدین کے خوابوں کو ہم شرمندہئ تعبیر کرسکتے ہیں۔
(مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)