ملت کے ناموس پر یلغار، لمحہ فکریہ

ارشاد احمد قاسمی

نانپور، سیتامڑھی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو احاطہ کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانوں کے درمیان امن و امان، انصاف اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ اسی فلسفے کے تحت اسلام میں شادی کو ایک مقدس فریضہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد نہ صرف دو افراد کے درمیان محبت اور انسیت کا فروغ ہے بلکہ وسیع تر سماجی و اخلاقی مقاصد بھی ہیں۔ ان مقاصد میں سماجی ہم آہنگی، ناموس کی حفاظت، اور اسلامی اقدار کی پاسبانی اہم ہیں۔

اسی طرح اسلام نے انسانیت کو ایک معتدل اور متوازن معاشرتی نظام عطا کیا ہے، جو تمام زمانوں کے لیے راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ تاہم، جدید دور میں معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں نے اسلامی معاشرتی اصولوں کو کئی چیلنجز کا سامنا کرایا ہے۔ ان میں بے تحاشہ آزادی، مخلوط نظام تعلیم، مغربی تہذیب کا دبدبہ، سازش اور فتنے، جہیز کی لعنت، شادی کی صحیح عمر میں تاخیر، تعدد ازدواج اور دیگر مسائل شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے منافی بھی ہیں۔

حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے واقعات سماجی اور مذہبی سطح پر گہری تشویش کا باعث بنے ہیں۔ ان واقعات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلم لڑکیاں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے مذہب کو ترک کر رہی ہیں۔ بہت سی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تعلقات یا شادیوں کے نتیجے میں مذہب تبدیل ہو رہا ہے۔ کچھ حالات میں، محبت کے رشتے میں سماجی دباؤ یا خاندان سے بغاوت کے نتیجے میں مذہب تبدیل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہندو لڑکو سے شادی رچانے والی لڑکیوں کے عبرتناک انجام کی خبریں آئے دن ملتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود اس طرح کے معاملوں میں روز بروز اضافہ افسوسناک ہے۔ اگر ہم غور کریں تو اس کے بہت سارے اسباب ملتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے سماج کے ذی شعور افراد اس کے سد باب کے لئے کوشاں ہوں اور اپنے سطح پر بیداری اور شعور پیدا کریں۔

سماجی ہم آہنگی:

شادی کا ایک بنیادی مقصد معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے۔ ایک صالح معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب افراد آپس میں محبت، تعاون اور انصاف کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسلام میں شادی کو خاندان کی تشکیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، اور خاندان ہی وہ بنیادی اکائی ہے جس پر معاشرت کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ ایک مضبوط اور مستحکم خاندان سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے، جس سے معاشرتی اختلافات، بغض اور انتشار کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔ جب افراد خاندان کے دائرے میں آپس میں رشتہ داری کے بندھن میں بندھتے ہیں، تو اس سے معاشرتی امن اور بھائی چارے کا ماحول فروغ پاتا ہے۔

ناموس کی حفاظت:

اسلامی تعلیمات کے مطابق، انسانی عزت اور ناموس کی حفاظت بے حد اہم ہے۔ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ذریعے مرد اور عورت اپنی فطری خواہشات کو حلال اور جائز طریقے سے پورا کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے زنا، بے راہ روی، اور فحاشی جیسے برائیوں سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ نکاح کے ذریعے دونوں افراد ایک دوسرے کی عزت اور ناموس کے محافظ بنتے ہیں، اور اپنی اولاد کی تربیت بھی اسی اصول کے تحت کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی محفوظ ہوتی ہے، بلکہ معاشرہ بھی فحاشی اور بے راہ روی سے محفوظ رہتا ہے۔

اقدار کی پاسبانی:

شادی کا ایک اور اہم مقصد اسلامی اقدار اور روایات کی پاسبانی ہے۔ جب دو افراد نکاح کے ذریعے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں، تو وہ دراصل اسلامی تعلیمات اور روایات کی پاسداری کا بھی عہد کرتے ہیں۔ نکاح کے ذریعے نسلِ انسانی کا تسلسل جاری رہتا ہے اور نئی نسل کی تربیت اسلامی اصولوں کے تحت کی جاتی ہے۔ اس طرح، اسلامی اقدار اور روایات کا فروغ اور ان کی حفاظت ممکن ہوتی ہے۔ خاندان، بچوں کی اخلاقی تربیت اور اسلامی طرز زندگی کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

بے تحاشہ آزادی:

جدید دور میں آزادی کے نام پر ایسے تصورات فروغ پا رہے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہیں۔ اسلام میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی حدود و قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے ہوتی ہے۔ بے تحاشہ آزادی، جس کا مطلب ہر قسم کی ذمہ داری اور ضابطے سے آزاد ہونا ہے، افراد کو معاشرتی اور اخلاقی ضابطوں سے بغاوت پر اکساتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتا ہے، اور رشتوں کی مقدس حیثیت پامال ہو جاتی ہے۔ افراد اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے خواہاں ہوتے ہیں، جس سے خاندانی نظام کمزور ہوتا ہے اور اسلامی اقدار متاثر ہوتی ہیں۔ اسلام عورتوں کو جو آزادی اور عزت فراہم کرتا ہے، اس سے بڑھ کر کوئی اور مذہب نہیں دے سکتا۔ آج کل جس آزادی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہ بظاہر دلکش اور پرکشش لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک نئی قسم کی غلامی ہے۔ اس نام نہاد آزادی میں عورت کو اس کے حقیقی مقام اور فطری عظمت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نسوانیت اکثر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے کہ یہ آزادی نہیں، بلکہ ایک نئی ذلت آمیز غلامی ہے جو صرف خوبصورت الفاظ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو عورت کو حقیقی احترام، حقوق اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق اور آزادی دی ہیں، وہ واقعی ایک جامع نظام کا حصہ ہیں، جس میں خواتین کو عزت، وقار، اور حقوق ملتے ہیں۔ عورتوں کو وراثت، تعلیم، کاروبار، اور اپنے فیصلے کرنے کا حق دیا گیا ہے، جبکہ ساتھ ہی ان کے عزت و وقار کی حفاظت کی گئی ہے۔ جس آزادی کو خواتین کے لیے ترقی اور حقوق کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، وہ بعض اوقات ان کی فطری عظمت اور احترام کو کمزور کر دیتی ہے، اور بعض صورتوں میں انہیں استحصال کا شکار بناتی ہے۔ اس لئے اسلام کے نظام کو درست انداز میں سمجھنا ضروری ہے تاکہ خواتین کو صحیح معنوں میں وہ مقام مل سکے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے متعین کیا ہے۔

مخلوط نظام تعلیم:

مخلوط نظام تعلیم، جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان حیا اور پردہ کو اہمیت دی گئی ہے، اور یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں صنفیں اپنی حدود میں رہ کر زندگی گزاریں۔ مخلوط تعلیم کے باعث نوجوان نسل میں اخلاقی بے راہ روی، بے پردگی اور حیا کی کمی پیدا ہوتی ہے اور اکثر طلباء اور طالبات کے درمیان غیر ضروری تعلقات پروان چڑھتے ہیں، جو بے حیائی کا باعث بنتے ہیں جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ اس نظام تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل مغربی افکار و نظریات سے متاثر ہو کر اسلامی اصولوں سے دور ہو رہی ہے۔

تعلیمی ادارے، چاہے وہ اسکول ہوں، کالج ہوں یا یونیورسٹیاں، ہمیشہ سے علم و تربیت کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ ان اداروں کا بنیادی مقصد طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا، انہیں اخلاقی و معاشرتی اصولوں کی تعلیم دینا، اور انہیں معاشرت کا ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں یہ ادارے، جو کبھی اصلاح و تربیت کے مراکز سمجھے جاتے تھے، بعض جگہوں پر بے حیائی کے مراکز بنتے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے نہ صرف والدین اور اساتذہ کو پریشان کیا ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

مغربی تہذیب کا دبدبہ:

مغربی تہذیب کا دبدبہ اسلامی معاشروں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مغربی ثقافت کے فروغ نے مسلمانوں کی تہذیب اور روایات کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس تہذیب میں فردیت، آزادی، مادیت پرستی، اور اخلاقی زوال کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا، فلمیں، اور فیشن نے مسلمانوں کو اپنی اسلامی شناخت سے دور کر دیا ہے، اور ان میں مغربی طرز زندگی اپنانے کا رجحان بڑھا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرتی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور اسلامی اقدار کا تحفظ مشکل ہو گیا ہے۔

جہیز کی لعنت:

جہیز کی لعنت اسلامی معاشرت میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اسلام میں نکاح کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ہے، لیکن جہیز کے بڑھتے ہوئے مطالبات نے نکاح کو ایک بوجھ بنا دیا ہے۔ لڑکیوں کے والدین پر جہیز کی بھاری ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، جس کے باعث بہت سی لڑکیاں بغیر شادی کے عمر گزار دیتی ہیں۔ یہ لعنت معاشرتی بگاڑ اور بدامنی کا باعث بن رہی ہے، اور اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام نے جہیز کو ایک ظالمانہ رواج قرار دیا ہے، اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

شادی میں تاخیر:

اسلام میں شادی کو ایک مقدس فریضہ قرار دیا گیا ہے، جو فرد اور معاشرت دونوں کے لیے اہم ہے۔ تاہم، جدید دور میں تعلیم، کیریئر اور دیگر عوامل کی وجہ سے شادی کی صحیح عمر میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ اس تاخیر کے باعث نوجوان نسل میں بے راہ روی، زنا، اور دیگر اخلاقی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اسلام میں شادی کو آسان بنانے اور جلدی کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ معاشرہ بے حیائی اور فحاشی سے محفوظ رہے۔ اسلام میں شادی کی عمر کے حوالے سے کوئی خاص عدد یا عمر مقرر نہیں کی گئی ہے، کیونکہ مختلف معاشرتی، جسمانی، اور نفسیاتی عوامل کی بنا پر لوگوں کے حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، شادی کی عمر اس وقت ہوتی ہے جب ایک فرد جسمانی، ذہنی اور معاشرتی طور پر شادی کے لیے تیار ہو جائے۔ شریعت میں لڑکیوں اور لڑکوں کی بلوغت کو شادی کے لئے اہم معیار سمجھا جاتا ہے، یعنی جب وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اس مقام پر پہنچ جائیں کہ وہ ازدواجی زندگی کے تقاضے پورے کر سکیں، تو ان کی شادی کی جا سکتی ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ شادی کے فیصلے میں فرد کی رضا مندی، بالغ ہونا اور اس کی بہتر زندگی کے لئے مناسب وقت ہونا ضروری ہے۔

 ایک شادی پر اکتفا:

اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے، یعنی مرد کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ انصاف قائم رکھ سکے۔ تاہم، موجودہ دور میں اکثر مسلمان ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں، جس کے باعث بعض حالات میں معاشرتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تعدد ازدواج کا مقصد بیواؤں، یتیموں، اور دوسری مظلوم خواتین کی کفالت ہے، اور اس کا صحیح اطلاق اسلامی معاشرت میں کئی مسائل کا حل فراہم کر سکتا ہے۔

بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کے مسائل کو نظرانداز کرنا:

بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین معاشرتی دباؤ اور تنقید کا شکار ہوتی ہیں، جنہیں اکثر اسلامی معاشرت میں بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان خواتین کی دوسری شادی کے امکانات کم ہوتے ہیں، اور انہیں معاشرتی حمایت بھی محدود حد تک ملتی ہے۔ بعض اوقات، ایسی خواتین اپنی سماجی حیثیت بہتر کرنے اور تنہائی سے نجات پانے کے لیے دوسرے مذہب کی طرف مائل ہو جاتی ہیں، جہاں انہیں زیادہ قبولیت اور محبت مل سکتی ہے۔ دیگر مذاہب اور معاشرتیں ان خواتین کی حالت زار کو سمجھتے ہوئے ان کی مدد کرتی ہیں، جو انہیں متاثر کر سکتی ہے۔

مشکل حالات میں امداد کا فقدان:

بہت سی لڑکیاں اور خواتین جب مشکل معاشی، سماجی یا ذاتی حالات سے گزرتی ہیں، جیسے غربت، بے روزگاری، یا خاندانی مسائل، تو انہیں اپنے ارد گرد سے مناسب مدد نہیں ملتی۔ اسلامی معاشروں میں بعض اوقات خواتین کو اپنے مسائل کے حل کے لیے خاطر خواہ تعاون یا رہنمائی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے وہ مایوسی اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں جب انہیں کسی دوسرے مذہب یا فرقے سے فوری امداد، ہمدردی اور جذباتی سہارا ملتا ہے، تو وہ متاثر ہو سکتی ہیں اور اپنا مذہب چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ امداد نہ ملنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوتا ہے، جو ان کے ارتداد کا سبب بن سکتا ہے۔

 سازش اور فتنے:

اسلام دشمن عناصر ہمیشہ سے اسلامی معاشرت کو کمزور کرنے کی سازشیں کرتے رہے ہیں، اور اس کے لیے مختلف طریقے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی تشویشناک اور خطرناک سازش مسلم لڑکیوں کو برباد کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے۔ یہ سازشیں مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہیں، جن کا مقصد اسلامی تہذیب، ثقافت، اور معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان تنظیموں کی جانب سے مسلم معاشرت کو کمزور کرنے اور مسلمانوں کے مذہبی و اخلاقی اصولوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف سازشیں کی جاری ہیں۔ ان میں ایک سازش تعلیمی اداروں میں بے حیائی اور غیر اسلامی رجحانات کا فروغ بھی شامل ہے۔ یہ تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرنے کے لیے ثقافتی اور تہذیبی جنگ کے حربے استعمال کرتی ہیں۔ میڈیا، فلموں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی طرز زندگی کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی اور پرانی روایات کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ مسلم لڑکیوں کو مغربی فیشن، آزادی، اور لبرل ازم کی طرف راغب کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں اپنے دین اور ثقافت سے دور کرنا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار نہ صرف ان کی اسلامی شناخت کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ انہیں اخلاقی زوال کی طرف بھی لے جاتی ہے۔

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال:

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرنے کی ایک منظم سازش ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پر فحاشی، بے راہ روی، اور غیر اخلاقی مواد کی بھرمار کی جاتی ہے، جو نوجوان لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غیر محرم افراد کے ساتھ غیر ضروری تعلقات، دوستی، اور عشق و محبت کے تصورات کو عام کیا جاتا ہے، جس سے مسلم لڑکیوں کی اخلاقی تباہی ہوتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز دراصل ان عناصر کا ہتھیار بن چکے ہیں جو اسلامی معاشرت کو بگاڑنے کے درپے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی مخالفت:

مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرنے کی ایک اور سازش اسلامی تعلیمات کی مخالفت ہے۔ اس سازش کے تحت انہیں حجاب، پردہ، اور دینی تعلیمات کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ مختلف NGOs اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلم خواتین کو حقوقِ نسواں کے نام پر دین سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اسلامی قوانین ان کی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں اور انہیں معاشرتی ترقی سے روکتے ہیں۔ اس طرح کی تحریکات مسلم لڑکیوں کو دین کے بنیادی اصولوں سے دور کرکے ان کی اخلاقی اور معاشرتی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔

نوجوان لڑکیوں کو نشانہ بنانے کے منظم پروگرام:

کچھ اسلام دشمن تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو براہِ راست نشانہ بنانے کے لیے منظم پروگرام ترتیب دیتی ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعے انہیں مالی مدد، تعلیمی وظائف، اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ وہ ان تنظیموں کے قریب آئیں اور ان کے نظریات سے متاثر ہوں۔ اس طرح کی تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو اپنے دائرہ اثر میں لا کر ان کا دین اور ثقافت بدلنے کی کوشش کرتی ہیں، جو کہ ایک انتہائی خطرناک سازش ہے۔

اسلامی معاشرت کو کمزور کرنے کی کوشش:

ان سازشوں کا اصل مقصد مسلم معاشرت کو کمزور کرنا ہے۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد خاندان پر ہے، اور خاندان کو کمزور کرنے کے لیے مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب مسلم لڑکیاں دین سے دور ہو جائیں، تو وہ اپنی اولاد کی تربیت بھی اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں کر پاتیں، جس سے آنے والی نسلیں بھی دین سے دور ہو جاتی ہیں۔ اس طرح یہ سازشیں دراصل پورے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کوشش ہیں۔

معاشرتی بدنامی اور بلیک میلنگ:

کچھ تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے انہیں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث کرتی ہیں۔ یہ لڑکیاں جب ان سازشوں کا شکار ہو جاتی ہیں تو ان کی تصاویر، ویڈیوز، یا دیگر ذاتی معلومات کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ان کی عزت اور ناموس کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بلیک میلنگ نہ صرف انفرادی سطح پر تباہ کن ہوتی ہے بلکہ پورے خاندان اور معاشرت کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔

مذہبی تفریق اور اشتعال انگیزی:

آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے اور ان میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ تنظیم اکثر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور انہیں ایسے راستوں پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو مذہبی طور پر کمزور کرنا اور انہیں اپنے دین سے دور کرنا ہے۔

مسلم خواتین کو نشانہ بنانا:

آر ایس ایس کے زیر اثر مختلف تنظیمیں مسلم خواتین کو نشانہ بناتی ہیں، تاکہ انہیں حجاب اور پردے سے دور کیا جا سکے اور انہیں لبرل اور سیکولر نظریات کی طرف مائل کیا جا سکے۔ اس سازش کا مقصد مسلم معاشرت کو اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے، کیونکہ اسلامی معاشرت میں خواتین کی اہمیت اور کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

لباس اور فیشن کے رجحانات:

اسکول، کالج، اور یونیورسٹیوں میں پھیلتی بے حیائی کا ایک اور پہلو لباس اور فیشن کے غیر اسلامی رجحانات ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مغربی طرز کے فیشن اور بے پردگی کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مردوں اور عورتوں دونوں کو حیاء اور پردے کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، لیکن موجودہ دور میں اس پر عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔ نامناسب لباس، فیشن کے نام پر بے پردگی، اور بے حیائی کے مظاہر تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں اور طلباء کو غیر اخلاقی رویوں کی طرف مائل کر رہے ہیں۔

غیر اخلاقی سرگرمیاں اور تقریبات:

بعض تعلیمی اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں اور تقریبات کا انعقاد بھی بے حیائی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سالانہ فیسٹیولز، ڈانس پارٹیز، اور دیگر تقریبات میں طلباء اور طالبات کو غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث کیا جاتا ہے، جو ان کی اخلاقی تربیت کے بالکل برخلاف ہے۔ ایسی تقریبات میں نہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ طلباء کی توجہ تعلیم سے ہٹ کر غیر اخلاقی سرگرمیوں کی طرف ہو جاتی ہے۔

اساتذہ اور والدین کی غفلت:

اساتذہ اور والدین کی غفلت بھی تعلیمی اداروں میں پھیلتی بے حیائی کا ایک اہم سبب ہے۔ اساتذہ اور والدین کو چاہئے کہ وہ طلباء کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں، لیکن بعض اوقات یہ ذمہ داری پوری طرح نہیں نبھائی جاتی۔ والدین اپنے بچوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھتے، جبکہ اساتذہ تعلیمی اداروں میں طلباء کے رویوں کو درست کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ غفلت نوجوان نسل کو بے حیائی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔

مذہبی تعلیمات سے دوری:

تعلیمی اداروں میں پھیلتی بے حیائی کا ایک اور اہم سبب مذہبی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، اور اسلامی تعلیمات میں پردے، حیا اور اخلاقی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن جب طلباء کو ان تعلیمات سے دور رکھا جاتا ہے یا انہیں صحیح طور پر اسلامی اصولوں سے روشناس نہیں کرایا جاتا، تو وہ آسانی سے بے حیائی اور غیر اخلاقی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلباء کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں غیر اخلاقی مواد سے بچنے کی ترغیب دیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال پر مناسب پابندیاں لگائی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی لباس اور پردے کے اصولوں کو فروغ دیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ طلباء مناسب لباس پہنیں اور فیشن کے نام پر بے پردگی اور بے حیائی کو فروغ نہ دیا جائے۔

عورتوں کا اپنی تعریف پر خوش ہونا:

نفسیاتی طور پر بعض خواتین خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوتی ہیں اور اپنی حیثیت اور کردار کے بارے میں حساس ہوتی ہیں۔ ایسی خواتین جو تعریف اور محبت کی خواہاں ہوتی ہیں، بعض اوقات دوسروں کی جھوٹی تعریف اور محبت کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ یہ جھوٹی تعریفیں انہیں ایک ایسا احساس دلاتی ہیں کہ وہ کسی نئی جگہ، نئے لوگوں کے درمیان زیادہ قابل قدر ہیں۔ اس صورتحال میں، وہ اپنی موجودہ مذہبی یا ثقافتی شناخت کو ترک کرکے اس نئے گروہ یا مذہب کی طرف مائل ہو سکتی ہیں، جہاں انہیں زیادہ قبولیت اور توجہ مل رہی ہو۔

اگر درج ذیل چند باتوں پر توجہ دی جائے تو بہت حد تک اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کا خاتمہ، مضبوط اسلامی تعلیمات کا فروغ، والدین اور اساتذہ کی تربیت، بیداری، سوشل میڈیا کی نگرانی اور تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول۔ ان اقدامات کے ذریعہ مسلم معاشرت کو موجودہ فتنوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اور نوجوان نسل کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی، نفسیاتی اور مذہبی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی لڑکیوں کو بہتر مدد، رہنمائی اور سپورٹ فراہم کی جا سکے۔

رابطہ : 9431664474

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com