ڈاکٹر فرقان حمید
“ترکی کو پیار ہے پاکستان سے ” جی ہاں بالکل ایساہی ہے اور ترکی کبھی پاکستان سے ا پنی محبت اور چاہت کے اظہار کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ہی اس کا عملی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے کئی ایک دوست اور برادر ممالک ہیں لیکن پاکستان کی محبت کا رشتہ جو ترکی اور ترک باشندوں سے قائم ہےاور اسی طرح ترک اور ترکی پاکستان کی محبت کے سحر میں مبتلا ہیں اس کی دنیا بھر میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ترکی اس کرہ ارض میں واحد ملک ہے جو پاکستان کی ہر مشکل اور مصیبت کے وقت سب سے پہلے پاکستان کی مدد کو دوڑتا ہے ۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے عوام پاکستان اور پاکستان کے عوام کی محبت، چاہت اور انسیت میں مر مٹتے ہیں، شاید ہی اس قسم کا کوئی رشتہ دیگر ممالک کے درمیان قائم ہو۔ ستمبر 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے حکومتِ ترکی اور ترک باشندوں ہی نے بھارت کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا اور پاکستان کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اُس وقت کے ترکی کے وزیر خارجہ حسن ایسات اِشک نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کے ایک اتحادی اور برادر ملک ہونے کے ناتے ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کروائی تھی اور مقامی سطح پر تیار ہونے والے اسلحے کو پاکستان کو بہم پہنچانے اور ترک باشندوں کے بھی اس جنگ میں حصہ لینے کی اپنی خواہش سے حکومتِ پاکستان سے آگاہ کیا تھا ۔ پاکستان میں مقیم اُس وقت کے ترک سفیر معمر شناسی نے 23 ستمبر 1965 کو صدر ایوب خان سے ملاقات کرتے ہوئے حکومتِ ترکی اور ترک باشندوں کی ہر ممکنہ حمایت اور امداد کا ایک اعادہ کیا تھا اور پھر 1947ء میں قبرص جنگ کے موقع پر پاکستان نے جس طریقے سے ترکی کی حمایت کی اور ترکی کو فوجی سازو سامان بہم پہنچایا اور پاکستانی طیاروں اور پاکستان ائیر فورس نے ترکی کی مدد کرتے ہوئے تعاون کی ایک ایسی مثال قائم کی جس سے ترکی کو قبرص میں اپنے پاوں جمانے کا موقع ملا حالانکہ ترکی کے تمام اتحادی ممالک ترکی کو تنہا چھوڑکر یونان کی بھر پور حمایت کررہے تھے اور ترکی کا سب سے بڑا اتحادی ملک امریکہ ترکی پر فوجی پابندیاں عائد کرچکا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترکی اور پاکستان امریکہ کے دو ایسے اتحادی ممالک ہیں جو اُس وقت تک امریکہ کی آنکھوں کا تارہ بنے رہتے ہیں جب امریکہ ان دونوں ممالک کا محتاج ہوتا ہے اور جیسے ہی امریکہ اپنا مفاد حاصل کرلیتا ہے ان سے آنکھیں پھیرنے سے ذرہ بھر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ اس وقت ان دونوں ممالک کو امریکہ سے متعلق کم و بیش ایک جیسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اب آتے ہیں چھ ستمبر 2018ء کو انقرہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں سفارت خانہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ” یومِ دفاع اور شہدا ” کی تقریب کی جانب۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ترکی اور پاکستان کے تعلقات ” یک جان دو قالب” اور دو ریاستیں ایک قوم” جیسے القابات سے نوازے جانے والے تعلقات ہیں۔ ان لازوال تعلقات کی جھلکیاں ہم نے اس وقت دیکھیں جب ترکی کے وزیر قومی دفاع ) ریٹایرڈ جنرل (حلوصی آقار سے لے کر مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل یشار گیولر اور مسلح افواج کے سربراہان سے لے کر اعلیٰ سول حکام نے شرکت کی اور پاکستان اپنی محبت اور یک جہتی کا اظہار کیا۔ میری ذاتی رائے کے مطابق شاید ہی دنیا میں پاکستان کے کسی دیگر سفارت خانے کو اُس ملک کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی میزبانی کرنے کا اس طرح اعزاز حاصل ہوا ہو۔ یہی فرق پاکستان اور ترکی کی دوستی کو دیگر ممالک کی دوستی سے ممتاز بناتی ہے۔ اس تقریب کے موقع پر سفیرِ پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی، ڈیفنس اٹیچی ائیرکموڈور عمران صغیر چوہدری، آرمی اٹیچی کرنل فیصل سعود، کرنل عمران اسلم، نیول اٹیچی کیپٹن خان محمد آصف اور ان کی بیگمات نے فرداً فرداً تمام شرکاء کا استقبال کیا۔ اس تقریب میں ترکی کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت کے علاوہ غیر ملکی سفیروں، ملٹری ایٹیچیز ، سول حکام اور پاکستانی کمیونٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز ترک وزیر قومی دفاع حلوصی آقار کی آمد کے فوراً بعد دونوں ممالک کے قومی ترانوں سے ہوا۔ اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد سائیرس سجاد قاضی نے خطاب کرتے ہوئے یومِ دفاع کی اہمیت اور چھ ستمبر 1965ء کو پاکستان کو اپنی بقا کے لیے لڑی جانے والی جنگ اور اللہ و تعالیٰ کی مدد سے اس جنگ میں سرخرو ہونے اور دشمن کو پست قدمی پر مجبور کیے جانے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ ترکی کی جنگ چناق قلعے اور 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کو کچلنے اور موجودہ دور میں ملک کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں ترک شہدا کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔سفیر پاکستان کے بعد ڈیفنس اٹیچی ائیر کموڈور عمران صغیر نے معزز مہمان کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاکستان مسلح افواج، شہدا اور ترکی کی جنگِ چناق قلعے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہدا کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “ترکوں کے دل پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں ۔ مجھے یقین ہےپاکستان کی مسلح افواج ملک کے استحکام کے ساتھ ساتھ خطے اور عالمی امن کے قیام کے لیے بھی اپنا کردارا دا کرتی رہے گی۔ جمہوریہ ترکی کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان ہمیشہ ہی ترکی کا بھر پور ساتھ دیتا چلا آرہا ہے۔ ترکی کی جنگ آزادی کے موقع پر پاکستان کے عوام) اس وقت کے ہندوستان کے مسلمانوں (نے جس طرح ترکی کا دل کھول کر ساتھ دیا اور اپنا تن من دھن سب کو کچھ ترکی پر لٹا دیا ہم کبھی اسے فراموش نہیں کرسکتے ہیں ۔ سن 1974ء کی قبرص جنگ میں پاکستان کی حمایت اور مدد کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے؟ پاکستان کی 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے موقع پر ترکی میں ڈیمو کریسی کے تسلسل کی حمایت نے ترکوں کے دل جیت لیے۔ پاکستان ہمارے لیے قوت اور استحکام کا وسیلہ ہے۔ ”
اس تقریب میں انقرہ میں پاکستانی اسکول کی طالبات نے پاکستان کے ملی نغمے پیش کرتے ہوئے حاضرین کو پاکستانی کی محبت کا اسیر بنادیا ۔ پاکستان کی محبت سے لبریز ان نغموں کے بعد سفیر پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی ، ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار، ترک مسلح افواج کے سربراہان نے مشترکہ طور پر کیک کاٹا۔ کیک کاٹنے کی تقریب کے دوران پاکستان کے پریس اٹیچی عبدل اکبر کا سات سالہ صاحبزادہ جس نے پاک فوج کا یونی فارم زیب تن کر رکھا تھا سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا جس پر ترک وزیر قومی دفاع حلوصی آقار نے اس بچے کو خصوصی طور پر کیک کاٹنے کی تقریب میں مدعو کیا۔ اس تقریب کے موقع پر قیام ِ پاکستان اور افواج پاکستان کے کارناموں پر مبنی دستاویزی فلم کا بھی اہتمام کیا گیا تھاجبکہ ہوٹل کی راہداری میں پاکستان سے متعلق پینٹنگز کی بھی نمائش کی گئی تھی۔
اس موقع پر ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار نے راقم کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ” ہم پاکستان اور خطے میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور اس کے کردار سے پوری طرح آگا ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے فوجی افسران اور اعلیٰ فوجی قیادت کو اکثر و بیشتر فرائض کی سرانجام دہی کے لیے یکجا ہونے کا موقع میسر آتا ہے اور ان مواقع پر دونوں ممالک کی اعلیٰ فوجی قیادت کے چہروں پر ایک دوسرے سے محبت اور چاہت کی جھلک نمایا ں طور پر نظر آتی ہے۔ پاکستان اور ترکی کی درمیان بڑے گہرے اور دیرینہ تعلقات قائم ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی صنعت میں اشتراک اور تعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے اور یہ تعاون اور اشتراک وقت کے ساتھ ساتھ مزید فروغ پاتا رہے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اشتراک صرف دونوں ممالک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے خطے اور عالمی امن کے قیام میں بھی مدد ملے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں اور ٹریننگ سینٹرز میں مشترکہ طور پر ٹریننگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم جنگی بحری جہازوں ، طیاروں ہیلی کاپٹروں کے علاوہ توپوں ٹینکوں اور دیگر جنگی ساز و سامان کی تیاری میں بھی ایک دوسرے سے گہرا تعاون کررہے ہیں جو دونوں ممالک کے مفاد کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں ایک بار پھر یومِ دفاع پاکستان کے موقع پر پاکستان اور پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی دعا گو ہوں۔ “
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارے کا اس سے اتفاق نہیں)
Mob:+90 535 870 06 75
furqan61hameed@hotmail.com