ڈاکٹر فرقان حمید، انقرہ
ترکی جو ہمیشہ ہی سے امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے سویت یونین اور اس کے انہدام کے بعد روس سے اپنے تعلقات کو ایک خاص حد تک ہی محدود رکھنے میں اپنی عافیت محسوس کرتا رہا ہے لیکن روس میں صدر پوتین اور ترکی میں ایردوان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ترکی اور روس کے درمیان جو سرد مہری چلی آ رہی تھی اس کو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف کم کرنے میں مدد ملی بلکہ یہ تعلقات گرمجوشی کا روپ بھی اختیار کرتے چلے گئے۔
جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ترکی کے امریکہ کے ساتھ جدید جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے بڑے گہرے تعلقات قائم رہے ہیں۔ ترکی امریکہ کا نہایت ہی قابلِ بھروسہ اور نیٹو میں فوجی قوت کے لحاظ سے امریکہ کے بعد سب سے بڑا اتحادی ملک ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک اکثر و بیشتر نیٹو میں ترکی کی اہمیت اور فوجی قوت کی وجہ سے حسد محسوس کرتے چلے آرہے ہیں۔ ترکی اگرچہ نیٹو کا رکن ملک ہے لیکن اس نے یورپی یونین کی مستقل رکنیت کے لیے بھی رجوع کررکھا ہے لیکن یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے ترکی کی مستقل رکنیت کی راہ میں کھڑی کی جانے والے رکاوٹوں کی وجہ سے ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کو جو خواہش رکھتا تھا اب وہ خواہش اپنا دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ترکی امریکہ کے اتحادی ملک ہونے کے ناتے اپنی زیادہ تر دفاعی اور سکیورٹی ضروریات یعنی ساٹھ فیصد سے زاہد امریکہ ہی سے پوری کرتا ہے۔ ترکی نے شام کی جنگ کی وجہ سے اپنے علاقائی دفاع کے لیے امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل حاصل کرنے کی بھی خواہش ظاہر کی تھی لیکن امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کے دباؤ کے باعث ترکی کو پیٹریاٹ میزائل فروخت کرنے سے انکار کردیا اور یہی انکار ترکی اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بھی بنا اور ترکی نے اپنے علاقائی دفاع کے لیے روس سے ایس -400 دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری کے 2.5 ارب ڈالر مالیت سمجھوتے پر دستخط کیے اور ان میزائلوں کی پہلی کھیپ بھی حاصل کرلی جس پر امریکہ سمیت نیٹو کے دیگر اتحادی ممالک نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے نیٹو مخالف ملک (روس) سے ایس- 400 سسٹم کے حصول کو نیٹو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا کیونکہ ترکی کا فوجی سسٹم اور بارڈر ڈیفنس سسٹم نیٹو کے مرکزی نطام سے منسلک ہے۔ یورپی اتحادی ممالک کے ان خدشات پر امریکہ نے ترکی کو ایف 35 سٹیلتھ جنگی طیاروں کی فروخت روک دی حالانکہ ترکی ان جنگی طیاروں کی پروڈکشن میں شراکت دار ہے اور ستم یہ کہ امریکہ نےشام میں اپنے قدم جمانے کے لیے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی ” پی کے کے/وائی پی جی ” اور ” ایس ڈی ایف ” کی نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ ان تنظیموں کے دہشت گردوں کو ٹریننگ بھی فراہم کی جس پر ترکی نے ابتدا ہی سے اپنی برہمی کا اظہار کیا اور اعلیٰ سطحی مذاکرات میں کھل کر امریکہ کی اس پالیسی کی شدید مذمت کی اور ان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے سے باز آنے کے لیے خبردار بھی کیالیکن امریکہ کے کان نہ دھرنے کے باعث ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری آنا شروع ہوگئی اور ترکی نے امریکہ کی جانب سے اسلحے کی فروخت کو محدود کرنے پر ترکی نے مقامی سطح پر ہتھیاروں کی صنعت کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور صدر ایردوان کے مطابق ترکی نے نہ صرف اپنی فوجی ضرورت کا 70 فیصد تک اسلحہ خود تیار کرنا شروع کردیا ہے بلکہ دنیا کو اسلحہ فروخت کرنے والے 14ویں بڑے ملک کی حیثیت اختیار کرلی ہے جس کا امریکہ کو بھی احساس ہوچکا ہے جس پر ترکی نے امریکہ کی جانب سے شمالی شام میں امریکی فوجیوں کے انخلاکے بعد علاقے میں کسی بھی صورتِ حال سے نبٹنے اور دہشت گردی کے واقعات پر قابو پ