کلیم عاجز نے اپنے طریقہ زندگی اور شعرو سخن کے ذریعہ ملک و ملت کی فکری آبیاری کی :نذرالحفیظ ندوی

النور سوشل کیئر فاؤنڈیشن لکھنؤکے زیر اہتمام کلیم عاجز شخصیت اور فن پر ایک روزہ سمینار کا اختتام


پٹنہ(ملت ٹائمز۔پریس ریلیز)
ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کی زندگی میں جوتڑپ ،درد،کڑھن اور خلش ہے وہ پیغمبروں والی صفت ہے ،انہون نے اپنے طریقہ زندگی اور شعرو سخن کے ذریعہ ملک و ملت کی فکری آبیاری کی ،وہ اپنے کلام اور طرز سخن کی وجہ سے کبھی بھلائے نہیں جائینگے ،ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر اور ندوۃالعلماء لکھنؤ کے شعبہ عربی کے صدر مولانا نذرالحفیظ ندوی نے کیا ۔آج پٹنہ کے مقامی اردو اکیڈمی میں النور سوشل کیئر فاؤنڈیشن لکھنؤ کے زیر اہتما م اور اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے یک روزہ سیمینار بعنوان’’ کلیم احمد عاجز شخصیت اور فن‘‘ کی صدارت کررہے تھے،انہوں نے کہا کہ کلیم عاجز کی شاعری میں جو دردو غم اور سوز و گداز پایا جاتا ہے وہ کہیں دوسری جگہ نہیں ملتا ۔مولانا شاہ تقی الدین فردوسی ندوی نے کلیم عاجز سے اپنے خاندانی مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنے عظیم شاعر تھے اتنے ہی عظیم انسان بھی تھے ،انہوں نے کہا کہ منیر شریف وہ متعدد بار تشریف لائے اور یہاں کی علمی وراثت ، قدیم عمارت اور اس کے جلا ل و جمال کی منظر کشی اپنے اشعار کے ذریعہ نہایت فنی لطافت اور پاکیز گی کے ساتھ کی ہے ۔وہ نظم ونثر دونوں پر اظہار خیال کی یکساں قدرت رکھتے تھے ۔وہ مجھ سے حد درجہ محبت کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب انکا حجاز کا سفر ہوتا تو وہ مجھے ضرور خدمت کا موقع دیتے ۔اس سے قبل النور سوشل کیئر فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا کے کلیم احمد عاجز ایک عظیم اور باکمال شخصیت کے مالک تھے زبان و ادب کے لحاظ سے جہاں ان کا پایہ بہت بلند تھا وہیں دینی ذوق ،دعوتی سرگرمیوں اور مسلمانوں کی ہمدردی و بہی خواہی میں اپنی مثال آپ تھی ،انہوں نے سمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد کلیم عاجز کی شخصیت اور خدمات کو سامنے لائے ہے اور ادب اسلامی کے تعلق سے ان کے افکار و خیالات اور انسانی ہمدردی سے متعلق ان کے احساسات و جذبات سے روشناس کرانا ہے ۔اس موقع پر امتیاز احمد کریمی ڈائریکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کے کلیم عاجز آسمان شعروسخن کے ماہتاب تھے ،وہ شعلہ کو پھول میں لپیٹ کر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے ۔ان کے کلام میں میر کا اندازضرور پایا جاتا ہے لیکن میر کی پیروی نہیں ہے ۔مشتاق احمد نوری سکریٹری بہار اردو اکیڈمی پٹنہ نے کہا کہ کلیم عاجز ایک بیباک اور صداقت پسند شاعر تھے ۔انکی شاعری اور زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا، انکی شاعری زندگی تھی اور زندگی شاعری ،کلیم کی شخصیت نہ صرف بہار بلکہ پوری اردوادبی دنیا میں مسلم ہے ۔ڈاکٹر کلیم عاجز کے فرزند اور ماہر امراض قلب ڈاکٹر وسیم احمد صاحب نے اس موقع پر اپنے والد صاحب کی گھریلوی اور خاندانی زندگی پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ۔اور کہا کہ وہ جتنے بلندشاعرتھے اتنے ہی بلند کردار کے حامل انسان بھی تھے ،ان کے ہم عصر ناقدین کوجتنی توجہ کلیم پر دینی چاہیئے تھی وہ نہیں دی ۔کلیم جیسے شاعر اردو ادب میں خال خال نظر آتے ہیں ۔افتتاحی سیشن کے بعد مقالے کا سیشن شروع ہوا جسمیں تقریباً ایک درجن مقالے پڑھے گئے اور کلیم عاجز کی شخصیت اور فکرو فن کے حوالے سے مختلف جہتوں سے روشنی ڈالی گئی ۔اور انکے طرز و اسلوب اور فکری وفنی جہات کے حوالے سے مختلف نکات بھی ابھر کر سامنے آئے ۔مقالا نگاروں میں :پروفیسر عابد حسین شعبہ فارسی پٹنہ یونیورسٹی ،مولانا عبدالباسط ندوی المعہد العالی امارت شرعیہ پٹنہ ،عطا عابدی ،ڈاکٹر شمیمہ کلیم ،مولانا مشہود احمد قادری ندوی،مولانا رضوان احمد ندوی ،ڈاکٹر سرور عالم ندوی ،مولانا ڈاکٹر شکیل قاسمی ،مولانا نورالسلام ندوی ،مولانا منور سلطان ندوی ،نجم الہدیٰ ثانی ،مولانا اعظم شرقی ندوی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ۔افتتاحی سیشن کی نظامت مولانا سرور عالم ندوی نے کی جبکہ تکنیکل سیشن کی نظامت نورالسلام ندوی نے انجام دی۔اس موقع پر سرزمین ململ مدھوبنی کے بزرگ شاعر مولانا عبد الحفیظ حافظؔ کے شعری مجموعہ’’ کشکول محبت ‘‘کا اجراء بھی عمل میں آیا ۔جسے انکے لائق فرزند مولانا نذرالحفیظ ندوی نے ترتیب دیا ہے ،جسے النور سوشل کیئر فاؤ نڈیشن نے شائع کرکے ململ والو ں کی طرف سے ایک قرض ادا کیا ہے۔اہل علم و اد ب نے اس کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کیا اور کتاب کی پذیرائی کی ۔