از: محمد برہان الدین قاسمی
ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی
اب یہ بات تقریباً واضح ہو چکی ہے کہ آج 28 رمضان المبارک بمطابق 29 مارچ 2025 کو امارت شرعیہ کے صدر دفتر پٹنہ میں پیش آنے والا واقعہ کوئی نیا تنازعہ نہیں، بلکہ ایک پرانے اختلاف کا تسلسل ہے۔ یہ تنازعہ موجودہ امیر شریعت کے انتخاب کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے۔ ذرائع سے پتہ چلا کہ معاملہ اس وقت اور بھی گھمبیر ہوا جب ابھی رمضان کے دوران “امیر صاحب” نے اپنے مخالفین میں سے ایک اور اہم شخص کو برطرف کر دیا، جس سے پہلے سے سلگتے ہوئے اختلافات نے آگ کی شکل اختیار کر لی۔
اس بار مخالف گروپ بہار پولیس کی مدد حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور آج امارت شرعیہ کے صدر دفتر، پٹنہ میں داخل ہو کر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ صورتحال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہر حال تشویش ناک اور قابل افسوس ہے۔ امارت شرعیہ کو چاہیے کہ اپنے اندرونی اختلافات کو خود ہی حل کرے، اور اس میں پرانے اور تجربہ کار لوگوں کو شامل کرے۔ جیسا کہ معلوم ہوا بغیر کسی عدالتی حکم کے پولیس کے ساتھ حریف گروپ، ادارے کے صدر دفتر میں داخل ہوا، یہ ایک خطرناک رویہ ہے اور ادارے کے لیے بہت نقصان دہ بات ہے۔
مخالف گروپ میں بھی معتبر علماء اور امارت کے ہی ذمہ داران شامل ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اپنے موقف کو منوانے کے لیے طاقت یا پولیس کا بے جا استعمال درست نہیں۔ آج جو حکومت ان کی حمایت کر رہی ہے، کل مخالفت بھی کر سکتی ہے، اور اس کا نقصان بہار کے غریب مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
ادارے سے پرانے اور وفادار کارکنوں کو “یکطرفہ” طور پر نکال دینا بھی ایک قابلِ غور عمل ہے۔ کسی ایک گروپ کی حمایت یا مخالفت میں عوام کو اندھی تقلید کی دعوت دینا نہ تو صحافتی اخلاقیات کے مطابق ہے اور نہ ہی ملت کے مفاد میں۔ تجزیہ نگاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوں۔
دونوں فریقوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ ادارے قوم کی امانت ہیں، کسی کی جاگیر نہیں۔ آپ ان کے مالک نہیں، بلکہ امین ہیں۔ قوم چاہتی ہے کہ یہ ادارے ترقی کریں، نہ کہ ذاتی اقتدار کی جنگ کا میدان بنیں۔ جو کوئی بھی ان اداروں کو نقصان پہنچائے گا، وہ پوری مسلم قوم کا مجرم ہوگا، اور اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہوگا۔
امارت شرعیہ کے اندرونی اختلافات کو مسلم پرسنل لا بورڈ، وقف ترمیمی بل کی مخالفت یا کسی مخصوص سیاسی جماعت سے جوڑنا بھی درست نہیں۔ امارت شرعیہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک رکن ہے، اور وقف بل کی مخالفت ایک مشترکہ تحریک ہے جس میں جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند اور دیگر تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جو لوگ آج پولیس کے ساتھ امارت کے دفتر میں داخل ہوئے، وہ بھی اسی تحریک کا حصہ ہیں۔ لہٰذا موجودہ “امیر شریعت صاحب” کا اس واقعے کو وقف بل کی مخالفت سے جوڑنا حقیقت پسندانہ نہیں لگتا۔ ہر اندرونی تنازعہ میں بیرونی طاقتوں کا شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے اور ہمیشہ بیرونی طاقتوں کو الزام دینا اصل مسئلہ سے روگردانی کا سبب بھی ہوتا ہے.
امارت شرعیہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک عظیم ادارہ ہے، جس میں قوم کے وسائل اور بزرگوں کی محنت شامل ہے۔ اس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔ اختلافات ختم ہونے چاہئیں، کیونکہ یہی قوم اور ادارے دونوں کے مفاد میں ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ واپس آجائیں، اتحاد قائم کریں، اور خلوص کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اتحادِ علماء میں اتحاد ملت شامل ہے. متحدہ ملک و ملت کی خدمت میں ہی ہم سب کی کامیابی ہے۔
————————–