مہاجرین کی خواتین کے احترام کے لیے خصوصی تربیت

برلن،9؍جنوری(آئی این ایس انڈیا)
خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سے بچنے اور مقامی طور طریقوں و ثقافت کی آگہی کے لیے یورپی ریاست ناروے میں پناہ گزینوں کے لیے خصوصی کورسز کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ناروے میں پناہ گزینوں کے مراکز کی منتظم ایک کمپنی ہیرو سے وابستہ لنڈل ہیگن کا کہنا ہے کہ اِن کورسز کا مقصد یہ ہے کہ مہاجرین ناروے کی ثقافت کو سمجھتے وقت غلطیاں نہ کریں۔ اُن کے بقول ناروے کا معاشرہ آزاد ہے اور وہاں ایسے رجحانات اور چیزوں کی برداشت ہونی چاہیے، جو مذہبی یا ثقافتی طور پر مختلف ہوں۔
یہ پیش رفت جرمنی میں نئے سال کی آمد کے موقع پر لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد رونما ہوئی ہے۔ اکتیس دسمبر کی رات کولون شہر کے مرکزی ٹرین اسٹیشن پر بظاہر عرب اور افریقی دکھائی دینے والے سینکڑوں نوجوانوں نے خواتین کے ساتھ بد تمیزی اور لوٹ مار کی۔ اِس واقعے کے بعد جرمنی اور یورپ کے دیگر کئی ملکوں میں پناہ گزینوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
ناروے میں سن 2009 اور 2011ء کے درمیان جنوب مغربی شہر اسٹراوینگر میں غیر ملکیوں کے ہاتھوں خواتین کی آبروریزی کے متعدد واقعات رپورٹ کیے گئے تھے اور اِنہی واقعات کے بعد ہیرو کی جانب سے یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اب اِس کورس کو مہاجرین کے بحران کی لہر میں ناروے پہنچنے والے پناہ گزینوں کے لیے شروع کیا جا رہا ہے۔
ایک اور یورپی ریاست بیلجیئم نے بھی جمعے کے روز اعلان کیا ہے کہ ناروے کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے وہاں پہنچنے والے تارکین وطن کے لیے بھی اِسی طرز کے کورسز متعارف کرائے جائیں گے۔ مہاجرت اور سیاسی پناہ سے متعلق امور کے سیکرٹری تھیو فرانکن نے دارالحکومت برسلز میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کورس میں صرف خواتین کے احترام پر ہی نہیں بلکہ دیگر ثقافتی و معاشرتی امور پر بھی معلومات شامل ہوں گی۔
دوسری جانب مہاجرت کے مخالف گروپ ہیومن رائٹس سروس کی ہیگے اسٹروہوگ کا کہنا ہے کہ آئندہ برسوں میں خواتین کے ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اُن کے بقول نوجوان نسل کے اکثریتی مسلمان مہاجر عورتوں کو محض جنسی اشیاء سمجھتے ہیں یا انہیں کافی کم تر مانتے ہیں۔
نفسیاتی ماہر پیئر اسڈال کا خیال ہے کہ خواتین کے خلاف ممکنہ جنسی حملوں کو روکنے کے لیے صرف کورسز کافی نہیں۔ انہوں نے کہا، مردوں کو جنسی طرز کے حملوں سے باز رکھنے کے لیے ملازمت، رہائش کا انتظام مہیا کرنا ہوگا جبکہ غربت کا خاتمہ بھی لازمی ہے۔ اسڈال نے آلٹرنیٹو ٹُو وائلنس نامی ایک تنظیم کے ساتھ ایک وسیع تر پروگرام شروع کیا ہے، جو ڈائیلاگ گروپس پر مشتمل ہے یعنی جس کے ذریعے لوگ بات چیت کے ذریعے سیکھ سکتے ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے لوگ کسی استاد کے بغیر صرف بات چیت کی مدد سے ایک دوسرے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

SHARE