خبر درخبر(509)
شمس تبریز قاسمی
مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد ہندوستانی مسلمان سخت مشکلات سے دوچارتھے ،انتہائی ناز ک اور پریشا ن کن صورت حال نے ان کا احاطہ کر رکھاتھا،سوچ وفکرکے دروازے بند ہوگئے تھے ،شان وشوکت اور عروج وارتقاء کی واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی فرنگی چالوں نے مسلمانوں کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرکررکھاتھا،شعائر اسلام پر خطرا ت کے بادل منڈلانے لگے تھے ،اسلامی تہذیب وثقافت کی بقا کو سخت چیلجز کا سامنا تھا یوں سمجھئے کہ اس وقت کے حالات آج کے دور کی طرح تھے ،جس طرح 2014 کے بعد آر ایس ایس کے بڑھتے قدم اور بی جے پی کی مضبوط ہوتی سیاسی پوزیشن سے مسلمان پریشان ہیں،مسلم لیڈر شپ آزمائش میں گھر گئی ہے اور کوئی تدبیر نظر نہیں آرہی ہے ان حالات کا مقابلہ کرنے کی ، نہ ہی مسلمانوں کے پاس کوئی مضبوط حکمت عملی ہے ، نہ کوئی متحدہ قیادت ہے اور نہ کوئی پائیدار لائحہ عمل ہے ،بہر کیف انیسوی اور بیسوی صدی میں بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے ،علماء کے درمیان شدید اختلاف تھا ،عوام ٹکروں میں بٹی ہوئی تھی ایسی مشکل گھڑی میں مفکر اسلام مولانا ابولمحاسن محمد سجاد نے مسلمانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے اور ایک مضبوط لائحہ عمل طے کرنے کیلئے علماء کو متحد کرنے کابیڑہ اٹھایا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر علماء متحدہ ہوں گے تو سوجہتی قوم بھی متحدہ ہوجائے گی ،اس نظریہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 1917 میں انہوں نے جمعیۃ علماء بہار کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اپنے مقصد میں یہ تنظیم کامیاب رہی ، دوسالوں بعد 1919 میں دہلی کی سرزمین پر حسین رسونماخاں صاحب کے گھر پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں مفتی کفایت اللہ دہلوی ،مولانااحمد سعید احمد ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمہم اللہ سمیت کل بارہ افرادشریک تھے ،اس میٹنگ میں جمعیۃ علماء بہار کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیاگیا ، اس طرز پر پورے ہندوستان کے علماء کو متحدہ کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا اور جمعیۃ علماء بہار کو جمعیۃ علماء ہند میں تبدیل کردیاگیا ،مفتی کفایت اللہ دہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلے صدر منتخب کئے گئے ۔1920 میں دہلی کی سرزمین پر جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اور 1921 میں پانی پت کی سرزمین پر دوسرا اجلاس منعقدہواجس میں شیخ الہند مولانا محمود ا لحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شرکت کی اور 1935 میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی جمعیۃ سے وابست ہوگئے ۔
جمیعۃ علماء ہند نے اتحاد کے مشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک گیر پیمانے پر تحریک شروع کی،تمام مکاتب فکر کے علماء کو شامل کیا گیا ،سماجی اور سیاسی سطح پر مسلمانوں کی حقوق کی ترجمانی کی گئی ،1940 کے بعد جب قیام پاکستان کی تحریک زور پکڑنے لگی تو علماء کی ایک جماعت جمعیۃ علماء ہندسے علاحدہ ہوگئی اور 1945 میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا جود عمل میں آیا کیوں کہ جمعیۃ علماء ہند تقسیم ہند کی شدید مخالف تھی اور نظریاتی طور پر کانگریس کی ہمنوا تھی ۔چناں چہ ہندوپاک کی تقسیم سے قبل ہی جمعیۃ علماء دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ا وردوعلاحدہ ملک کے ساتھ یہ دوجماعت بھی مستقل طور پر علاحدہ ہوگئی ،جمعیۃ علماء اسلام میں بھی بدلتے وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی ،1955 کے بعد از سر نو اس جماعت کی تشکیل ہوئی ،60 کی دہائی میں یہ مذہبی جماعت سے سیاسی جماعت میں تبدیل ہوگئی ،70 میں کے عام انتخابات میں اس تنظیم نے بھی حصہ لیا ،اس کے سربراہ مفتی محمود صاحب صوبہ خیبر پختوانخواہ کے ایک سال تک وزیر اعلی رہے ،2002 کے عام انتخابات میں بھی اس تنظیم نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور مجلس عمل سے مل کر جمعیۃ علماء اسلام کی قابل ذکر سیاسی نمائندگی رہی ،آج اس تنظیم کو پاکستان میں ایک نمایاں مقام ،خصوصیت اور اہمیت حاصل ہے، دیوبندی مکتبہ فکر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔
دوسری طرف ہندوستان میں جمعیۃ علما ء ہند کا معاملہ برعکس ثابت ہوا ،آزادی کے بعد جمعیۃ کے اکابرین نے سیاست سے اپنار شتہ ختم کرلیا،جمعیۃ کے رہنماؤں نے اسے ایک مذہبی تنظیم کے طور پر متعارف کرانا شروع کردیااور یوں ہندوستان میں اس کا وقار گھٹنے لگے ،افراد کم ہونے لگے ، ایک مکتبہ فکر تک بھی اس کا دائرہ محدود نہیں رہ سکا،1983 میں جمعیۃ کے مشہور قائد مولانا فضیل احمد قاسمی نے یہاں سے نکل کر ایک نئی تنظیم مرکزی جمعیۃ علماء ہند کے نام سے بنالی اور2008 میں ایک مرتبہ پھر جمعیۃ علماء ہند دوحصوں میں تقسیم ہوگئی البتہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ سب کچھ بدلنے کے باوجود نام کی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اتحاد کے مشن کو فروغ دینے کیلئے قائم ہونے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ میں اختلافات اور تقسیم کی طویل فہرست ہے ،خاص طورپر ملک کی تقسیم کے ساتھ جمعیۃ کی تقسیم سب سے اہم اورقابل ذکر ہے کیوں کہ یہ تقسیم کسی عہدہ ومنصب کے لالچ،مالی مفا اور سیاسی قدبڑھانے کیلئے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے پس پردہ ایک ایسا نظریہ تھا جس پراب اتحاد بالکل ممکن نہیں ہے، ایک تنظیم قیام پاکستان کی تحریک چلارہی تھی تو دوسری قیام پاکستان کے خلاف ملکی پیمانے پر اجلاس کررہی تھی ،آج بھی ایک تنظیم محمد علی جناح کو قائد اعظم اور مہاتماگاندھی کو دشمن تسلیم کرتی ہے تودوسری تنظیم محمد علی جناح کو دشمن اور مہاتماگاندھی کو اپنا مسیح سمجھتی ہے،ایسے میں اتحاد کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ دونوں جماعت متحدہے ،اس کے ذمہ داران ایک ساتھ اسٹیج شیئر کررہے ہیں ، دونوں گروپ کے سربراہان متحدہوکر جشن منارہے ہیں تو اتحاد کی اس سے بڑی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی ہے اور اسے ہم کوئی کرامت اور کرشمہ ہی کہ سکتے ہیں ۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے یہ سب ممکن کردکھایا ہے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں جمیعۃ علماء اسلام اور جمیعۃ علماء ہند کے سربراہان ایک ساتھ بیٹھ کر اپنا صدسالہ جشن منارہے ہیں ،پشاور میں میں 7 اپریل سے صد سالہ جشن جاری ہے جو تین دنوں یعنی 9 اپریل تک جاری رہے گا ،پاکستانی میڈیا کے مطابق پاکستان کا یہ اہم ترین اور تاریخی اجتماع ہے ،لاکھوں کی تعداد میں مسلمان وہاں شریک ہیں ،جمعیۃ علماء ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب بھی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہیں ،دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب بھی وہاں موجود ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے بھی بڑے اکابرین اس اجلاس کا حصہ بنے ہوئے ہیں جن میں حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سرفہرست ہیں ،امام حرم شیخ صالح بن ابی طالب اور سعودی عرب میں مذہبی امور کے وزیر بھی اس اجلاس میں شریک ہیں علاوہ ازیں بیس ممالک کے مسلمان قائدین اس اجتماع میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔
لیکن پورے صدسالہ جشن میں جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے گروپ کی کہیں نمائندگی نظر نہیں آرہی ہے ،پوسٹر اور اشتہارات میں مولانا سید ارشدمدنی صاحب کا نام تھا لیکن وہ وہاں نہیں گئے ہیں اور نہ ہی ان کی جمعیت سے کوئی اور شخصیت اس اجلاس میں شریک ہوئی ہے ۔مولانا سید ارشدمدنی صاحب اور ان کی تنظیم کی عدم نمائندگی کی وجہ مجھے نہیں معلو م البتہ یہ ضرور ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اور مولانا محمود مدنی صاحب کے درمیان تعلقات زیادہ اچھے ہیں ،غالبا 2013 میں مولانا محمود مدنی صاحب نے بھی ایک عالمی امن کانفرنس منعقدکی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں جمعیۃ علماء اسلام کا ایک وفد آیاتھا جبکہ اس سے کچھ دنوں قبل مولانا ارشد مدنی صاحب کی دعوت پر پاکستان سے ایک وفد آیاتھا وہ اس سے قد رے مختلف تھا اور اس میں جمعیۃ علماء اسلام کے اکابرین نہیں تھے۔
پاکستان کی سرزمین پر جمعیۃ علماء اسلام کے بینر تلے جمعیۃ علماء ہند کاجشن صدسالہ اور یہ عظیم اجتماع بہت اہمیت کا حامل اورلائق صد ستائش ہے ،دونظریہ کے حامل علماء کے ایک ساتھ بیٹھنے میں ملت اسلامیہ کیلئے اتحاد کا اہم پیغام ہے اور مولانا فضل الرحمن صاحب اس کیلئے لائق صد مبارکباد ہیں ،ممکن ہے جمعیۃ علماء ہند بھی جشن صدسالہ منائے گی ،کچھ دنوں سے اس طرح کی خبربھی گردش کررہی ہے تاہم اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ اس صدسالہ میں یہاں کی دونوں جمیعۃ شریک رہے گی یا پاکستان کی جمیعۃ علماء اسلام کے ساتھ یہ جشن منایاجائے گا۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com