لڑکیوں کی تعلیم اور ہمارے معاشرے کی اصلاح

کلثوم فاطمہ نصیر
مشہور و معروف دانشور اور فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ ’’ مین از اے سوشل اینیمل ‘‘ یعنی انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ ارسطو نے انسان کی جو تعریف بیان کی ہے اس کی صداقت پہ کبھی آنچ نہیں آئی۔ ایک مہذب سماج یا معاشرہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ معاشرے کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، اپنے طور طریقے اور روایات ہوتی ہیں۔ہر مہذب معاشرے کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ان سماجی قوانین، روایات اور اصولوں کی پاسداری ایک سماجی فریضہ ہے۔ ان اصولوں کی پابندی نہ کرنے سے معاشرے میں انتشار اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ ہر معاشرے کے لئے قوانین ضروری ہیں۔ ورنہ بہ صورتِ دیگر معاشرے میں افرا تفری اور بکھراؤ نظر آئے گا۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس معاشرے میں تعلیم کی کمی ہو وہ معاشرہ پستی کی طرف چلا جاتا ہے۔ تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے اور تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔جب بھی ہم تعلیم یافتہ معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد یکساں طور پر خواتین اور مرد کی تعلیم سے ہوتی ہے۔ تعلیم سے ہی شعور بیدار ہوتا ہے جبکہ تعلیم کی کمی سے معاشرتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ ایک مرد کی تعلیم سے سماج میں ایک فرد تعلیم یافتہ ہوتا ہے جبکہ ایک خاتون کے تعلیم یافتہ ہونے سے ایک پورا خاندان تعلیم کی دولت سے مالامال ہوتا ہے۔ ماں کی گود بچے کا پہلا گہوارہ ہے۔ ماں کی گود ہی کسی بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔ اس لئے اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا۔ معروف فاتح نیپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ’’ مجھے اچھی مائیں دو میں آپ کو اچھی قوم دوں گا۔ ‘‘ یہاں لفظ ’’ اچھی مائیں ‘‘ سے مراد تعلیم یافتہ اور باشعور مائیں ہیں۔ ایک نیپولین بونا پارٹ ہی کیا دنیا کے تمام مفکرین اور ماہرین نے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ قرار دیا ہے۔ اس لئے کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک مہذب معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک کہ اس معاشرے کی عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں۔
حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسوانی کے تمام مطالبات کے باوجود اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اور خود ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو لیکر کسی حد تک ناانصافی ہوئی ہے۔ ماں سیتا، رادھا اور میرا بائی کے اس ملک میں مہاتما گاندھی کو اس بات کے لئے بہت محنت کرنا پڑی کی معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے۔ گاندھی جی جب جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تو ابتدائی دنوں میں انھوں نے جس بات پہ سب سے زیادہ زور دیا وہ لڑکیوں کی تعلیم پر تھا۔ اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سماج کے ایک طبقہ نے اس بات کی مخالفت کی۔ گاندھی جی نے پے در پے کئی مضامین لکھ کر ہمارے معاشرے کو آئینہ دکھایا۔ انھوں نے بہت صاف گوئی اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بنا ہمارا تعلیمی مشن پوری طرح ناکام ہے۔ گاندھی جی کے ایک بہت اہم سیاسی رفیقِ کار اور قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے گاندھی جی کے اس مشن میں انکا بھرپور ساتھ دیا۔ مولانا آزاد نے بھی اردو میں کئی مضامیں لکھے۔ اور شرعی قوانین کا حوالہ دیکر قوم کو احساس دلایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کس قدر ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے مشہور زمانہ اخبار ’’ الہلال ‘‘ میں کئی ایسے مضامین شائع کئے جن میں لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا گیا تھا۔
جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم اور اصلاحِ معاشرہ کا تعلق ہے ، تو اس کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ اصلاحِ معاشرہ سے کیا مراد ہے؟ یقیناًمعاشرے میں کچھ قوانین اور اصول و ضوابط رائج ہیں۔ جن کی پابندی ہی کسی معاشرے کو ایک دھاگے میں پروتی ہے۔ کبھی کبھی روایات کے نام پر کچھ ایسے اقدام بھی کئے جاتے ہیں جو انسانی زندگی کو مشکل بناتے ہیں۔ یہ روایات بھی اکثر تعلیم کی کمی کے سبب رائج ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً جس معاشرے میں خواتین کم تعلیم یافتہ ہوں وہاں فرسودہ رسومات و روایات کو پنپنے اور پھولنے پھلنے کا بھرپور موقعہ ملتا ہے۔ ان فرسودہ رسومات اور روایات سے معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔ معاشرہ رفتہ رفتہ زہر آلود ہونے لگتا ہے۔ کسی سرکاری حکم نامے سے ہم معاشرتی بیماری کا علاج نہیں کر سکتے۔ معاشرتی بیماری کا سب سے بہتر علاج تعلیم کے ذریعے ممکن ہے۔
دنیا میں مختلف نوعیت کے معاشرے موجود ہیں۔ ایک معاشرے کی قدریں دوسرے معاشرے کے لئے الجھن کا سبب بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن بنیادی بات ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت کا ہونا ہے۔ معاشرے کی بنیادی تعلیم میں یہ بات شامل ہے کہ ہم ایک دوسرے کو خوش دلی سے برداشت کریں۔ ورنہ معاشرہ ایک دوسرے سے جنگ پر آمادہ نظر آئے گا۔ معاشرے کے اجتماعی شعور میں قوتِ برداشت کی کمی آنے لگے تو اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی طرح عریانی، فحاشی اور تنگ نظری وغیرہ کا بھی کوئی یکساں قابلِ قبول پیمانہ نہیں ہے۔ جو لباس ایک معاشرے کے لئے قابلِ قبول ہے وہی دوسرے معاشرے کے لئے پریشانی کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر معاشرے کے افراد تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ ورنہ تعلیم جب ہمارے اندر قوتِ برداشت پیدا کر دیتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی روایات اور رسومات کا احترام سیکھ جاتے ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سماج میں ایک منفی سوچ کا وجود بہت پہلے سے موجود ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ آوازیں بھی سنائی دیتی رہی ہیں جن میں لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ بار بار آواز لگانے سے معاشرے کے اجتماعی شعور میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ ایک بہت انقلابی قدم ہے۔ اس کے مثبت نتائج برامد ہونگے۔ ہندوستانی معاشرے کے حوالے سے پنڈت مدن موہن مالویہ اور سر سید احمد خان کے کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرانے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں حضرات نے تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ان حضرات نے اس زمانے میں کام کیا جب معاشرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن سر سید احمد خان اور پنڈت مدن موہن مالویہ جیسے لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بغیر معاشرے کا اصلاح ممکن نہیں ہے۔ سر سید اور مالویہ جی کی کوششوں سے لیکر موجودہ حکومت کے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ تحریک تک ایک طویل سلسلہ رہا ہے۔ اب بھی ایسے کور نگاہوں کی کمی نہیں جو بذاتِ خود لڑکیوں کی تعلیم کو معاشرے کی ابتری کا سبب مانتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ محض انکی کور نگاہی ہے۔ حقیقت سے اس کا واسطہ نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کے ہندوستان میں ان آوازوں کا زور کم ہوا ہے۔ اور یہ خوش آیئند بات ہے۔ لیکن اب بھی ہمیں ایک طویل سفر طئے کرنا ہے۔ ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور بہت کچھ حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ معاشرہ اگر اپنی قدروں سے دور ہوا تو بہت خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ قدروں کی پاسداری کے لئے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی جواز پیدا کرتا ہے۔ اور تعلیم یافتہ معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک سو فیصد لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوں۔ اب بھی ہندوستان کے دور دراز کے علاقے ہماری توجہ کے طلبگار ہیں۔ حکومت نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ خود معاشرے کو آگے آنا ہے تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ زیادہ تر معاشرتی بیماریوں کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ اگر ہم معاشرتی بیماریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں تو تعلیم کو ہر فرد تک پہنچانا ہوگا۔ اور یہ بات بھی واضح رہے کہ تعلیم سے مراد محض حرف شناسی نہیں ہوتی ہے۔ حرف شناسی تو پہلی منزل ہے۔ ہمیں معیاری اور سودمند تعلیم کے لئے ایک موافق فضا تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ہماری کوششوں سے ایک نئی صورت ضرور پیدا ہوگی۔ حالات مایوس کن نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی فلاح کے لئے، معاشرے کی اصلاح کے لئے لڑکیوں کی تعلیم ناگزیر ہے۔ ہم ترقی کی راہ پر اسی وقت رفتار سے آگے بڑھ سکتے ہیں جب پورا معاشرہ ایک ساتھ ترقی کرے۔ پورا معاشرہ کا مطلب ہوتا ہے وہ معاشرہ جس میں خواتین کو تمام اختیارات حاصل ہوں۔ معاشرتی آداب و ادب کے ساتھ انکی انفرادی آزادی اور آزادی فکر کی حفاظت کی جائے۔ اسی وقت اصلاحِ معاشرہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔

★ گیسٹ لکچرر (انگریزی)
جے این یو، نئی دہلی، ۱۱۰۰۶۷