قاسم سید
بابری مسجد – رام جنم بھومی تنازع کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ اراضی کی ملکیت پر عدالت عظمیٰ نے فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت سے باہر باہمی مشاورت سے مسئلہ کو حل کرلیں۔ اس نے خود کو ثالثی کے لئے بھی پیش کردیا ہے۔ اس طرح مذاکرات کے تعلق سے نوعیت مختلف ہے۔ پہلی مرتبہ یہ مشورہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے آیا ہے، دوسرے خواہش کرنے پر اس نے ثالثی کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس کا یہ ماننا ہے کہ آستھا اور دھرم سے تعلق ہونے کی وجہ سے بہت حساس معاملہ ہے۔ یہ عجیب و غریب اتفاق ہے کہ اترپردیش میں نئے وزیر اعلیٰ کے ’گرہ پردیش‘ کے بعد یہ پیش کش سامنے آئی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا فرماتے ہیں کہ معاملہ عدالتوں سے باہر حل کیا جائے۔ ایسے تنازع مل کر سلجھانے والے ہیں، یہ جذبات اور مذہب کے مسئلے ہیں، عدالت کو تبھی درمیان میں داخل دینا پڑتا ہے جب آپ اس کو حل نہ کرسکیں۔
ظاہر ہے یہ بہت نیک مشورہ ہے، شاید ہی ہندوستان کی سرزمین پر کوئی ذی روح ہو جس کو چیف جسٹس آف انڈیا کی نیت اور اخلاص پر کوئی شبہ ہو۔ اس پر انگلی اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انھوں نے شاید اس لئے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہوگی، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے اس تنازع میں ہزاروں جانیں جاتے دیکھ چکے ہیں۔ کتنوں کی زندگی برباد ہوگئی اور نہ جانے کتنے صاحب اختیار اور لیڈر بن گئے۔ بابری مسجد – رام جنم بھومی تنازع نے دونوں طرف ایسے لیڈروں کی ایک کھیپ تیار کردی جو اس کے توسط سے سرکاری مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہوگئے۔ خود وزیربن گئے، بیٹوں کو بھی اسمبلیوں میں پہنچادیا تاکہ ان کا مستقبل ان کی نظروں کے سامنے ہی محفوظ ہوجائے۔ گلیوں میں گھومنے والے محلوں میں رہنے لگے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے یہ عہد کرتے تھے کہ وہ بابری مسجد کے تحفظ کے لئے سر کی بازی لگادیں گے اور اپنی اولاد کو آگے علم اٹھانے کی وصیت کرجائیں گے۔ بفضلہ تعالیٰ ان کے سر گردنوں پر محفوظ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بابری مسجد ملبہ میں بدل گئی اور ان کی غیرت سنگین آزمائش سے گزرنے کے باوجود سلامت ہے اور وہ اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود مسجد کے گنہ گاروں کو سزا نہ دلاپائے بلکہ ان کو جب یہ موقع ملا تو انھیں بری ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ یہ خطہ بہرحال اندیشوں کی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے۔ 10 مرتبہ بات چیت ہوچکی ہے، مگر ناکامی رہی۔ 80 اور 90 کی دہائی میں قضیہ حل کرنے کی سمت میں کئی بار قدم بڑھائے گئے۔ میراتھن میٹنگوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وی پی سنگھ سے لے کر نرسمہا رائو اور چندر شیکھر تک کوئی فریقین میں سمجھوتہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ 30 ستمبر 2010 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا اس میں نئی پیچیدگی پیدا کردی اور اراضی کا بٹوارہ کرکے وہ کام کردکھایا جو اس کے دائرئہ اختیار میں ہی نہیں تھا، اس لئے گیند سپریم کورٹ کے پالے میں آگئی جہاں اراضی ملکیت تنازع کے علاوہ بابری مسجد انہدام کیس بھی زیرسماعت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب جلد ہی دونوں معاملات پر بڑا فیصلہ آسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا مشورہ اور پیش کش کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں مسترد کردیا جائے یا اس میں کوئی گنجائش نکالنے کی آخری کوشش کی جائے۔ دوسرے کیا مذاکرات مشروط ہوں گے یا غیر مشروط، کیا مذاکرات بندوق کی نال کنپٹی پر رکھ کر کئے جائیں گے اور کیا کسی خاص فیصلہ کو ماننے کے لئے مجبور کیا جائے گا اور یہ بھی کہ مذاکرات کون کرے گا اور اسے کیا اختیار ہوگا۔ وہ حتمی فیصلہ کو قبول کرے، مسلمانوں کی طرف سے اتھارٹی باڈی کون سی ہوگی اور ہندوئوں کی طرف سے نمائندگی کون کرے گا۔ کیا تنازع کے فریقین جو عدالت میں فریق ہیں ان کے درمیان گفتگو ہوگی؟ یا دائرہ وسیع کیا جائے گا؟ دونوں میں سے کون سا فریق قدم پیچھے ہٹانے کی جرأت کا مظاہرہ کرے گا یا اسے قدم پیچھے ہٹانے کی تاکید ہوگی؟ دراصل یہ سوالات اس لئے پیدا ہورہے ہیں کہ جو لوگ مذاکرات کا پرجوش خیرمقدم کررہے ہیں ان کا لب و لہجہ بڑی حد تک جارحانہ اور تحکمانہ ہے۔ بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں اور یوپی کے وزیراعلیٰ نے اس کی پرزور تائید کی ہے۔ حکومت کے وزیروں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مشورہ کے پردے میں جس طرح کے مشورے اور ہدایات سامنے آرہی ہیں، مسلمان کہیں اور مسجد بنالیں، اس جگہ پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں، جہاں مسجد تھی جسے 1992 میں کارسیوکوں نے شہید کردیا تھا، مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ ضد نہ کریں، آن کو قربان کرکے ملک کو بڑے نقصان سے بچالیں۔ نئی صبح کا آغاز کیا جائے۔ سمجھوتہ کی راہ چھوڑکر ضد پر اڑے رہیں گے تو حل ناممکن ہے۔ اس تجویز کو مسترد نہ کریں، فراخ دلی کا مظاہرہ کریں، انھیں سرجو پار مسجد بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے، یعنی اوّلین شرط یہ ہے کہ مسجد کی جگہ پر دعویداری پر کوئی بات نہیں ہوگی تو پھر کس معاملہ پر گفتگو ہوگی۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا لب و لہجہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مذاکرات کا روڈمیپ کیا ہوگا، ان کا ارشاد ہے کہ مسلمان ان کی بات مان کر سرجو کے اس پار مسجد بنانے کی تجویز قبول کرلیں، ورنہ 2019 میں ان کی حکومت مندر تعمیر کے لئے قانون بنالے گی۔ انھوں نے یہ بھی چیلنج کیا کہ کسی میں ہمت ہے تو رام جنم بھومی میں بنے عارضی رام للا مندر گراکر دکھائے۔ سپریم کورٹ کی اجازت سے ہی 1994 سے وہیں عارضی مند قائم ہے اور پوجا بھی ہورہی ہے، جبکہ وی ایچ پی نے سرجو کے پار مسجد بنانے کی تجویز کو مسترد کرکے کہا ہے کہ اجودھیا کی حد میں کسی بھی مسجد کو ہندو سماج برداشت نہیں کرے گا۔ مرکزی وزیر اوما بھارتی کے نزدیک رام مندر تو اسی جگہ بنے گا، دوسرے وزیر گری راج کشور ہاتھ جوڑکر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہندوئوں کے جذبات کا احترام کریں، ہم مندر کہاں بنائیں گے۔ مسلمان تو عبادت کے لئے مکہ و مدینہ اور کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان کا صاف لفظوں میں کہنا تھا کہ آپ کے اور ہمارے پوروج ایک ہیں، اس لئے رام مندر کے لئے جگہ چھوڑنا عظیم مثال ہوگی۔ وہ یہیں نہیں رکے، انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر کاشی اور متھرا کا بھی تذکرہ چھیڑدیا کہ مغلوں نے جو کچھ لوٹا اسے واپس تو ملنا چاہئے۔
شاید یہی وجوہات ہیں جو مسلم رہنمائوں نے مذاکرات کی پیشکش کا احترام کرنے کے ساتھ اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی بات کہی ہے۔ اب یہ ہوسکتا ہے کہ اس نیک مشورے کو قبول نہ کرنے والے کو جھگڑالو اور ضدی کہہ کر بدنام کیا جائے اور مذاکرات کے حق میں ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ مسلمان دبائو میں آجائے۔ مذاکرات اس صورت میں کامیاب تصور کئے جاتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے کوئی ایک اپنے موقف سے دستبردار ہو یا نرم پڑے، فریقوں کے اپنے موقف پر اٹل رہنے سے سمجھوتہ کا راستہ نہیں نکل سکتا۔ یہ معاملہ یقیناً حساس اور آستھا سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن عدالتیں آستھا سے نہیں آئین اور قانون سے چلتی ہیں۔ بابری مسجد قضیہ سے ملک کی بنیادی اقدار، جمہوریت کا تحفظ اور آئین کی پاسداری کے سنگین سوالات منسلک ہیں۔ مرکز اور اترپردیش میں ایک پارٹی کی سرکار برسراقتدار آنے کے پس منظر میں یہ پیش کش اپنے اندر بہت سے مضمرات رکھتی ہے۔ مصالحت کا راستہ کھولا جانا غلط نہیں ہے، لیکن انصاف کے دروازے بند ہونے کی صورت میں نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے اور وہ چاہتا کیا ہے؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان نرم روی اپنائیں، عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کریں تو مثبت راستے کھلیں گے۔ تنگ نظری چھوڑیں اور عدالت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے نئی صبح کا آغاز کریں اور بات چیت وہاں سے شروع کریں جہاں سے ٹوٹی تھی۔ اور اگر عدالت سے ماورا کسی مفاہمت پر پہنچنے کی صورت نہیں نکل سکی تو سپریم کورٹ نے ازخود کہا ہے کہ وہ فیصلہ کرنے کے لئے موجود ہے۔ اس طرح مسلمانوں کی شبیہ بہتر ہوسکے گی۔ دیکھنا ہوگا کہ آگے اور کون سی قربانیوں اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ کو بخوبی احساس ہوگا کہ یہ معاملہ اگر آستھا اور دھرم سے جڑا ہے تو کسی ایک کے مذہبی مقام سے اسے بے دخل کرکے اس پر جبری قبضہ کا پہلو بھی اس کا نمایاں حصہ ہے۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جابرانہ پالیسی اور حکومت کے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف جارحانہ رویہ کی وہاں کی عدلیہ نے جس طرح مزاحمت کی ہے، اس نے عدل و انصاف کا سر اونچا کردیا ہے کہ اکثریتی آمریت انصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتی اور ہر قیمت پر آئینی اقدار برقرار رکھتی ہے۔ ہمیں ہندوستان کے نظام انصاف پر پورا یقین ہے۔ رہا مذاکرات کا معاملہ تو کم از کم اس پر تو یک رائے ہوکر سامنے آیا جائے۔ جس طرح بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں وہ ہمارے انتشار اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کررہی ہیں۔ شاید یہی وہ وقت ہے جب ایک چھت کے تلے بیٹھ کر مشترکہ موقف اختیار کیا جائے، ورنہ حالات اپنے اندر بہت سے طوفان رکھتے ہیں اور ایسی بجلیاں آستینوں میں پوشیدہ ہیں جو ایک ایک گھر کو ترتیب سے جلاکر راکھ کردینا چاہتی ہیں۔ کیا ہم وقت کی آواز سنیں گے اور واعظ کی باریک چالوں کو سمجھیں گے۔ (ملت ٹائمز)
( مضمون نگار روز نامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)
qasimsyed2008@gmail.com