بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے خلا پر سنجیدکی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت
دیوبند(ملت ٹائمز۔سمیر چودھری)
2014ء لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد بہار میں ہوئی کراری شکست کے سبب مودی لہر کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے علماء دیوبند بھی یوپی اتراکھنڈ میں بی جے پی کی غیر متوقع فتح کے بعد نریندر مودی کی لہر کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور اس بات پر زور دینے لگے ہیں کہ ملی قائدین اور علماء کرام کو وزیر اعظم سے ملاقات کرکے طلاق ثلاثہ، یکساں سول کوڈ اور مسلمانوں کی پسماندگی جیسے سنگین مسائل کے بابت گفتگو کرنی چاہئے۔ حالانکہ ابھی تک کسی نے میڈیا میں کھل کر اس کااظہار تو نہیں کیا لیکن اپنی اپنی مجالس میں ملک میں بڑھتی مودی کی طاقت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی غوروفکر کرنے لگے ہیں کہ اس وقت ملک میں مودی سے مقابلہ کرنے والا کوئی دوسراسیاستداں نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی جماعت ہے جو بی جے پی کے مقابلہ میں کھڑی ہوسکے۔ یوپی انتخابات کو لیکر کئی طرح کی پالیسیاں تیار کررہے سیکولراور ملی قائدین کی سیاست پر یوپی میں مودی کی شاندار کامیابی نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور انہیں آئندہ کے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے پر مجبو رکردیاہے ،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس وقت ملکی سیاست سے’ مسلم منہ بھرائی‘ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور 70؍ سال تک سیکولرزم کے نام پر مسلم ووٹروں کوبے قوف بنانے والے آج خود کو ٹھگا سا محسوس کررہے ہیں۔ سیاست میں پارٹیوں کی ہار جیت کبھی بھی مسلمانوں کے لئے قابل قدر نفع بخش ثابت نہیں ہوئی ہے،نہ کبھی شکست زدہ ان کا ہوسکا اور نہ ہی جیتنے والوں نے انہیں انعام کامستحق سمجھاہے۔ لیکن بی جے پی کی جیت کے بعد یقیناًمسلمان میں ایک عجیب ساخوف ضرور دیکھاجارہاہے اور اس خوف کے خاتمہ کا واحد راستہ بھی جمہوریت کے راستہ سیاست میں شراکت داری ہے، اس جانب توجہ نہ دی گئی تو پھر مسلمان مزید 70؍ سال پیچھے چلے جائینگے۔ اس ہار سے بھلے ہی سیاسی اور ملی رہنماؤں کی شان و شوکت میں قابل ذکر کمی نہ آئے لیکن دیہی مواضعات بالخصوص اکثریتی فرقہ کے درمیان بسنے والی تھوڑی تھوڑی اقلیتوں کے لئے یہ کافی نازک وقت ثابت ہوسکتاتھا،جس کے لئے اپنی ’انا‘ سے باہر نکل کر حکومتوں سے مسلمانوں کے تحفظ کے سلسلہ میں بات کرنی ہی پڑے گی۔ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتاہے اور ہر طبقہ کے قائدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اپنے قوم کے تحفظ اور پسماندگی کے مسائل ان کے سامنے رکھیں اور ان پر ان سے گفت وشنید کریں، کہیں یہ نہ ہو کہ یہ ’کھائی‘ اس قدر گہرائی ہوجائے اس کو پاٹنا بھی ہمارے لئے ناممکن عمل بن جائے۔ پارلیمنٹ کے بعدریاستی اسمبلیوں میں تیزی سے گھٹتی مسلم نمائندوں کی تعداد ان کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے جو بغیر قوم اور رہنماؤں کواعتماد لئے مایاوتی اور اکھلیش یادو کی بے جا حمایت کئے جارہے تھے۔بہر حال اب یوپی میں بی جے پی نے تاریخ رقم کردی ہے اور آئندہ 16؍ مارچ کو نئے وزیر اعلیٰ کااعلان بھی ہوجائے گا اور ایک ہفتے سے ایک ماہ کے اندر حکومت کی تمام پالیسیاں واضح ہوجائینگی کہ حکومت کا مسلمانوں کے تئیں کیا رخ ہوگا ،جس کے بعدمسلم قائدین کو بھی متفقہ طورپر مضبوط لائحہ عمل تیار کرکے سنجیدگی کے ساتھ قدم بڑھانے چاہئے۔ یوپی میں مودی کی شاندار جیت پر علماء دیوبند نے نرمی کا اظہارکرتے ہوئے اسے مودی لہر قرار دیا ۔ اس بابت ممتاز عالم دین مولاناندیم الواجدی اور فتویٰ آن لائن موبائل سروس کے چیئرمین مفتی ارشد فاروقی نے کہاکہ یہ عوام کا فیصلہ جو سبھی کو قبول ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی بی جے پی حکومت یوپی کو کس طرح ترقیاتی کاموں پر آگے بڑھاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ طلاق ثلاثہ اور یکساں سول کوڈ جیسے مسائل پر وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اپنی بات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دیوبند میں پہلی مرتبہ اس طرح دیکھے ہولی کے رنگ!
دیوبند کی تاریخ میں یہاں کے مسلم حلقوں میں کبھی ایسے ہولی کے رنگ نہیں دیکھے گئے جو گزشتہ روز یہاں کے عوام نے دیکھے ہیں،حالانکہ مسلم طبقہ کی سمجھ بوجھ کے سبب شہر کا ماحول پوری طرح پر امن رہا۔ دیوبند کے دیہات میں ہمیشہ اکثریتی فرقہ کا اثر رسوخ رہاہے لیکن شہر میں اقلیتی فرقہ کو مضبوط سمجھاجاتاہے۔ لیکن اس مرتبہ دیوبند شہر میں اذان اور نمازوں کے وقت بھی ہولی کے رنگ اور ڈی جے کی دھن کم نہیں ہوئی۔ محلہ پٹھانپور میں اذان اور نمازوں کے دوران جم کر ہولی کھیلنے والوں نے ہوڈدنگ مچایا جبکہ اس مرتبہ پہلی بار دارالعلوم دیوبند کے سامنے سے کئی موٹر سائیکلوں سوار نوجوان غیر مہذب نعرے بازی کرتے ہوئے گذرے۔ لیکن مسلم سماج کی طرف سے انہیں نظر انداز کرنے کے سبب شہر کا ماحول پوری طرح پر امن رہا۔ پہلی مرتبہ پیش آئے اپنی نوعیت کے ان واقعات کو لیکر دن بھر شہر میں چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں۔
51؍ ہزار ووٹ لیکر جیتے والے بچپن ہزار لیکر تیسرے نمبر پر !
گزشتہ سال دیوبند میں ہوئے ضمنی انتخابات میں میونسپل بورڈ چیئرمین معاویہ علی نے کانگریس کے ٹکٹ الیکشن لڑا اور 51؍ ہزار ووٹ لیکر 38؍ سال بعد دیوبند میں تاریخ رقم کرتے ہوئے اسمبلی جانے کا موقع پایا تھا اور 1952ء کے بعد دوسرے مسلم رکن اسمبلی بننے کا شرف بھی حاصل کیاتھا۔ لیکن اس مرتبہ معاویہ علی سماجوادی پارٹی کی سائیکل پر سوار ہوگئے ،جس کے سبب ان کے ووٹوں میں تقریباً چار ہزار ووٹوں کا اضافہ ضرور ہوا لیکن وہ نہ صرف الیکشن ہارگئے بلکہ تیسرے نمبر پر کھسک گئے ۔ دیوبند سیٹ کو لیکر آج کل سوشل میڈیا پر بڑی افواہیں کہ یہاں اسی فیصد مسلم ہونے کے باوجود بھی بی جے پی جیت گئی ،اس میں کوئی سچائی نہیں بلکہ سچائی یہ ہے کہ دیوبند میں 35؍ فیصد کے آس پاس مسلم ووٹر ہیں اور ان کے کل ووٹ ایک لاکھ آٹھ ہزار جبکہ دیگرکے دو لاکھ اٹھارہ ہزار ووٹ ہیں۔