یورپ کا مردِ بیمار اب مسیحا بن گیا

ڈاکٹر فرقان حمید
دنیا میں ایک ایسی بھی اسلامی سلطنت موجود تھی جس نے 15 ویں سے 18 ویں صدی تک تین براعظموں
تک اپنی حاکمیت قائم کیے رکھی اور ہر طرف اس کا طوطی بولتا رہا ۔ ” سلطنتِ عثمانیہ ” کے نام یاد کی جانے والی اس سلطنت نے اپنے عروج کے دور میں مذہب کا امتیاز کیے بغیر عیسائی ممالک کی مختلف شعبوں میں مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھ رکھا تھا لیکن 17ویں صدی کے بعد سلطنت عثمانیہ رو بہ زوال ہوئی اور اتنی کمزور ہوتی گئی کہ 1852میں زار روس نکولس اول نے اسے ” یورپ کا مردِ بیمار ” قرار دے دیا ۔
اور پھر اس بیماری کی شدت کے نتیجے میں یورپ کا یہ مردِ بیمار اپنا وجود ہی کھو بیٹھا اور اس کی جگہ ” جدید جمہوریہ ترکی” نے لے لی اور غازی مصطفیٰ کمال اتاترک نے اس ملک میں نئی روح پھونک کر اسے اپنے پاؤں پر نئے سرے سے کھڑا کرنے میں کامیاب رہے۔ اتاترک نے بڑی مختصر سی مدت میں انقلابات بھرپا کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کو خوابِ خرگوش سے بیدار کرنے میں بڑا نمایا ں کردار ادا کیا۔ اتاترک کی قیادت تباہ حال ترک قوم دنیا کے سامنے ایک نئے رنگ و روپ میں سامنے آئی تاہم اتاترک کے بعد طویل عرصے تک کوئی بھی رہنما ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہ کرسکا اور اس ملک نے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھا تاہم اسی کی دہائی میں ترگت اوزل نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے آزاد منڈی نظام ملک میں متعارف کروایا اور دنیا میں اس کی ایک بار پھر پہچان کروائی لیکن ان کے بعد ملک ایک بار پھر اقتصادی بحران کا شکار ہوگیا، جس کے نتیجے میں 2002ء میں رجب طیب ایردوان کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ (انہوں نے ملک کی ترقی کے بارے میں جو اقدامات کیے اور جس طرح ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اس پر میں اپنے کئی ایک کالموں میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ آج صرف صحت کے شعبے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھوں گا)
رجب طیب ایردوان نے جب وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو ملک میں صحت کا شعبہ برباد ہوچکا تھا اور انسانوں کو علاج کروانے کے لیے ٹھٹھرتی سردیوں کی نصف رات میں بھی ہسپتالوں سے باہر طویل قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور آپریشن کروانے یا ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے چھ چھ ماہ سے بھی زاہد عرصے انتظار کرنا پڑتا تھا اور کئی ایک کیسز میں تو مریض اپنا علاج کروائے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا تھا۔ ایردوان سے قبل یہ تھے ترکی کے صحت کے شعبے کے حالات ۔ جس پر ایردوان نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ” میں نے سب سے پہلے ملک میں صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کا عزم کرلیا تھا اور اس مقصد کے لیے ان ہی ایام میں ملک میں بڑے پیمانے پر ” شہر حستانےلری ” یعنی City hospitals تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس وقت سب نے اسے ” دیوانے کی ایک بڑ ” قرار دیا تھا اور اسے نہ ممکن قرار دیتے ہوئے ترکی کی رہی سہی اقتصادیات کو تباہ کرنے کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ترکی کی اقتصادیات نے ایردوان کے دور میں جس طریقے سے ترقی کی اس کے مثبت اثرات روزمرہ زندگی پر بھی مرتب ہوئے ۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکی میں تعمیر کیے جانے والے تمام ” شہر ہسپتال ” جدید مشنری، جدید سہولتوں، جہاں پر ہر شہر ہسپتال میں ہیلی کاپٹر ایمبولینس کی بھی سہولت میسر ہے اپنی ان تمام خوبیوں کی بدولت یورپ اور امریکہ کے تمام جدید ہسپتالوں پر برتری حاصل کیے ہوئے ہیں ، خاص طور پر انتہائی نگہداشت یونٹ اور اس میں موجود بیڈز کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ اور یورپ کے تمام ممالک کو ترکی اپنے پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔ علاوہ ازیں ترکی کے ان ہسپتالوں میں مریضوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کےلحاظ سے ترکی کی یہ تمام ہسپتال کسی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کورونا وائرس سے قبل یورپ اور امریکہ سے بڑی تعداد میں مریض ترکی میں علاج کی غرض سے آتے رہے ہیں اور اپنا کامیاب علاج کروانے کے بعد اپنے ملک کا رخ اختیار کرتے رہے ہیں۔ ترکی کو یورپ اور امریکہ پر صحت کے شعبے میں اس لیے بھی برتری حاصل ہے کہ ترکی میں ہیلتھ انشورنش کی بدولت تمام ہی انسانوں کو علاج کروانے کی سہولت حاصل ہے جبکہ کورونا وائرس سے متاثرہ تمام مریضوں کا علاج بلا معاوضہ کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں مریضوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں اتنی بڑی تعداد میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد موجود ہونے کے باوجود ترکی کو اٹلی، اسپین ، برطانیہ، فرانس یا امریکہ جیسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے بلکہ ترکی کا ایک ملین ایک لاکھ افراد پر مشتمل طبی عملہ ہر مریض کا خصوصی خیال رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں ترکی میں اتنی بڑی تعداد میں کورونا کے مریض ہونے کے باوجود صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد دیگر ممالک کے تناسب کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں ترکی میں اس وائرس سے متاثر یا جان بحق ہونے والے عمر رسیدہ افراد کی تعداد بھی یورپی ممالک اور امریکہ سے بہت کم ہے۔
اس دوران ترکی نے یورپی ممالک اور امریکہ کے برعکس اپنے تمام باشندوں کو جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں ہر ہفتے پانچ عدد ماسک بلا معاوضہ ان کے گھرکے قریب ترین ڈاکخانے یا کیمسٹ کی دکان پر پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو تمام ممالک کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔
ترکی کی چار فرموں نے مشترکہ طور پر ترکی کےمقامی وسائل استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز تیار کرنا شروع کردیے ہیں ۔ چودہ دنوں کے اندر اندر ان فرموں نے ایک سو وینٹی لیٹرز تیار کرکے نئے قائم ہونے والے سٹی ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر جس کا افتتاح ویڈیو کانفرنس کے ذریعے صدر ایردوان نے کیا ، ہسپتال کے حکام حوالے کردیے ہیں ۔ اور اب ان چار فرموں نے مشترکہ طور پر مقامی وسائل ہی سے ماہ مئی کے اواخر تک حکومتِ ترکی کو پانچ ہزار وینٹی لیٹرز تیار کرکے حکومتِ ترکی کے حوالے کرنے ہیں۔ یورپ بھر میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے جبکہ ترکی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ان وینٹی لیٹرز کو یورپ دینے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ یورپی ممالک نے اس سے قبل ترکی کو نامساعد طبی حالات کی وجہ سے وینٹی لیٹرز دینے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس سے قبل ترکی یورپ سے 15 ہزار ڈالر میں ایک وینٹی لیٹر خرید رہا تھا جبکہ اب وہ پانچ ہزار ڈالر میں مقامی طور پر ہی یہ وینٹی لیٹرز تیار کررہا ہے۔
ترکی نے اب تک نہ صرف پاکستان، بوسنیا، مقدونیہ، آذر بائیجان، لیبیا اور افریقی ممالک کی طبی ساز و سامان بہم پہنچاتے ہوئے مدد فراہم کی ہے بلکہ اس نے اٹلی ، اسپین ، برطانیہ ، فرانس اور امریکہ کو بھی ان کی درخواست پر طبی سازوسامان فراہم کیا ہے اور مزید فراہم کیا جا رہا ہے اور اس طرح ترکی جسے سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں ” مردِ بیمار ” کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا تھا اور اب یہ ملک جو مردِ بیمار کہلواتا تھا، اب ان تمام یورپی ممالک کے لیے مسیحا بن کر سامنے آیا ہے۔ ترکی اس مقام کو صرف اور صرف صدر ایردوان کی ” خود انحصاری ” یا اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے ہی کے نتیجے میں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اب یورپ کا مردِ بیمار یورپ کا مسیحا بنتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
Mob:+90 535 870 06 75
furqan61hameed@hotmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں