فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
بد دینی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ شریعت کامذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے، ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان شرعی مسلہ میں کچھ بولنے سے ڈرتا تھا، بنا واقفیت کے شرعی احکام کے سلسلہ میں کوئی تبصرہ نہیں کرتا، پر اس مارڈرن زمانے کے کچھ مسلمان اس قدر بددین اور جری ہوگئے ہیں شریعت سے جھالت کے باوجود شرعی احکام میں رائے زنی شروع کرکے اپنی آخرت کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ھیں، میں صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں اسلامی وضع و قطع سے عاری، مغربی تہذیب میں ملبوس شخص کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احکام میں تبصرہ کا کوئی اختیار نہیں ، شرعی احکام کوئی کھیل کا میدان یا سیاسی جنگ نہیں کہ ہر کس و ناکس اس پر تبصرہ کرے، قرآن و حدیث میں بصیرت رکھنے والے معزز علماء کرام ہی طلاق ثلاثہ اور حلالہ وغیرہ پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث ومباحثہ کے مجاز ہیں،
شریعت کے احکام کا مدار قرآن و حدیث پر ہے، شرعی احکام عقل سے ماوراء ھیں، رہا مسلہ تین طلاق تو اس کا ذکر قرآن میں ہے، اولاً قرآن میں سورہ بقرہ میں ہے، الطلاق مرتن، یعنی طلاق دو ہے، پھر کچھ آگے اللہ کا ارشاد ہے، فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح. البقرہ، ترجمہ. اگر شوہر نے تیسری طلاق دیا تو عورت کے لئے شوہر حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے شادی کرے، اور تسریح باحسان سے بھی تیسری طلاق مراد ہے ابوبکر جصاصؒ نے اس اجماع نقل کیا ہے اور آگے فان طلقھا اسی کا بیان ہے،
اس آیت سے پتہ چلا کہ تین طلاق کے بعد بیوی شوہر کے لئے حرام ہوگئی، تین طلاق کا ذکر تو خود قرآن میں ہے اور رہا مسئلہ ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ تو یہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہے، مشہور محدث شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھا، ” و ایقاع الثلاث للاجماع الذی انعقد فی عھد عمر علی ذلک ولا یحفظ ان احدا فی عھد عمر خالفہ فی واحد منھا، فتح الباری. جلد ۹.صفحہ. ۳۶۵ ” یعنی اور ایک مجلس کی تین طلاق کا تین واقع ہونا حضرات صحابہ کرامؓ کے اس اجماع کی وجہ سے ہے جو خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں منعقد ہوا اور تمام صحابہ نے اس پر اتفاق کیا کسی کا کوئی اختلاف نہیں، اور اجماع کا حجت شرعیہ ہے، اجماع کا ثبوت قرآن سے ہے فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے قرآن کریم کی سب سے بڑی تفسیر میں متعدد آیات کے ذریعہ اجماع کو ثابت کیا ہے لہذا اجماع سے جو چیز ثابت ہوئی اس کا تعلق بھی قرآن سے ہوا، اور تین طلاق تو صراحۃً قرآن سے ثابت ہوئی،
میں شوشل میڈیا کے ذریعہ ان لوگوں جو تین طلاق کو قرآن سے خارج مان رہے ہیں، اپنی جہالت اور شریعت سے نادانی کا ثبوت نہ دیں، قرآن کا بغور مطالعہ کریں تین طلاق کا تذکرہ قرآن ہی میں مل جائے گا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کا عمل بھی ایک مجلس کی تین طلاق میں تین ہی پر تھا، اور رہے ہمارے معزز علماء تو وہ قرآن و حدیث کے احکام کو ہی بتاتے ہیں، اپنے گھر سے کوئی بات نہیں کہتے،
میں مسلم لاء بورڈ کے صدر تک شوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ یہ پیغام پہونچانا چاہتاہوں، اپنی تحریک کو مزید قوت کے ساتھ آگے بڑھائیں اور مسلم نوجوانوں کو طلاق کے احکام سے آگاہ کریں، اللہ رب العزت مسلمانوں کو شریعت کا پابند بنائے …. آمین …