بھگوا پرچم کے اقتدار کا بڑھتا تسلسل، تباہ کن مستقبل کی آہٹ

سردیوار: نزہت جہاں
گجرات میں بی جے پی کی جیت پر کسے مبارکباد دی جائے ای وی ایم کو یا نریندر مودی کو ۔ ای وی ایم کو میں ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی کیوں کہ اگر اپوزیشن کو ایسا لگ رہا تھاکہ وہ محفوظ نہیں ہے تو اسے مکمل بائیکاٹ کرنے چاہیئے تھا سوال یہ بھی ہے کہ اگر کانگریس جیت جاتی تو کیا وہ ای وی ایم پر سوال اٹھاتی تاہم یہ ترقی، وکاس اور عوامی فلاح وبہبود کی جیت نہیں بلکہ انتہاء پسندانہ نظریہ، فرقہ پرستی اور شدت پسندی کی جیت ہے ۔ نریندر مودی صاحب قابل مبارکبا ہیں جنہوں نے ہندوستان کے بدلتے سیاسی کلچر کا رخ ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر مندر مسجد اور مذہبی سیاست کی طرف موڑ دیاہے ۔ مسلسل ،فرقہ وارانہ کارڈ کھیل کر ، مسجد مندر کا تذکرہ کرکے، پاکستان کا نام لیکر وہ الیکشن جیت رہے ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ فکر اس لڑکی کی ہورہی ہے جس نے بہت جذباتی ہوکر راہل گاندھی کے ساتھ سیلفی لی تھی ، راہل گاندھی کی انٹری سب سے منحوس ثابت ہوئی اور اب کانگریس زوال کے نئے عہد کا سامنا کررہی ہے جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ ملت ٹائمز کی ایک رپوٹ کے مطابق گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کے جیتے ہی ملک کی کل 31 ریاستوں میں سے 18 پر اس کی حکومت ہوگئی ہے جبکہ کانکریس کا دائرہ صرف 5 صوبوں تک محدود ہوگیا ہے ۔
گجرات الیکشن کے نتائج نے یہ واضح کردیاہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کی جڑیں بہت گہری ہوگئی ہیں، انتہاء پسند نظریہ کے لوگ حاوی ہوچکے ہیں اور یہاں سے ملک کو نکلنے میں ابھی بہت وقت لگے گا ، اخلاق، پہلو خان اور محمد افرازل جیسا حشر ابھی بہت لوگوں کا ہوگا۔ گؤ کشی اور لوجہاد کے نام پر مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے گا ۔نیز اس نتیجہ کے بعد یہ توقع رکھنا اندھیر ے میں خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا کہ 2019 کے الیکشن میں بی جے پی کے علاوہ کوئی اور پارٹی حکومت بناپائے گی ۔
گجرات الیکشن کے نتائج پر بہت سارے تجزیہ کئے جارہے ہیں ، ایک تجزیہ ملت ٹائمز کے خاص کالم خبر در خبر میں بھی کیا گیاہے ۔ اس تجزیہ کا ایک پیرا گراف میں یہاں شامل کررہی ہوں۔
” گجرات میں کانگریس نے ہار نے کے باوجود اپنی کچھ شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ،ووٹ فیصد بڑھاہے ،بی جے پی کو اس نے کانٹے کی ٹکر دی ہے۔ اس پورے میں راہل گاندھی کی سب سے زیادہ تعریف ہورہی ہے کیوں کہ انہوں نے مودی کا مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، بی جے پی کو کانگریس مکت گجرات بنانے کے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیاہے اور نہ ہی 150 سیٹوں پر جیتنے کا خواب پورا ہونے دیاہے جس کا دعوی کیا جارہا تھا تاہم شکست شکست ہے۔ نوٹ بندی جیسی پریشانی، جی ایس ٹی کی مار ، فلاحی اور ترقیاتی کاموں کے فقدان، غربت کی شرح میں اضافہ، جی ڈی پی میں کمی اور ہر محاذ پر بحران کے باوجود اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو ملک کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ، یہ اندازہ ہورہا ہے کہ فرقہ پرستوں کا زور ابھی کم نہیں ہوا ہے ، انتہائی  پسندوں اور شدت پسند عناصر کا غلبہ برقرار ہے اور ایک بڑی تعداد ملک میں بی جے پی جیسی انتہائ پسند نظریہ کی حامل پارٹی کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اس بنیاد پر اگلے سال 8 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بہت بھی اہم ہوں گے ،ساتھ ہی 2019 کے عام انتخاب میں سیکولر پارٹیوں کی واپسی بہت مشکل اور کٹھن ہوگی“۔
اخیر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بہت عرصے کے بعد میں اپنے قارئین کے درمیان حاضر ہوئی ہوں، بہت سے لوگوں نے میسیج اور فون کرکے غیر حاضر ی کی وجہ بھی پوچھی اور محبت کا ثبوت پیش کیا ، سبھی کا شکریہ ،دراصل اس دوران اسکول اور دیگر کچھ ضروری مصروفیات کی وجہ سے بالکل ہی وقت نہیں مل پارہا تھا ، تاہم اب وعدہ ہے، آپ کے درمیان رہوں گی ، موقع بہ موقع کچھ لکھنے کی کوشش کروں گی ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹر اور بہار تعلیمی مرکز کی نائب صدر ہیں)