ڈاکٹر فرقان حمید
آیا صوفیہ (Church of Holy Wisdom) ایک سابق مشرقی آرتھو ڈوکس گرجا تھا جسے 1453 میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔
آیا صوفیہ کو بلاشک و شبہ عالمی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کلیسا کو پہلی بار چوتھی صدی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا لیکن اس کے کوئی آثار باقی نہ بچے اور اس کی تباہی کے بعد قسطنطین اول کے بیٹے قسطنطین ثانی نے اسے دوبارہ تعمیر کیا لیکن 532 کے فسادات و ہنگاموں کے نتیجے میں تباہ ہو گیا جسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا جو 27 دسمبر 537 کو مکمل ہوا۔
آیا صوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا۔ عثمانی دور میں اس مسجد میں کئی تعمیراتی کام کیے گئے جن میں سب سے معروف 16ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات سنان پاشا کی تعمیر ہے۔ آیا صوفیہ میں تعمیر کیے جانے والے مینار مختلف سلاطین کے دور میں گنبد کی حفاظت کے لئے تعمیر کئے گئے۔
19ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر ہوا اور وسط میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں۔
سلطان محمد فاتح اگرچہ 29 مئی 1453میں استنبول میں داخل ہوئے تھے لیکن انہوں نے یکم جون 1453میں آیا صوفیہ کلیسا میں نمازِ جمعہ ادا کرتے ہوئے اس کلیسا کو مسجد میں تبدیل کردیا اور سن 1935تک یہ مسجد ہی رہی لیکن 24نومبر 1934میں کابینہ کے فیصلے کی رو سے اسے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔
اگرچہ اتاترک کے حکم سے اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کا سرکاری نوٹی فکیشن جاری کیے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر تاریخ دانوں کے مطابق ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی جو اس وقت برسر اقتدار تھی، کے وزیراعظم عصمت انونو ہمیشہ اتاترک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرتے رہے جن کا اتاترک سے کوئی تعلق نہ تھا۔
عصمت انونو کی ان کارستانیوں کا جب اتاترک کو علم ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی اور بیماری کے باعث اتاترک عصمت انونو کی ان چالاکیوں کو نہ روک سکے تاہم انہوں نے انونو کو عہدے سے سبکدوش کردیا اور حتیٰ کہ ان کو اپنے جنازے تک میں شرکت کرنے کی اجازت نہ دی۔
سیکولر اور جدید جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں دو فیصلے ایسے بھی ہیں جن پر فیصلہ کرنے والی جماعت آج بھی نادم ہے اور اُس جماعت کے ان فیصلوں ہی کی وجہ سے آج بھی عام ترک اس جماعت کو مذہب دشمن جماعت کے طور پر دیکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت واحد جماعتی نظام کے بعد کبھی تنہا برسراقتدار نہ آئی۔
ان فیصلوں میں ایک اذانِ محمدی کو عربی زبان سے ترکی زبان میں دینے کا فیصلہ تھا، جسے عدنان میندریس نے برسر اقتدار آنے کے بعد 16جون 1950کو کالعدم قرار دے دیا اور دوسرا فیصلہ آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم میں تبدیل کرنے کا تھا جسے تقریباً اسی سال بعد کالعدم قرار دیا گیا۔
1453میں سلطان محمد فاتح نے فتح استنبول کے موقع پر آیا صوفیہ میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد اس کلیسا کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا اور جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے دس سال بعد تک یہاں باقاعدگی سے نماز ادا کی جاتی رہی لیکن 24نومبر 1934میں اسکی مسجد کی حیثیت ختم کرتے ہوئے میوزیم کی حیثیت دے دی گئی۔
اگرچہ ایردوان ’’ آیا صوفیہ‘‘ کو واپس مسجد کا اسٹیٹس دلوانے کا وعدہ کر چکے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ جس کام کا بیڑہ ایک بار اُٹھالیں اس کو پورا کرکے ہی دم لیتے ہیں لیکن ان کے کام کرنے کا انداز سب رہنمائوں سے مختلف ہے۔
صدر ایردوان نے اس سلسلے میں سب سے پہلے اس میوزیم کے اندر ایک کمرے میں نماز کی ادائیگی کا باقاعدگی سے بندوبست کروایا اور سرکاری طور پر مسجد کا امام مقرر کیا گیا اور پھر آیا صوفیہ میں انٹرنیشنل آرٹ فیسٹیول منعقد ہوا تو اس موقع پر طویل عرصے کے بعد پہلی بار مرکزی ہال میں تلاوتِ کلامِ پاک کا اہتمام بھی کیا گیا۔
صدر ایردوان نے آئین کی رو سے فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہونے کے باوجود فیصلہ ملک کی انتظامی امور کی اعلیٰ ترین عدلیہ کونسل آف اسٹیٹ جسے ترکی زبان میں ’’دانشتائے‘‘ کہا جاتا ہے، کے پانچ ججوں کی جیوری سے اتفاقِ رائے سے کروا کر عالمی دبائو کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
کونسل آف اسٹیٹ کے فیصلے کے بعد صدر ایردوان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’واحد جماعتی نظام کے دور میں یہ فیصلہ نہ صرف تاریخ کے ساتھ غداری بلکہ قوانین کی بھی خلاف ورزی تھا کیونکہ آیا صوفیہ نہ تو ریاست کی ملکیت ہے اور نہ ہی کسی ادارے کی بلکہ یہ فاتح فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے جسکی حیثیت کو فاؤنڈیشن کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
انہوں نے سلطان محمد فاتح کے اس پیغام سے بھی آگاہ کیا کہ ’’جو شخص بھی آیا صوفیہ کو مسجد کا روپ عطا کرنے والی فاؤنڈیشن کو تبدیل کرنے یا فاؤنڈیشن کی کسی شق کو کالعدم قرار دینے یا مختلف چالوں سے اس کی اصلی حالت کو تبدیل کرنے یا اس میں مددگار ہونے یا اسے مسجد کے علاوہ کوئی اور روپ دینے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو میں سب پر واضح کردوں، وہ شخص حرام کا مرتکب ہوگا اور گناہ کبیرہ سرزد کرے گا۔
اس پر اللہ تعالیٰ، پیغمبروں، فرشتوں اور تمام مسلمانوں کی لعنت ہوگی۔ اللہ کا عذاب اس پر ہوگا‘‘۔ صدر ایردوان نے کہا کہ آج اس فیصلے سے سلطان محمد فاتح کی بددعا سے ہم لوگ محفوظ ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آیا صوفیہ کی مشترکہ ثقافتی میراث کی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے اسے مسجد کے طور پر 24جولائی بروز جمعہ کھول دیا جائے گا۔