سیکولزم سے اٹھتا اعتماد

سر دیوار : نزہت جہاں
بہار بدل گیا ہے ، سیاست بدل گئی ہے ، نظریہ اور اصول بدل گیا ہے ، جس بہار نے 2015 میں مودی کی فتح کے رتھ کو روکا تھا ،جس نے دہلی کی سیاست ایک نئی تصویر پیش کی تھی ، جس بہار کو پورا ہندوستان سلام کررہا تھا آج وہاں سب کچھ بدل گیا ہے، بہار کے ڈی این اے میں خرابی ثابت ہوگئی ہے، نریندر مودی کی بات سچ ثابت ہوگئی ہے، جس پارٹی کو بہار کی ستر فیصد آبادی نے مسترد کردیا تھا آج وہی پچھلے دروازے سے حکومت میں آگئی ہے ، سنگھ کے سامنے نتیش کمار نے گھٹنا ٹیک دیا ہے ، عظیم اتحاد سے رشتہ توڑ کر انہوں نے اپنی گھر واپسی کرالی ہے ، مودی کے نام سے این ڈی اے کو 2013 میں چھوڑ دینے والے نتیش کمار آج اسی مودی کی تعریف کے پل باندھ رہے ہیں ، کبھی نتیش کمار خود وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے آج انہوں نے اپنے سیاسی حریف کے سامنے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنا سب کچھ انہیں سونپ دیا ہے، 2019 میں وہ انہیں کو وزیر اعظم بھی بنانا چاہتے ہیں ۔
سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتاہے، کون کب کا دشمن اور کس کا دوست بن جائے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے، لیکن نتیش کمار نے جو کچھ کیا ہے اسے سیاست کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ، نتیش کمار نے بہار کی عوام کو دھوکہ دیاہے ،ان کے جذبات کی توہین کی ہے، افکار و نظریات کی سیاست کو سخت ٹھیس پہونچی ہے ، کڑوروں ووٹرس غمزدہ اور رنجیدہ ہیں، کیوں کہ سیکولرزم سے اعتماد اٹھ گیا ہے، سیکولر پارٹیوں پر اب یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔
بہار میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس کی اسکرپٹ بہت پہلی لکھی جاچکی تھی ، نتیش کمار شروع سے نریندر مودی اور بی جے پی کی حمایت کررہے تھے ، 2015 میں نتیش کمار اور نریندر مودی دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں میں مصروف تھے، ایک دوسرے پر طنز کا نشتر چلا رہے تھے ،2013 میں نتیش کمار این ڈی اے سے محض اس بنیاد پر الگ ہوئے تھے کہ ان پر نریندر مودی کو ترجیح دےدی گئی ،نتیش کمار کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن چار سالوں بعد جرأت و بہادری کا مظاہر ہ کرنے والے نتیش کمار نے گھٹنے ٹیک کر پورے بہار کو شرمندہ کردیا، جنگ لڑنے سے پہلے ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیا، کم از کم وزیر اعلی نتیش کمار سے ایسی امید اور توقع نہیں تھی ۔
بہار کے سیاسی بحران کے بعد 2019 کی تصویر مکمل طور پر بدلی ہوئی نظر آرہی ہے، پہلی کچھ دھندلی تھی لیکن اب مکمل طور پر صاف ہوگئی ہے ،نتیش کمار اپوزیشن کا اہم چہرہ تھے، ان سے بہت امیدیں تھی ، عوام انہیں نریندر مودی کے مقابلہ میں لانا چاہ رہی تھیں، نتیش سے یہ توقع تھی کہ 2019 میں وہ نتیش کمار کا مقابلہ کریں گے ،جس طرح انہوں نے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ہر ممکن کوششوں کے باوجود ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ملکر سیکولزم کو فروغ دیا ، وہ اسے مزید بڑھائیں گے اور فاشزم کے بڑھتے قدم کو روکیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں نتیش کمار کا دور اقتدار قابل تعریف اور بہار کی تاریخ میں اہمیت کا حامل رہاہے ،نتیش کمار کے آنے کے بعد بہار کی چوطرفہ ترقی ہوئی ہے ، سڑکوں کی حالت بہتر ہوئی، غریبوں، مزدوروں اور کمزوروں کو مختلف طرح کی اسکمیں دی گئیں ، تعلیمی شعبے میں نمایاں کار کردگی انجام دی گئی، بچوں میں تعلیمی بیداری آئی ،غریب کے بچوں نے اسکول جانا شروع کیا ،ملازمت اور روزگار بھی دیئے گئے ،اس طرح مجموعی طور پر نتیش کمار کا دور اقتدار بہتر اور قابل تعریف رہاہے ،لیکن صوبے کی ترقی کے ساتھ نظریاتی ترقی اور افکار کی درستگی بھی ضروری ہے ۔نتیش کمار پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ تھے،ستر سالوں تک وہ این ڈی اے میں شریک تھے ،جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل کیا گیا ،بے گناہوں کو مارا گیا ،خواتین کی عصمت دری کی گئی ،حاملہ خواتین کے پیٹ سے بچے نکال کر ذبح کردیئے گئے ،تونتیش کمار صاحب وزیر ریل تھے ،اس وقت ان کی ضمیر کی آواز نہیں جاگی ،انہیں افسوس نہیں ہوا ،2013 میں جب ان کے خوابوں کا خون کردیاگیا،انہیں وزیر اعظم کا امیدوار نہیں بنایاگیا تو این ڈی اے سے نکل گئے ،2015 میں اقتدار تک پہونچنے اور وزیر اعلی کی کرسی حاصل کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد کا راگ الاپا ،لالو کے ساتھ ہاتھ ملایا ،وزیر اعلی بننے کیلئے لالوپر سادیادو اور ملائم سنگھ کی خوب منت وسماجت کی ،اس طرح انہیں ایک مرتبہ اور وزیر اعلی بننے کا موقع مل گیا لیکن جب انہیں اپنا قدیہاں چھوٹا ہوتانظر آیا ،انہیں لگا لالو ہم پر حاوی ہوجائیں گے ،آئندہ انتخابات میں تیجسوی کو وزیر اعلی بنانے کا مطالبہ ہوگا اس لئے انہوں نے پہلے ہی اپنار استہ صاف کرلیا اور بی جے پی سے جاکر مل گئے ایسے وقت میں جب بی جے پی کی پالیسی ماضی سے بہت بدل گئی ہے ،موجودہ دور میں یہ بی جے پی کم اور آر ایس ایس زیادہ ہے ،بلکہ مکمل آر ایس ایس ہی ہے ،فاشزم اور فرقہ پرستی اہم ایجنڈہ ہے ،مسلمانوں اور اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایاجارہاہے ،گﺅ کشی کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو قتل کیا جارہاہے ،اب تک ستر کے قریب بے گناہوں کو گﺅرکشک دہشت گرد مارچکے ہیں،افسوس یہ ہے کہ ایسے مجرموں کے خلاف کوئی خاص کاروائی تک نہیں کی جاتی ہے ،وزیر اعظم نے عالمی میڈیا کے دباﺅمیں آکر مذمتی بیان جاکرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ،دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ مسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے ان مظالم کی بی جے پی کی جانب سے پشت پناہی ہورہی ہے ،مسلمانوں کو مارنے والے مجرمین کو ہر طرح کا سپورٹ کیا جارہاہے ،مسلمانوں کے درمیان خوف وہراس کا ماحول قائم کرنا ایک منظم منصوبہ بندی ہے ،دنیا بھر میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت اقلیت مخالف ہے ،نیو یارک ٹائمز جیسے اخبار نے یوپی کے زیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو دہشت گردکو لکھ دیا ،ایسے صورت حال میں نتیش کمار کا بی جے پی سے ملنا یہ بتاتاہے کہ ان کی ذہنیت کیا ہے ،وہ کس نظریہ کے حامی ہیں اور بہارکو بھی وہ ان ریاستوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہجومی تشدد اور دہشت گردی ہورہی ہے ،بھیڑ کے ہاتھوں قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں اور یہی ہواہے ،بی جے پی کے تعاون سے سرکار بنتے ہی گﺅرکشک حرکت میں آگئے ہیں،بھوجپور ضلع میں ایک ٹرک پر بیف لیجانے کے الزام میں حملہ کرکے بے دردی سے ٹرک کے ساتھ جارہے لوگوں کو ماراگیا ہے ۔
سیکولرزم اور فاشزم کو روکنے او ربی جے پی کی آئیڈیا لوجی کے خلاف مسلمانوں نے متحدہوکر 2015 میں عظیم اتحاد کو سپورٹ کیاتھا لیکن اب اس کا خاتمہ ہوچکاہے ، اپوزیش خیمہ کمزور نظر آرہاہے ،بی جے پی کانگریس مکت بھارت مشن میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکی ہے ،بہار میں لالو پرسادیادو پکے سیکولر کہے جاسکتے ہیں،یہ ان کا حوصلہ اور بہادری ہے کہ انہوں نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں،تمام تر الزامات او رمرکزی ایجنسیوں کو لگادیئے جانے کے باوجود وہ مودی جی کا مقابلہ کررہے ہیں،لیکن لالو جی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پریوار واد کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں،اس پورے معاملے میں لالو بھی ذمہ دارہیںکہ جب انہیں چار ماہ پہلے نتیش کمار کے ارادے کا علم ہوگیاتھاتو وہ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے کیوں رہ گئے،انہوں نے اس سلسلے میں کوئی پلاننگ کیوں نہیں کی ،جن دنوں تیجسوی یادو پر کرپشن کا الزام لگایا جارہاتھا اس موقع پر بھی لالو اپنی ضدپر اٹل نظر آئے ،اگر وہ تیجسوی کی جگہ کسی اور کونائب وزیر اعلی بنادیتے تو کم ازکم نتیش کی اصلیت اور واضح طور پر بے نقاب ہوجاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔(ملت ٹائمز)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں