ریاض (ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عرب اور مسلم ممالک کو امن وسلامتی قائم کرنے کی اپیل کرکے آج اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ملک اسرائیل کی جانب روانہ ہوگئے ہیں، العربیہ کے مطابق ان کے دورے کا مقصد فلسطینی اسرائیلی امن عمل کو پھر سے زندہ کرنا ہے تاہم یہ خیال ہے جس میں سچائی کہیں نظر نہیں آرہی ہے ،عرب کے دورہ کے بعد اسرائیل کا دورہ خود لمحہ فکریہ ہے۔
آئندہ دو روز کے دوران ٹرمپ فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتنیاہو سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر بیت المقدس میں خطاب بھی کریں گے۔ بعد ازاں وہ روم روانہ ہو جائیں گے اور پھر برسلز جائیں گے۔
ٹرمپ اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کے واسطے بطور وساطت کار وہ سب کچھ کریں گے جو مطلوب ہوگا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا کہ طویل عرصے سے موقوف مذاکرات کا سلسلہ پھر سے کس طرح شروع کیا جائے گا۔
رواں ماہ کے اوائل میں واشنگٹن میں فلسطینی صدر کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے دو ریاستی حل کا پابند ہونے سے تقریبا انکار ہی کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ کئی دہائیوں سے جاری تنازع کے سلسلے میں دو ریاستی حل طویل عرصے سے امریکی پالیسی کی بنیاد رہا ہے۔ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو فوری طور پر تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے بھی انکار کیا جس کا مطالبہ اسرائیل کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے گزشتہ ہفتے ایک برطانوی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ اب بھی سفارت خانے کی منتقلی سے متعلق اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے عہد کے پابند ہیں تاہم انہوں نے حالیہ دورے کے دوران اس کے اعلان کا نہیں سوچا ہے۔
اسرائیل نے کل اتوار کے روز فلسطینیوں کے لیے بعض رعایتیں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ” سکیورٹی کابینہ نے بعض اقتصادی اقدامات کی مں ظوری دے دی ہے جن سے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں میں روز مرہ کی زندگی میں آسانی پیدا ہو گی۔ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اعتماد سازی کے واسطے بعض اقدامات کا مطالبہ کیا تھا”۔
ان رعایتوں میں مغربی کنارے کے شمال میں الجلمہ اور جنوب میں ترقومیا کے علاقوں میں دو صنعتی زون کا قیام اور مغربی کنارے کو اردن سے جوڑنے والی گزرگاہ کو روزانہ 24 گھنٹے کھولے رکھنا شامل ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مکمل زیرِ کں ٹرول اْن علاقوں میں فلسطینی تعمیر پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی کرے گا جو فلسطینی شہری علاقوں کے مقابل واقع ہیں۔مذکورہ رعایتوں کے علاوہ اسرائیل کی چھوٹی سکیورٹی کابینہ نے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباکاروں کی جانب سے سرکاری اجازت کے بغیر کی جانے والی تعمیرات کا معائنہ کرے گی۔
یہودی آبادکار گزشتہ کئی برسوں کے دوران حکومتی منظوری کے بغیر ٹیلوں پر درجنوں ٹھکانوں کی تعمیر کر چکے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک سرکاری منظوری سے تعمیر شدہ بستیوں سمیت اسرائیل کی تمام بستیوں کو غیر قانونی شمار کرتے ہیں