کلدیپ نیر برصغیر ہندوپاک کے نامور اورانتہائی سینئر صحافی ہیں ، 1947 میں انہوں نے دہلی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ’’انجام ‘‘ سے اپنی صحافت کا آغاز کیاتھا،آج چودہ زبانوں میں’’ڈیلی اسٹار ‘‘اور’’دی سنڈے گارجین‘‘ سمیت دنیا بھر کے 80 سے زائد اخبارات میں ان کے کالمز شائع ہوتے ہیں، صحافت کے ساتھ سیاست کا بھی وہ طویل تجربہ رکھتے ہیں ،اقوام متحدہ میں ہندوستان کے نمائندہ اور برطانیہ میں ہائی کمشنر آف انڈیا رہنے کے ساتھ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ،ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات بنانے کی انہو ں نے ہمیشہ کوشش کی اور اسی پر وہ اکثر لکھتے ہیں ،ہر سال 14/15 اگست کوامرتسر میں واقع ہندوپاک کے اٹارہ ۔واگھاباڈر پر جاکر شمع روشن کرتے ہیں ۔1923 میں سیالکوٹ ،پنجاب پاکستان میں ان کی پیدائش ہوئی وہیں انہوں نے وکالت تک کی تعلیم حاصل کی ،47 میں ہندوستان آگئے اور وکالت کرنے کے بجائے صحافت سے وابستہ ہوگئے ،پھر یہیں کی شہریت انہوں نے ہمیشہ کے لئے اختیار کرلی۔برصغیر کے اسی نامور اور سینئر صحافی سے ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے 7 فروری ،2016 کو بات چیت کی ہے ،انٹرویو کے دوران ساتھ میں سوانح نگار جناب عارف اقبال بھی موجود تھے ۔گفتگو کے اہم اقتباسات پیش ہیں آپ کی خدمت میں ۔(ادارہ)
انٹر ویو :شمس تبریز قاسمی
7 فروری ،2016
ملت ٹائمز
شمس تبریز قاسمی
آپ پاکستان میں پیدا ہوئے ، وہاں تعلیم حاصل کی ،پھر آپ ہندوستان آگئے اور یہاں مستقل قیام پذیر ہوگئے ،یہ سب آپ نے کیوں کیا اور پاکستان چھوڑنے کی کیا وجہ رہی ۔
کلدیپ نیر
ہمارا وطن پاکستان میں واقع پنجاب صوبہ کا سیالکوٹ ہے ،ہمارا خاندان برسوں سے وہاں آباد تھا،میرے والد محترم مشہور ڈاکٹر تھے اور مسلمانوں کے درمیان بہت مقبول تھے ،اسی دوران تقسیم وطن کا افسوسناک سانحہ پیش آگیا ۔تقسیم کے بعد 1947 میں میں ہندوستان آیا یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ، دریا گنج میں میری خالہ رہتی تھی وہیں میں ٹھہراہواتھا،اسی دوران ہمیں یہاں ایک ملازمت مل گئی اور ہم نے یہاں رہنے کا مستقل فیصلہ کرلیا ۔جب ہم آئے تھے تو یہاں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور ہمارے والدین بھی یہ نہیں چاہتے تھے لیکن دونوں طرف کے حالات بہت خراب تھے ،ہندوستان کے پنجاب میں مسلمانوں کے لئے رہنا مشکل ہوچکاتھا اور پاکستان کے پنجاب میں ہندؤں کا رہنا ، اس کے باوجود ہم سیالکوٹ گئے لیکن پاکستان کی پالیسی ایکٹ کی بناپر ہمیں سیالکوٹ کو والدین کے ساتھ الوداع کہناپڑا،یہی صورت حال ہندوستان کے پنجاب کی تھی جہاں مسلمانوں کا رہنا مشکل تھا اور اس طرح ہم نے دس لاکھ سے زائد ہندومسلمان کو کھودیا یہ سرکاری اندازہ ہے ،صحیح تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔
شمس تبریز قاسمی
تقسیم ہند کے لئے ذمہ دار کون ہے ،کیا صرف محمد علی جناح ذمہ دار ہیں یا پھر دوسرے بھی اس میں شریک ہیں ۔
کلدیپ نیر
محمد علی جناح نے مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے میں اہم کردار نبھایا لیکن صرف انہی کی کوششوں کا دخل نہیں ہے بلکہ اس میں سب سے بڑا انگریزوں نے نبھایا ،برٹش حکومت کے دوران نفرت حدسے زیادہ بڑھ چکی تھی ،ریلوے اسٹیشن پر پانی کے دو برتن رکھے ہوئے ہوتے تھے ،ایک پر مسلمان لکھاہوتاتھا اور دوسرے پر ہندو،کچن کو تقسیم کردیا گیا تھا ایک ہندوؤں کا جہاں صرف سبزی پکتی تھی اور ایک مسلمانوں کا جہاں گوشت پکتاتھا ویسے میں دونوں طرف کھاتھا،مسلمان دوستوں سے بولتا کہ ادھر سے تم گوشت لیکر آجاؤاور میں سبزی لیکر آتاتھاساتھ ملکر کھاتے تھے ۔ بہرحال برطانیہ حکومت نے ہندو مسلمانوں کے درمیان جو نفرت کی خلیج قائم کردی تھی اس نے تقسیم ہند میں اہم کرداراداکیا ۔
شمس تبریز قاسمی
تقسیم سے کس کا نقصان ہوااور آپ اس کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔
کلدیپ نیر
مذہب کے نام پر تقسیم بہت غلط فیصلہ تھا ۔تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان یہاں کے مسلمانوں نے اٹھایا ہے ،آج مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ،ہندوستان میں کہیں ان کی نمائندگی نہیں ہے ،سیاست میں یا کہیں اور وہ نظر آتے ہیں تو وہ کسی کے رحم وکرم پر ہیں ۔جب ان کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتاہے کہ ہم نے تو ان کو پاکستان دیدیا اب ان کو یہاں اور کیا دیاجائے ۔تقسیم سے مسلمان تین جگہ تقسیم ہوگئے ،پاکستان بن گیا ،بنگلہ دیش بن گیا اور 25 کروڑ ہندوستان میں ہیں ،اگر سب آج ایک ساتھ ہوتے تو وہ کم از کم 39 فی صد ہوتے اور یہ تعداد جمہوریت میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ۔تقسیم کرنے سے نقصان کے علاوہ فائدہ نہیں ہوسکا ،ہندومسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے ،کلچر ثقافت ،لباس سب کچھ یکساں ہے ،ہاں!مرنے کے بعد تمہیں دفن کیا جائے گااور ہمیں جلایا جائے گا مجھے کوئی ہندوستانی بھی کہ سکتاہے ،پاکستانی بھی کہ سکتاہے ، میرے خیال میں تمہارے یہاں بھی کوئی مسجد میں نہیں جاتاہمارے یہاں بھی کوئی مندر میں نہیں جاتاسوائے کچھ لوگوں کے۔
شمس تبریز قاسمی
پاکستان میں قیام کے دوران کبھی آپ کی محمد علی جناح سے ملاقات ہوئی ۔
کلدیپ نیر
ایک مرتبہ میرے کالج میں قائد اعظم محمد علی جناح آئے،اس وقت پاکستان بنا نہیں تھا وہاں ہم نے دو سولات کئے پہلا سوال تھا کہ’’ یہ ہندوستان جہاں برسوں سے ہندومسلمان ساتھ چلے آرہے تھے وہاں آپ نے ہندو اور مسلم کا دوقومی نظریہ پیش کردیا ہے، انگریزوں نے پہلے سے ہی نفرت کی دیوار بہت زیادہ حائل کردی ہے ایسے میں کیا اسے آپ ختم کرپائیں گے اور سرحدکی تقسیم کے بعداس میں اور اضافہ نہیں ہوگا ‘‘۔انہوں نے کہا’’ینگ مین! ہم دونوں بہترین دوست ہوں گے، فرانس او رجرمنی کے درمیان برسوں جنگ رہی لیکن اب وہ دوست بن چکے ہیں ‘‘۔دوسرا سوال ہم نے کیا کہ’’ فرض کرلیں !ہندوستان پر اگر کوئی تیسراملک حملہ کرے گا تو اس وقت آپ کا کیا طرز عمل ہوگا ،تو محمد علی جناح نے کہاکہ اس وقت ہماری فوج ہندوستان کی فوج کے ساتھ مل کر جنگ لڑے گی وہ جنگ ہماری جنگ ہوگی‘‘ ،یہ بات جب ہم نے لال بہادر شاستری جی سے کہی تو انہوں نے کہاکہ اگر ایسی بات ہے تو 1962 میں جب چین نے ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت پاکستان کی فوج کہاں تھی ،اگر انہوں نے ہماراساتھ دیا ہوتاتو آج کشمیر ان کا اپناہوتا ۔
شمس تبریز قاسمی
دونوں ملکوں کے درمیان تنازع او رکشیدگی کی نوعیت ابھی زیادہ ہے یا اس وقت زیادہ تھی ۔
کلدیپ نیر
شروع میں اتنی زیادہ کشیدگی اور تنازع نہیں تھا ،پاکستانی ہندوستان آتے تھے تو انہیں اپنے یہاں سب ٹھہرانے کی کوشش کرتے تھے ،رکشہ والے ان سے کرایہ نہیں لیتے تھے ،ہوٹل والے ان کے کھانے کا بل نہیں لیتے تھے ،اسی طرح پاکستان کا معاملہ تھا وہاں بھی ہندوستان سے جانے والوں کا بہت اعزاز او راکرام کیا جاتاتھا ،اس وقت باڈر پر بھی زیادہ سختی نہیں تھی ،شناخت نامہ دیکھاکر ایک دوسرے ملکوں مین آناجاناہوتاتھا۔1965 کی جنگ کے بعد یہ کشدیگی آئی ہے اور دن بہ دن یہ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان اور پاکستان کے کن وزرائے اعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ۔
کلدیپ نیر
ہندوستان میں اٹل بہاری واجپئی نے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ،وہ بس لیکر لاہور بھی گئے تھے ہم بھی اس بس میں شریک تھے، پاکستان میں نواز شریف نے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ،حالیہ دنوں میں مودی کا لاہور میں کچھ دیر کے لئے جانااس سمت میں مثبت قدم ہے ۔
ہندوستان ۔پاکستان میں پائی جانے والی اس کشیدگی اور تنازع کے لئے ذمہ دار کون ہے
دونوں ملکوں کی عوام تقریبا دوستی چاہتی ہے ،لیکن سیاست داں اس راہ میں حائل ہیں ،کانگریس نے بھی بہتر رشتہ بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا ہے ،پاکستان کی موجودہ سرکار اور ہندوستان کی موجودہ سرکار چاہے تو بہتر رشتہ بناسکتی ہے اور یہی حکومت کرسکتی ہے کیوں کہ اکثریت ان کے پاس ہے کانگریس یہ سب نہیں کرسکتی ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا،اب نفرت کا سلسلہ ختم ہوجانا چاہئے ،ایک دوسرے کا یہاں آنے جانے کا سلسلہ رہنا چاہئے ،ویزا اور پاسپوٹ کے حوالے سے جو سختیاں ہیں اس میں نرمی آنی چاہئے ۔
شمس تبریز قاسمی
آپ نے پاکستان میں ایل ایل بی کیا اور ہندوستان آنے کے بعد صحافت سے وابستگی اختیار کرلی ،یہ آپ نے مجبور ی میں کیایا شوق میں ۔
کلدیپ نیر
میں1947 کے آوخر میں ہندوستان آگیاتھااور دریا گنج میں خالہ کے یہاں رہتا تھا،جامع مسجد پرمیرٹھ ایک صاحب کی کباب کی دوکان تھی جن کا کباب بہت مشہور تھا، میں وہیں روزانہ جاتھا،ایک صاحب جو مجھے دیکھتے تھے کہ یہ روزانہ یہاں آتاہے انہوں نے پوچھاکہ ’’بیٹے تم کوئی کام نہیں کرتے ہو‘‘ میں نے کہاکہ نہیں! کوئی کام ہی نہیں ملتا ،انہوں نے پوچھا تم نے کیاپڑھ رکھاہے،ہم نے کہا ایل ایل بی کررکھاہے،لیکن ہم کلرک کی ملازمت نہیں چاہتے اور کمپٹیشن میں بیٹھنا نہیں چاہتے یہ اندیشہ ہے کہ ہو نہ ہو، انہو ںے نے کہاکہ اردو جانتے ہو؟میں نے کہاں ہاں جانتاہوں ۔ انہوں نے کہاکہ یہاں بلی ماران میں ایک اخبار ہے جس کو ایک ایسے ہندو کی ضرورت ہے جو اردو جانتاہو،تم وہاں چلے جاؤ وہ رکھ لیں گے ۔چناں میں وہاں گیا ،انہوں نے مجھے کہاکہ ڈیسک پر بیٹھئے، انگلش سے کچھ اردو میں ترجمہ کرنے کو دیا جو میں نے کردیا ،تب انہوں نے کہاکہ آپ کی یہاں ملازمت ہوگئی آپ کام کریں میری تنخواہ انہوں نے سوروپے مقررکی ،مالک کا نام یاسین تھا اور اخبار کا نام انجام ۔ اس لئے اکثر میں کہاکرتاہوں کہ’’ میں نے انجام سے اپنی صحافت کا آغاز کیا ہے ‘‘۔
شمس تبریز قاسمی
انجام میں کام کرنے کے دوران آپ کا کوئی یادگارکارنامہ
کلدیپ نیر
میں کئی سالوں تک انجام سے وابستہ رہا،اس دوران مجھے اپنا جو تاریخی کام یادآرہاہے وہ یہ کہ ناتھورام گوڈسے نے جب مہاتماگاندھی کا قتل کیاتھاتو اس کی رپوٹ ہم نے ہی لکھی تھی اوربھی کئے کام کئے اور اس طرح صحافت سے میری دلچسپی بڑھتی گئی ۔
شمس تبریز قاسمی
اردو صحافت سے انگریزی صحافت کی جانب آپ نے کب رخ کیااور کیا وجہ رہی ؟
کلدیپ نیر
بلی ماران میں حسرت موہانی رہتے تھے اس لئے میں ان کی زیارت کرنے گیا ان کو ہم نے اپنی بیاض دکھائی کیوں میں شاعری بھی کرتاتھا ،انہوں نے مجھے دونصیحت کی ایک یہ کہ’’ تمہاراکلام شاعری نہیں ہے بلکہ یہ تک بندی ہے دوسری یہ کہ اردو صحافت کا مستقبل مجھے روشن نظر نہیں آتاہے‘‘۔ اس کے بعد میں امریکہ چلاگیا ،کیوں کہ اس وقت امریکہ جانا آسان تھا وہاں سے ہم نے صحافت کی ڈگری حاصل کرلی اور ہندوستان لوٹ آیا ،اس کے بعد ہم نے انگریزی میں لکھنا شرو ع کیا ۔
شمس تبریز قاسمی
اردو صحافت کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں ،آپ کو لگتا ہے کہ حسرت موہانی نے جو پیشن گوئی کی تھی وہ آج کے دور میں سچ ثابت ہورہی ہے ۔
کلدیپ نیر
اردو پہلے بہت مضبوط تھی لیکن اب کمزور ہوگئی ہے ، لوگ اپنے بچوں کو اردو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن اسباب نہیں ہے ،اردو کو فروغ اسی وقت ملے گاجب اسے روزگار سے جوڑا جائے گا ، تمام اسکولوں میں اسے لازمی قراردیاجائے گا،جامعہ اور ایک دواداروں کے علاوہ کہیں اردو نہیں ہے ایسے میں اردو کا فروغ کیسے ممکن ہے؟۔
موجودہ صحافت کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں ؟۔
صحافت کا معیار اب بہت خراب ہوچکاہے ،پہلے صحافت ایک مشن تھا اور اب انڈسٹری ہے ،تجارتی مقاصد کے لئے میڈیا ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔
شمس تبریز قاسمی
صحافت کا کوئی دائرہ طے ہونا چاہئے کیوں کہ اظہار آزادی کی آڑ میں میڈیا ادارے حد سے تجاوز کرجاتے ہیں ۔
کلدیپ نیر
صحافت کا دائرہ تو طے نہیں کیاجاسکتاہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے کچھ اصول وضوابط طے ہونے چاہیئے ،کامیاب او رمثبت صحافت اسی وقت ممکن ہے جب صحافت کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے گی ، صحافت کے نام پر کسی خاص فرقہ کو نشانہ بنانا صحافت کی روح کو پامال کرنے کے مترداف ہے ۔
شمس تبریز قاسمی
ان دنوں دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی اندھادھندگرفتاری ہورہی ہے ،الیکٹرونک میڈیا اس میں نمایاں کردار اداکرتی ہے ،الزام ثابت ہونے سے قبل ہی ہے انہیں دہشت گرد ٹھہرادیتی ہے اور جب عدم ثبوت کی بناپر وہ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں تو میڈیا اس کوکو ریج نہیں دیتی ہے ۔
کلدیپ نیر
داعش اور القاعدہ سے تعلق کے الزام میں مسلمانوں کی گرفتاری افسوسناک ہے ،میڈیا کا یہ طرزعمل متعصبانہ ہے جو بہر حال درست نہیں ہے اور اس کی ہم مذمت کرتے ہیں ،سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ ایک بے گناہ شخص کا پورا کیرئیر بربادہوجاتاہے اور سالوں اسے جیل کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہے۔
شمس تبریز قاسمی
ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں اب کیا کہنا چاہتے ہیں اور کس پارٹی کی حکومت سب سے بہتر رہی ہے ۔
کلدیپ نیر
نہرو ہندوستا ن کے سب سے بہتر وزیر اعظم ثابت ہوئے ،شروع کے پندرہ سال بہت بہتر رہے ،ان کے بعد کانگریس نے بھی ووٹ بینک کی سیاست شروع کردی ،ان دنوں کانگریس اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے ،اور نہ ہی کانگریس سیکولر ذہینت کی حامل رہ گئی ہے ،بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاست اور زیادہ خطرناک ہے لیکن ان سب کے باوجود مسلم قیادت کو موجودہ حکومت سے روابط بڑھانے چاہئے کیوں کہ کانگریس اب کمزور ہورہی ہے اور نہ ہی وہ سیکولر رہ گئی ہے اس لئے جوحکومت ہے اس سے رابطہ رکھنا چاہئے ۔مجھے اندازہ ہے کہ آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کچھ الگ ہے ،موہن بھاگوت کا اقتدار پر قبضہ ہے لیکن اکثریت ابھی انہیں کے پاس ہے،اس لئے مسلم قیادت کے لئے بہتر یہی ہوگاکہ وہ مودی حکومت سے روابط بڑھائیں۔
محمد عارف اقبال
بنگلہ دیش اور پاکستان کے حالات میں کیا فرق ہے ؟
کلدیپ نیر
بنگلہ دیش کی حالت جیسے پہلے تھی ویسی اب بھی ہے ،پہلے مغربی پاکستان کے تاجر لوٹتے تھے ،اب بنگلہ دیشی تاجر ان کا استحصال کرتے ہیں ،غربت جیسے ہندوستان میں ہے اسی طرح بنگلہ دیش میں ہے ، البتتہ اتناہے کہ وہاں مذہبی کشیدگی نہیں ہے ،پاکستان کی طرح انتہاء پسندی نہیں پائی جاتی ہے ،ہندومسلم کی کوئی تفریق نہیں ہے ،تاہم شیخ حسینہ کا رویہ آمریت ولاہے جو جمہوریت کے لئے نامناسب ہے ۔
محمد عارف اقبال
آپ کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ کون ساتھ اور سب سے تکلیف دہ زمانہ کب تھا
کلدیپ نیر
لال بہادر شاستری کے کے زمانے میرے لئے زیادہ اچھے تھے ،ان کے ساتھ مل کرہم نے کام کیا ،انہوں نے ہی مجھے برطانیہ کا ہائی کمشنر بنایاتھا،محترمہ اندراگاندھی کا زمانہ میرے لئے بہت خراب رہا،ایمرجنسی کے خلاف میں نے ایک خط لکھاتھاجس کی پاداش میں انہوں نے مجھے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا ،جیل کے دوران ناقص غذااور دیگر وجوہات سے مجھے کئی بیماری لاحق ہوگئی جو اب تک میں جھیل رہاہوں ،محترمہ گاندھی نے میرے ساتھ زیادتی کی ۔
شمس تبریز قاسمی
آ پ نے اردو صحافت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ،پھر انگلش میں لکھنا شروع کیا ان دنوں آپ کے مضامین 80 زائد اخبارات میں چودہ زبانوں میں شائع ہوتے ہیں ،ہم یہ جاننا چاہتے ہیں اردو میں براہ راست آپ کے لکھنے کا سلسلہ جاری ہے یا نہیں ۔
کلدیپ نیر
میری اردو اب کچھ کمزور ہوچکی ہے ،انگلش میں لکھتاہوں ،اس کا ترجمہ ہندی ،اردو اور دیگر زبانوں میں ہوتاہے ،اردو اخبارات کو بھی مضمو ن چھاپنے کے لئے بھیجتاہوں ۔اردو والے پیسہ بہت کم دیتے ہیں ،کچھ دیتے بھی نہیں ہیں لیکن اردو کی محبت میں پیسہ کی پرواہ کئے بغیر میں اردو اخبارات کو دیتاہوں۔اردواخبارات اور کتابیں پابندی سے پڑھتاہوں ،فیض احمد فیض میرے پسندید رائٹر ہیں ، میری اردو ہندی سے زیادہ اچھی ہے ۔
شمس تبریز قاسمی
آپ خود کس زبان کا صحافی کہلانا پسند کریں گے اردو کا یا انگلش کا
کلدیپ نیر
میں نے اردو سے صحافت کا آغاز کیا ہے اور ادو صحافی کہلانا ہی میرے لئے باعث فخر ہے ،میں اکثر کہاکرتاہوں کہ انجام سے میں نے اپنی صحافت کا آغاز کیا ہے ۔
شمس تبریز قاسمی
نئے صحافیوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے
کلدیپ نیر
خوب لکھو،صحافت میں نام پیداکرو ،آئیڈیا ز پر توجہ دو،کسی بھی معاملے کی پہلے تحقیق کرو ،اس کو پرکھو،پھر اپناتجزیہ اور نظریہ پیش کرو۔
شمس تبریز قاسمی
الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ اب سائبر میڈیا کا زمانہ ہے، اسی کے پیش نظر ہم نے ملت ٹائمز کا آغاز کیا ہے جس میں انٹرینٹ پر اردو قارئین کو تازہ اور معیاری خبر،مضامین وغیرہ فراہم کرنے کا اہتمام کیا جاتاہے۔
کلدیپ نیر
آپ نے اچھی شروعات کی ہے ،ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہے ،اردوکے لئے جہاں تک ہوسکے آپ کام کریں ،میری خواہش ہے کہ آپ لوگ انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں اردو جرنلزم پر کوئی پروگرام کریں اور مجھے وہاں بلائیں ، اردو صحافت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں ، میں یہ نہیں کہتاکہ اردوہندی اور انگلش کے ہم پلہ ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اردو کا بھی اپنا مقام ہے ،اس کے لئے بھی جگہ ہے۔
شمس تبریز قاسمی
سر! آپ نے ملت ٹائمز کو اپنا قیمتی وقت دیا ،ہم سے بات چیت کی اس کے لئے ہم تہ دل سے آپ کے شکر گزارہیں۔
کلدیپ نیر
مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگ یہاں آئے ،اسی طرح موقع بہ موقع آیاکریں ،ملاقات کیا کریں ،ہمیں خوشی ہوگی ۔