واشنگٹن،9؍جنوری (آئی این ایس انڈیا)
نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہی پیرس کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کی کوشش نے نئے خوف پیدا کر دیے ہیں تاہم انسداد دہشت گردی حکام کو سن 2016 کے دوران یورپ میں زیادہ خطرناک حملوں کا اندیشہ ہے۔گزشتہ برس تیرہ نومبر کو پیرس میں ہوئے خونریز حملوں کے نتیجے میں 130 افراد مارے گئے تھے۔ انتہا پسند گروہ داعش کے جہادیوں نے ان حملوں میں جدید ہتھیاروں سے عوامی مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے یورپی طرز زندگی پر حملہ کیا تھا۔
امریکی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اشتعال انگیز بیان بازی کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دنیا بھر میں مسلمان خوشی سے دیوانے ہو گئے تھے۔
پیرس حملوں نے نہ صرف فرانس بلکہ یورپ بھر کو ایک صدمے میں مبتلا کر دیا تھا۔ رنگوں اور خوشبوؤں کے شہر پیرس میں ایسی واردات جدید یورپ کے لیے ایک انتہائی انہونی بات تھی۔ تاہم انسداد دہشت گردی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سن 2016 میں یورپ کو ایسے مزید خطرناک حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، بدقسمتی سے سن 2015 میں جو ہوا، وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ہم یورپ کے نائن الیون کی طرف بڑھ رہے ہیں، یعنی ایک ہی دن متعدد شہریوں میں مختلف مقامات پر منظم سلسلہ وار حملے۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گرد اس طرح کے حملوں کی منصوبہ بندی میں ہیں۔
اس اہلکار نے مزید کہا ہے کہ شام اور عراق میں فعال جہادی گروہ داعش یورپی باشندوں کی بھرتی اور ان کی تربیت کا کام کر رہا ہے۔ داعش کا مقصد ہے کہ تربیت کے بعد ان جنگجوؤں کو واپس ان کے ممالک روانہ کر دیا جائے، جہاں وہ اس طرح کے خونریز حملے کر سکیں۔
اس اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی خفیہ اداروں نے ایسے متعدد حملوں کی منصوبہ بندی ناکام بنائی ہے لیکن یہ اعتراف ضروری ہے کہ یورپی سکیورٹی ادارے مغلوب ہو رہے ہیں، یوں ایسے جہادی حملوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور کچھ پہلے ہی اپنے اہداف حاصل کر چکے ہیں۔
خود کش حملہ آوروں سے نمٹنا آسان کام نہیں ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ افراد کی ہلاکت چاہتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے فرانس کو ایک نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔فرانس کی ایلیٹ پولیس فورس GIGN کے سربراہ کرنل ہوبرٹ بونیؤ نے تیرہ نومبر کو پیرس کے باٹاکلاں کنسرٹ ہال پر ہوئے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جہادیوں نے صرف بیس منٹ میں نوّے افراد کو ہلاک کیا۔ انہوں نے کہا کہ جتنی دیر سکیورٹی فورسز نے اس ہال کا نقشہ اور جہادیوں کی پوزیشنیں سمجھنے کی کوشش کی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
کرنل ہوبرٹ بونیؤ کے مطابق ایسے حملہ آور شہریوں کو ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہیں، جس سے سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں سست روی پیدا ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیرس حملوں سے سبق سیکھا گیا ہے کہ آئندہ ایسی کسی صورتحال میں سکیورٹی فورسز کو فوری اور سرجیکل کارروائی کرنا ہو گی۔
فرانسیسی خفیہ ادارے DGSE کے سابق تجزیہ کار ایو ٹروٹینیوں کے مطابق جہادیوں کے منظم اور سلسلہ وار حملے انتہائی بڑی تباہی کا سبب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک کے بڑے شہروں میں سکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیوں کے مابین انتہائی اچھی رابطہ کاری جاری ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حملہ آور بھی نئے تراکیب اور حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں مزید حملوں سے خبردار کرتے ہوئے ایو ٹروٹینیوں نے بھی خدشہ ظاہر کیا، شاید گزشتہ برس جہادیوں کے ایسے حملے صرف ایک ریہرسل تھی۔ گزشتہ برس پیرس میں دو بڑے حملے کیے گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد فرانسیسی حکومت انتہائی چوکنا ہے لیکن کیا وہ مستقبل کے خطروں سے نمٹ سکے گی، اس بارے میں عوام میں بھی ایک بے چینی نمایاں ہے۔