شمس تبریز قاسمی
دہلی کی سڑکیں مسلمانان ہند کے خون سے لالہ زارہوررہی تھیں ۔ چاندی چوک سے لیکر لاہورتک سڑک کنارے درختوں پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی تھیں ۔ دہلی کی جامع مسجد کا زینہ قبرستان کی عکاسی کررہا تھا ، علماء کو چن چن کو توپوں سے اڑایا جارہا تھا۔ مغل شہزادوں اور شاہی خاندان کے لئے زمین تنگ کی جاچکی تھی ۔مسلمانوں کا کھلی فضا میں سانس لینا محال تھا ۔ ہروہ شخص جس کے بارے میں یہ پتہ چلتا کہ مسلمان ہے اسے قتل کردیا جاتا ۔شریعت کے احکامات پر عمل کرنا اور مسلمان بن کررہنا ایک خواب بن کر رہ گیا تھا جس کی تعبیر مشکل نظر آرہی تھی ۔یہ منظر 1857اور اس کے بعد کے ہندوستان کا ہے۔ جسے پڑھتے وقت آنکھوں سے آنسوؤں کے قطار لگ جاتے ہیں ۔ د ل و دماغ پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمان بالکل یتیم ہوگئے تھے۔ خدائے پا ک کے سواان کا کوئی سہارااور آسرا نہیں تھا۔حالات کی بے بسی نے مسلمانوں کو ہر محاذ پر ناکامی کا شکار بنادیا تھا ۔ خانماں برباد قوم اپنے دین و مذہب سے دور ہوتی جارہی تھی ۔ شریعت کے پابند اور علوم اسلامیہ کے ماہرین قتل کے گھاٹ اتارے جاچکے تھے اور جو باقی بچے تھے انہیں اپنے مذہب سے دور کرکے عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کی ناپاک سازش ہورہی تھی ، یا پھر انگریزی تعلیم اور کلچر کا شیدائی بناکر مسلمان کی شکل میں انگریز پیداکرنے کی حکمت عملی اپنائی جارہی تھی ۔گویاہندوستان کا یہ دور انتہائی نفسانفسی کا اور کشمکش کا تھا ، ہر طرف قیامت خیز منظر بر پا تھالیکن اسی شورش زدہ ماحول اور قیامت خیز منظر کے دوران تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی ، 15 محرم الحرام 1283 مطابق 30مئی 1866 بروز جمعرات کو دہلی سے جانب شمال میں 90 میل کے فاصلہ پر واقع سزمین دیوبند میں دارالعلوم دیوبند کی شکل میں مسلم نشاۃ ثانیہ کا قیام عمل میں آیا اور سقوط دہلی کے بعد اسے برصغیر کے مسلمانوں کا تہذیبی ، ثقافتی اور تعلیمی مرکز بننے کا شرف حاصل ہوا ۔
اس تحریک کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں کے ناپاک وجود سے نجات دلانا،آزادی ضمیر اور اعلائے کلمۃ الحق۔ مسلمانوں کو ایک جمہوری عوامی تنظیم میں پرونے کی جدوجہد کرنا۔- حضرت شاہ ولی اﷲ دھلویؒ کے مسلک کی حفاظت واشاعت۔ مسلم معاشرے سے خود غرضی اور استبداد کا خاتمہ۔ علوم دینی کا احیاء ، علوم عقلیہ کی صحیح ترتیب ،دین میں مہارت کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کے تقاضے پورے کرنے والے علماء تیار کرنا تھا۔ جس پر دارالعلوم دیوبند روز اول سے گامزن ہوگیااور ہندوستان کی آزادی سے لے کر اسلامی شعاری کی بقاتک اپنی جد وجہدجاررکھی ،ان پر آشوب حالات میں بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی نے امت کی نگہبانی کا بے مثل فریضہ انجام دیا ۔ ہرزاویے سے مسلمانو ں کی رہنمائی اور ان کی قیادت کابیڑہ اٹھا ۔ اسلام کا فروغ ، شریعت کا تحفظ اور انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی پر وہ بیک وقت عمل پیرا ہوگئے ۔انہودں نے انگریزوں سے بھی جنگ کی اور شریعت کے تحفظ کے لئے ملکی سطح پر عالم گیر تحریک چلائی۔ ان کی تحریک ان کی زندگی کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار ہوئی اور وہ دن آگیا جب مسلمان مذہبی شعار کے پابند ہوگئے ۔ ملک کے چپے چپے میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیل گیا دوسری طرف ایک طویل جد وجہد کی بعد اس ملک کو انگریزوں کے ناپاک تسلط سے آزادی نصیب ہوئی ۔
آج اگر بر صغیر میں اسلامی نقوش وآثار باقی ہیں تو یہ دارالعلوم دیوبند کی ہی دین ہے۔جو اپنی سابقہ روایات اور مکمل آب و تاب کے ساتھ الحمد للہ آج تک باقی ہے اور تاقیامت رہے گا انشاء اللہ تعالی۔ 15 محرم الحرام 1437 کو اپنی زندگی کا 154 واں سال پورا کررہاہے۔ انگریزی سال کے اعتبار کریں تو اسے 149 سال ہوچکے ہیں اور 30 مئی 2016 میں ایک سو پچاس سال150سال پورے ہوجائیں گے۔
دارالعلوم دیونبد کے عظمت و تقدس اور اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قیامِ دارالعلوم کی سعی وکوششوں سے لے کر انتخابِ طلبہ تک کے تمام امور غیبی پیشین گوئیوں اور الہامات ربانیہ پرمشتمل ہیں۔چناں چہ مبشرات غیبیہ کا یہ سلسلہ 1818 سے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔احمد شہید بریلویؒ بسلسلہ جہادصوبہ سرحد جاتے ہوئے دیوبند سے گزرتے ہیں تو اس جگہ پہنچ کر جہاں آج دارالعلوم واقع ہے فرماتے ہین ’’ یہاں سے علم کی خوشبو آرہی ہے‘‘۔ قیام دارالعلوم سے قبل حجۃ الاسلام مولانا قاسم ناناتوی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ میں بیت اللہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ پیروں کی انگلیوں سے نہریں جاری ہوکر اطرافِ عالم میں پھیل رہی ہیں، اس کی تعبیر اس دور کے بزرگوں نے یہ دی کہ آپ کی ذات گرامی اطرافِ عالم میں علوم نبوت کے فیضان کا باعث بنے گی چنانچہ 1866 میں یہ خواب بشکل دارالعلوم (مدرسہ عربیہ) شرمندہ تعبیر ہوگیا۔
مسجد چھتہ میں نو سالوں تک تدریس کے بعد جب نوبت بنائے دارالعلوم تک پہنچی تو ایماء ربانی نے یہاں بھی رہنمائی فرمائی ۔حضرت مولانا رفیع صاحب دیوبندی نے خواب دیکھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ دست مبارک میں عصاء ہے جس سے نشان لگا کر فرمایا کہ بنیاد یہاں سے رکھی جائے۔ بیداری کے بعد جب مولانا ممدوح اس جگہ تشریف لے گئے تو نشانات بعینہ موجود تھے چنانچہ ایمائے نبوی کے عین مطابق بنیاد کھودی گئی اور احاطہ مولسری میں نودرہ کی شکل میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ۔اسی الہامی امور میں مولانا رفیع الدین صاحب کا یہ واقعہ بھی ہے شامل ہے جو بتارہا ہے کہ دارالعلوم کے طلبہ من جانب اللہ منتخب ہوتے ہیں ۔واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ آپ دور اہتمام میں احاطہ مولسری میں کھڑے تھے کہ ایک طالب علم نے موقع غنیمت سمجھ کر کھانے کی شکایت کرڈالی، آپ نے اس کو بنظر غور دیکھ کر بڑے وثوق سے فرمایا کہ یہ مدرسہ کا طالب علم نہیں ہے، اس کے بعد رجسٹر چیک کیا گیا تو واقعی اس کا نام داخل طلبہ کی فہرست میں نہیں تھا۔طلبہ نے اس وثوق کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں نے ابتدائے اہتمام میں ایک خواب دیکھا تھا کہ مولسری کا کنواں دودھ سے لبریز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودھ تقسیم فرمارہے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ لے لے کر جارہے ہیں۔جب تعلیمی سال شروع ہوتا ہے تو میں ہر طالب علم کو پہچان لیتا ہوں کہ یہ بھی اس مجمع میں موجود تھا ،لیکن میں نے اس گستاخ طالب علم کو نہیں دیکھا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اس مقبول درسگاہ کے طلبہ کا انتخاب بھی انتخابِ غیبی ہی پر موقوف ہے محض اسباب ظاہری پر نہیں۔
یہی غیبی انتخاب تھا کہ جس کے باعث اس مادر علمی کے بطن نے حضرت شیخ الہند جیسے امام القائدین ،علامہ کشمیری جیسے فخر المحدثین ،علامہ عثمانی جیسے راس المفسرین ،حکیم الامّت جیسی مفکر ومدبر ،حکیم الاسلام جیسے خطیب،حضرت گیلانی جیسے ادیب ، حضرت کفایت اللہ جیسے فقیہ بے مثال ، حضرت شیخ الاسلام جیسے مجاہد آزادی ، مولانا منت اللہ رحمانی جیسے قائد ملت اور قاضی مجاہد الاسلام جیسی عظیم المرتبت ہستی کوکو جنم دیا ۔یہ وہ ہستیاں تھیں جو ازخود ایک دارالعلوم تھیں ،ایک انجمن تھیں، جنہوں نے تاریخ کے ہر موڑ پر امّت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی اور ہر دور میں باطل کا مقابلہ کیا خواہ باطل انگریزوں کی شکل میں آیا،پاسبانِ اصنام کا لبادہ اوڑھ کر ظاہر ہوا،غدران نبوت کی شکل میں نمودار ہوا ہو، یا بدعت و جہالت کی چادریں تان کر رونماہوا ۔
آج دنیا کے سامنے یہ سوال ہے کہ آسمان دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کو ئی اور آسمان ہے جس پر ان جیسے آفتاب و ماہتاب چمکتے ہوں اور سر زمین دارالعلوم دیوبند سے بڑھ کر اور کوئی سر زمین ایسی ہے جہاں ایسے سدابہار پھول کھلے ہوں۔بلاشبہ آج دنیائے اسلام میں ان ہی حضرات کی دھوم ہیں اور ان ہی کا چرچا ہے ان میں ہر شخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر آج کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے دنیا کو کیا دیا ؟ تو اس سے پہلے یہ الزامی سوال ہے کہ بتاؤ دارالعلوم نے دنیا کو کیا نہیں دیا؟ ۔ہندوستان کو آزادی کا تحفہ دیا ،اسلامی تہذیب و ثقافت کا چلن عام کیا ، مسلمانوں کو علم ، عمل ،اخلاص، ادب اور سیاست کی دولتوں سے مالامال کیا اورہر مقام پر ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ اسی حقیقت کا اعتراف امام حرم شیخ سعود الشریم نے یہ کہتے ہوئے کیا تھاکہ ہندوستان کی تاریخ دارالعلوم دیوبند کے بغیر نامکمل ہے اور شورش کاشمیر ی کو دارالعلوم کی انہیں روشن حقیقتوں کے پیش نظر یہ کہنا پڑاکہ
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
اس ہند کی زمین پہ ہے احسان مصطفی
گونجے گا چار کھونٹ اس نانوتوی کا نام
بانٹا ہے جس نے بادہ عرفان مصطف
(مضمون نگار معروف کالم نویس اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com