مفتی حمدثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیشہ)
سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ، ہندوستان کے انمول رتن تھے، ان سے بونے قد کے لیڈران کو بھارت رتن دے دیا گیا، لیکن ہندوستان کے عظیم سیاسی قائد، معاشی انقلاب کے بانی، عالمی مالیاتی کرائسس سے ہندوستان کو نکالنے والے، بے مثال ماہر معاشیات، اقلیتوں کے ہمدرد، اردو کے شیدائی،مختلف مہہ وسال میں معاشی مشیرکار، رکن پلاننگ کمیشن، ڈپٹی چیرمین پلاننگ کمیشن، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیرمین، نرسمہاراؤ کی وزارت میں وزیر مالیات، راجیہ سبھا میں حزب مخالف کے لیڈر، رزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کو بھارت رتن اب تک نہیں دیا جاسکا، وہ ہندوستان کے ایسے وزیر اعظم تھے جو خاموشی کو اپنی طاقت سمجھتے تھے، وہ سکھ مذہب کے پہلے رہنما تھے، جنہیں وقت اور حالات نے وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچا دیاتھا، 2004ء میں جب کانگریس نے پارلیامنٹ میں اکثریت حاصل کی اور سونیا گاندھی کو پارٹی صدر کی حیثیت سے وزیر اعظم کے لیے پارٹی نے منتخب کیا، تو میڈیا نے انہیں غیر ملکی قرار دیا، مختلف پارٹیوں نے اس حوالہ سے لعن طعن کیا، راہل گاندھی ابھی سیاست میں داخل ہی ہوئے تھے، اس لیے اتنے بڑے ملک کو سنبھالنا ان کے لیے ناممکن تھا، کانگریس کے بڑے لیڈران میں شرد پوار، طارق انور اور سنگما نے پارٹی سے الگ ہوکر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (NCP) کے نام سے الگ پارٹی بنالی تھی، ملکی سیاست میں بھونچال آیا ہوا تھا، ایسے میں سونیا گاندھی نے اپنی ساس اندرا گاندھی اور اپنے شوہر راجیو گاندھی سے جو سیاسی شعور حاصل کیا تھا، اس کی روشنی میں اپنی عہدیداری واپس لے کر من موہن سنگھ کا نام وزیر اعظم کے لیے پیش کیا، یہ ایک حیرت ناک اور پورے ملک کو چونکا دینے والا قدم تھا، اس اعلان سے مخالف پارٹیوں کی ساری مخالفت اور میڈیا کے ذریعہ پھیلائی گئی تمام شرانگیزیوں پر لگام لگا، سیاسی پارٹیاں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی اس عظیم شخصیت کی مخالفت کرکے اپنا اقلیتی ووٹ کھونا نہیں چاہتی تھیں، اس لیے مخالفت کے سُر کی ساری آواز دب کر رہ گئی، 2009ء کے انتخاب میں پارٹی نے پھر سے کامیابی حاصل کی اور کانگریس نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو پھر سے وزیر اعظم بنایا وہ2014ء تک اس عہدے پر قائم رہے، 2014ء کے انتخاب میں کانگریس کی شکست کے ساتھ ہی بی جے پی کا سورج طلوع ہوا اور نریندر مودی کی مقدر کا ستارہ چمکا، اس کے بعد بھی من موہن سنگھ نے راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے سیاست کی وادیوں میں اپنا وجود منوائے رکھا۔اپریل 2024ء میں انہوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت کی میعاد کے اختتام پر سرگرم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی، علالت کی وجہ کر وہ عوامی پروگرام میں بھی جانے سے اجتناب کرنے لگے، اپنی بیٹی کی کتاب کے اجراء کے موقع سے جنوری2024ء میں آخری عوامی تقریب میں دیکھے گئے۔ پھر اس کے بعد کہنا چاہیے کہ عرفی نہیں حقیقی معنوں میں چراغوں میں روشنی نہیں رہی، ان کے انتقال پر بھارت اور بہار کی ریاستی حکومت نے سات سات دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے، سرکاری عمارتوں پر جھنڈے آدھے جھکادیے گیے ہیں، حکومت اور کانگریس پارٹی نے تمام تقریبات کو اس درمیان منسوخ یا ملتوی کر دیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑتے وقت پریس کانفرنس کیا اور اپنی حصولیابیاں گنائیں، وہ نریندر مودی کی طرح ہرماہ ”من کی بات“ کرنے والے آدمی نہیں تھے، وہ زیادہ سنتے اور کم بولتے تھے، انہوں نے دس سال کی اپنی مدت میں صرف تین یا چار بار ہی پریس کانفرنس کیا، ان کے پورے دور اقتدار میں بی جے پی اور میڈیا والے ان کے کام کاج کے طریقوں پر انگشت نمائی کرتے رہے اور وہ خاموشی سے سب کی سنتے رہے، میڈیا والے انہیں بااختیار وزیر اعظم بھی نہیں مانتے تھے، ان کے نزدیک ان کا ریموڈ کنٹرول سونیا گاندھی کے پاس ہوا کرتا تھا، اگر واقعتاً ایسا تھا تو بھی من موہن سنگھ کے تحمل اور برداشت کی داد دینی ہوگی، ایک باوقار ملک کے وزیر اعظم نے دس سال کس طرح سونیا گاندھی کے ساتھ گذاردیے ، یہ ایک عجوبہ اور حیرت کی بات ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ اسی بہار میں جب جیتن رام مانجھی کو نتیش کمار نے وزیر اعلیٰ بنادیا اور ریموڈ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا تو چھ ماہ میں ہی حکومت کو عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور مانجھی حکومت کا استعفیٰ اسمبلی میں تحریک پر بغیر ووٹنگ کے ہوگیا، من موہن سنگھ نے پورے وقار کے ساتھ حکومت چلایا اور پارٹی کے عہدیداروں کو مطمئن رکھا، یہ اپنے میں بڑی بات ہے، ان کے نزدیک پارٹی حکومت سے اوپر کی چیز تھی، کیوں کہ حکومت شخص واحد کی نہیں، پارٹی کی ہوتی ہے، اس لیے پارٹی کا قد حکومت سے بڑا ہوتا ہے۔
من موہن سنگھ ضلع چکوال پاکستان واقع ”گاہ“ گاؤں میں 1932ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں کے اسکول میں پائی، آزادی کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے ہندوستان آگیا، انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی، پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کیا، کیمبریج یونیورسٹی میں معاشیات کا تین سالہ کورس مکمل کیا، آکسفورڈ یونیورسٹی کے نیو فیلڈ کالج سے معاشیات ہی میں ڈی فل کیا، مختلف تاریخوں میں وہ ان عہدوں پر رہے، جن کو ایک ساتھ شروع میں ذکر کیا گیا ہے، بالآخر برانوے (92)سال کی عمر میں 27/دسمبر کو رات میں ایمس میں آخری سانس لی، ملک اور بیرون ملک کے سبھی نامور قائدین نے ان کے انتقال کو ملک کا بڑا نقصان بتایا، وہ میڈیا جو کبھی من موہن سنگھ کی توہین کرتے نہیں تھکتا تھا، پل پل کی خبریں اور ان کے دور کے کارناموں کو تفصیل سے بیان کر رہا تھا، مجھے ان کی آخری پریس کانفرنس کے وہ جملے یاد آرہے تھے کہ”تاریخ میرے کاموں کا عصری میڈیا اور حزب مخالف سے زیادہ صحیح تجزیہ کرکے مقام متعین کرے گی اور وہ مجھ پر زیادہ مہربان ہوگی“، ان کا یہ جملہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ”میں نہیں مانتا کہ میں ایک کمزور وزیر اعظم رہا ہوں، سیاسی مجبوریوں کے درمیان میں نے اپنی بہترین کوشش کی ہے، حالات کے مطابق میں جتنا کرسکتا تھا، اتنا کیا ہے، یہ تاریخ طے کرے گی کہ میں نے کیا کیا ہے یا نہیں کیا ہے“ اور واقعتاً ایسا ہوگیا۔
ان کی آخری رسومات دہلی کے بدھ نگر نگم گھاٹ پرہوئی، بی جے پی حکومت انہیں دوسرے وزراء اعظم کی طرح الگ سے وسیع آراضی فوری طور پرنہیں فراہم کراسکی، جس پر ان کی یاد گار بھی قائم کی جا سکتی، کانگریس کے مطالبہ کے بعد بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی، البتہ آخری رسوم پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی، جس میں صدر جہوریہ دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے وزراء، من موہن سنگھ کے خاندان کے افراداور کانگریس پارٹی کی پوری قیادت موجود تھی، منہہ میں آگ دینے کا کام ان کی تین بیٹیوں میں سے بڑی نے انجام دیا، ان کو کوئی لڑکا نہیں تھا، اہلیہ اب بھی زندہ ہیں۔انہوں نے اپنی لڑکیوں کو سیاست کی خار زار وادیوں میں گھسیٹنا بہتر نہیں سمجھا، وہ چاہتے تو ”پدرم سلطان بود“ کے فارمولے پر اپنی تینوں لڑکیوں کو سیاست میں کامیابی کی اونچی منزل تک لے جا سکتے تھے، لیکن انہوں نے دوسرے سیاسی لیڈران کی طرح خاندانی سیاست سے لڑکیوں کو دور رکھا، چنانچہ ان کی تینوں لڑکیاں تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں اور معاش کے لیے سیاست کے بجائے دوسر امشغلہ چنا، اس میں آج کل ان قائدین کے لیے عبرت ونصیحت ہے، جن کے خاندانی خدمات کی دُہائی دے کر اعلیٰ کرسی اور اونچے مناصب پر فائز کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
اردو زبان سے ان کو خاص تعلق تھا، وہ اردو اور انگریزی میں تقریر کرنا پسند کرتے تھے، جو تقریر ہندی میں وہ کرتے تھے اس کا رسم الخط بھی اردو ہی ہوا کرتا تھا، پارلیامنٹ میں جب شسما سوراج اردو کا کوئی شعر پڑھ کر حکومت پر طنز کستیں تو وزیر اعظم من موہن سنگھ اردو شعر سے ہی اس کا جواب دیا کرتے تھے اور محفل قہقہہ زار ہوجاتی تھی۔
من موہن سنگھ نے اقلیتوں کے حقیقی احوال جاننے کے لیے اپنی حکومت کے شروع میں ہی مارچ 2005ء میں دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سنگھ سچر کی سر براہی میں سچر کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا ملک میں بہت چرچا رہا، 2006ء میں اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ دی اور حکومت کو بتایا کہ مسلمانوں کی حالت ہریجنوں، دلتوں، آدی باسی، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے بھی بد تر ہے، من موہن سنگھ نے اپنے دور اقتدار میں کئی انقلابی قوانین پاس کرانے میں کامیابی حاصل کی اور کئی نئی پروجکٹ اور اسکیموں کا آغاز کیا، منریگا، صحت وتعلیم اور معلومات کا حق (RTI)، نیشنل فوڈ سیکوریٹی ایکٹ وغیرہ جیسے قوانین انہیں کے دور کی یاد گار ہیں، راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی سفارشات پر وہ اپنے دور اقتدار میں کام نہیں کر سکے اور اس کا صرف جزوی نفاذ ہی ہو سکا۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران سے ہندوستان کو بچانے کے لیے ان کے انقلابی اقدام آج بھی لوگوں کو یاد ہیں، حصول آراضی ایکٹ، سول نیو کلیائی معاہدہ، زرعی قرضوں سے معافی اور قرض سے نجات کی اسکیم، ترانویں آئینی ترمیم کے ذریعہ آرٹیکل15(5)کے ذریعہ درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل، او بی سی کے لیے سماجی انصاف کا فروغ، جامع ترقی، بین الاقوامی سفارت کاری، اقتصادی جدید کاری، جی ڈی پی کی شرح نمو میں غیر معمولی اضافہ کے لیے ان کا دور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ کی زندگی خاموشی کے ساتھ ان کی سادگی، اصول پسندی ایمان داری اور سماجی خدمت سے عبارت تھی، انہوں نے طاقت کے حصول کے بجائے عوامی خدمات کو اہمیت دی اور اس طرح سیاست میں ایک منفرد مقام پیدا کیا، ان کا کردار نئی نسل اور سیاست دانوں کے لئے خصوصا مینارہ نور ہے۔
ہندوستان نے گو ان کو زندگی میں بھارت رتن نہیں دیا، لیکن ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں پدم وبھوشن(1987)، آدم اسمتھ ایوارڈ(1956)اور فائنانس منسٹر آف دی ایر ایوارڈ دیا گیا، وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں مختصر مگر جامع تقریر اور مذاکرات مں اپنی خاص پہچان رکھتے تھے۔
سیاست میں آج ان کے نقش قدم پر چلنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ بد عنوان، بے ایمان، بے اصول حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بے راہ روی کو لگام دیا جا سکے، اب جبکہ ان کی یاد گار قائم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے تین آراضی کی پیش کش ہوئی ہے، کانگریس پارٹی اور ان کے خاندان کے افراد کو تینوں آراضی میں انتخاب کا حق دیا ہے، اس کام کے لیے الگ ٹرسٹ بنانے کی تجویز بھی حکومت کے زیر غور ہے، توقع کی جاتی ہے کہ من موہن سنگھ کی یادوں کو دیر تک سجونے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا کام دیر پا اور دور رس ہوگا۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں