مفتی جسیم الدین قاسمی
آج دیوبند، مظفر نگر، دہلی اور آگرہ کے دس روزہ سفر کے بعد ممبئی واپسی ہوئی، دادر اسٹیشن پہ مجھے اترنا تھا لیکن میں گہری نیند میں تھا اور مری آنکھ اس وقت کھلی جب ریلوے کے ایک اسٹاف نے مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ جلدی اتریے سارے لوگ اتر چکے، میں جلدی سے اٹھا تو دیکھا کہ ڈبے میں کوئی بھی موجود نہیں ہے، میں نے جلدی جلدی چادر وغیرہ کوبیگ میں ڈالا اور باہر ہوگیا ۔ کچھ قدم چلنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ جیب ہلکی ہے، میں نے جب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ پرس غائب ہے جس میں دو اے ٹی ایم کارڈرس، کئی آئی ڈی فروفس، پین ڈرائیو اور پیسے تھے، میں تیزی کے ساتھ واپس اپنے کمپارٹمنٹ میں گیا تو دیکھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں تھا، میں نے ادھر ادھر دیکھا پھر افسردہ چہرے کے ساتھ جونہی باہر آنے والا تھا کہ بکھرے ہوئے گندے بالوں والے ایک درویش نے آواز دی ‘اجی کیا ہوگیا، کیا تلاش رہے ہو جی’ میں نے کہا پرس ڈھونڈ رہا ہوں، تو اس نے فورا پرس نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ہے جی ‘ میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا ‘لے لو جی، اور میں فقیر آدمی ہوں کچھ پیسے مجھے دےدو’ میں نے اسے کچھ پیسے دئے اور اس کاشکریہ ادا کرکے یہ سوچتے ہوئے روانہ ہوگیا کہ یقینا آج بھی ایسے ایماندار لوگ موجو ہیں جو محتاج ضرور ہیں لیکن لالچی، چور و بےایمان نہیں ہیں۔
اس سے پہلے جب میں اٹارسی پہنچا تھا تو ایک جگہ میں نے کھانے کا سامان لیا اور پیسے دیے، دکاندار نے دس روپے لیکر باقی پیسے واپس کردیے، دو منٹ کے بعد میں دوبارہ گیا اور پھر وہی سامان خریدا تو اس دفعہ انہوں نے تیس روپے لیے، میں نے کہا کہ پھر آپ نے شاید غلطی سے پہلی دفعہ میں صرف دس روپے لئے تھے، تو اس نے کہا مجھے یاد نہیں، تو میں نے اسے بیس روپے اور دے دیے ۔
مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے اسی ایمانداری کا صلہ دیا اوپرکے واقعے کی شکل میں۔
“کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پہ، خُدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پہ”
اسی سفر میں،آگرہ میں تاج محل میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے وہاں آگرہ کے مشہور تین پیکٹ پیٹھے خریدے، بعد میں پتہ چلا کہ ہم اسے لیکر تاج محل کے اندر داخل نہیں ہوسکتے تو ہم نے دکاندار سے درخواست کی کہ آپ اسے رکھ لیں ہم واپسی میں لے لیں گے، وہ راضی ہوگیے، واپسی میں ہمیں دیر ہو گئی، جب ہم دوبارہ اس دکان پہ پہنچے تو دیکھا کہ دکان بند ہوچکی ہے، میں نے ایک صاحب سے معلوم کیا تو اس نے دکان کے مالک سے ہمیں ملوایا، انہوں نے کہا کہ کونسا پیٹھا تھا، تھیلی میں پیک کروائے تھے یا نہیں، میں نے اس کا جواب دیا تو انہوں نے ایک دوسرے نوکر سے کہا کہ جاکر دیکھو دکان میں ان کا سامان ہے؟ نوکر نے دیکھنے بعد کہا کہ نہیں ہے تو اس دکان کے مالک نے جو ہندو تھا کہا کہ اگر نہیں ہے تب بھی انہیں اتنی قیمت کے پیٹھے الگ سے دیدو ۔
ایمانداری، اعتماد اور حسن اخلاق ہی در اصل وہ دولت یے جس سے ایک تاجر کامیاب تاجر بن سکتا ہے۔
آگرہ کا سفر کافی یاد گار رہے گا۔ اس سفر کے دوران ہندستان کے مشہور و مستند اداروں میں سے ایک دارالعلوم آگرہ کے مہمان خانہ میں قیام رہا جہاں ہمارے میزبان تھے میرے رفیق درس مفتی مظفر قاسمی صاحب، مفتی صاحب دوران طالب علمی میں بھی اپنی شرافت، سنجیدگی اور دینداری کی وجہ اپنے ساتھیوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے، انہوں نے کافی اچھی ضیافت۔ ادارے کے ذمہ دار نمونہ اسلاف حضرت مولانا برکت اللہ صاحب سے بھی اچھی ملاقات ہوئی اور ادارے کے احوال کوائف سے انہوں نے ہمیں واقف کرایا۔حضرت مہتمم صاحب کی سادہ مزاجی اور 80 سال کے ہونے کے باوجود ادارے کی تنظیم و ترقی کے لیے ان کی جدوجہد ہم نوجوانوں کے لئے یقینا سبق آموز ہے، اس عمر میں بھی جب کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے انہیں چلنے میں کافی دشواری ہوتی ہے وہ ادارے کی فکر کو لیکر دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور سالانہ تقریبا ڈیڑھ کروڑ کے بجٹ کا انتظام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ امت پہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے اور ان کی خدمات کو قبول فرماکر انہیں اجر عظیم سے نوازے۔
دہلی کے سفر میں میرے ایک بے حد قریبی دوست اور رفیق درس مفتی دلشاد قاسمی سے بھی کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی اپنے سخاوتی مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ہمیں فیملی سمیت اپنے دولت خانہ پہ مدعو کرکے عزت سے نوازا۔ دیوبند کے سفرمیں مشہور صحافی و قلمکار جن کی قلمی صلاحیت کا میں زمانہ طالب علمی سے ہی معترف ہوں، سے خصوصی ملاقات ہوئی اور ان کے واسطے سےمحدث کبیرحضرت مولانا اسلام صاحب استاذ دارالعلوم وقف کے گھر پرحضرت مولانا نسیم شاہ قیصر کے ساتھ پرتکلف دعوت سے بھی لطف انداز ہونے کا شرف حاصل ہوا، ساتھ ہی اپنے مخلص اساتذہ کرام مفتی اسعد قاسمی و مولانا توقیرقاسمی کے یہاں بھی دعوت کھانے کی سعادت حاصل ہوئی اور رفقاء درس مفتی سجاد قاسمی، مولانا امجد قاسمی، مفتی مفتاح قاسمی اورتلمیذ خاص مولانا اسجد قاسمی وغیرہ کی معیت میں کچھ پرانی یادوں کو خوشگوار ماحول میں تازہ کرنے کا موقع ملا نیز قاری یونس صاحب کے مدرسے کی بھی زیارت ہوئی جہاں طلبہ کی کارکردگی دیکھ کردل باغ باغ ہوگیا۔ ان تمام اصحاب نیک طینت کو اللہ جزائے خیر عطا فرمائے۔
(مضمون نگار مرکزالعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی کے استاذ ہیں )