ڈاکٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی
استاذ جامعہ اسلامیہ کیرالا
جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنھواں، ضلع سیتامڑھی (بہار کے ناظم اعلی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے رکن تاسیسی حضرت مولانا زبیر احمد قاسمیؒ آج ہمارے درمیان نہیں رہے ،آج ہم ایک عظیم شخصیت اور فقہ و فتاوی کےایک نایاب گوہر سے محروم ہوگئے، وہ اپنے دوست و احباب، خویش و اقارب، سینکڑوں کی تعداد میں ملک کے طول وعرض اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے اپنے شاگردوں اور چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اپنے آبائی گاؤں چندر سین پور، ربیکا بلاک ، مدہوبنی (بہار) میں طویل علالت کے بعد شام کے وقت، بعدِ نماز عصر، بروز اتوار مؤرخہ ۶ /جمادی الاولی ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۳ جنوری ۲۰۱۹ء کو اپنے سفر آخرت پر چل بسے، اللہ تعالی ان کی سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے، درگذر اور عفو کا معاملہ فرمائے ، ان کے لئے قبر کی منزل کو آسان فرمائے، ان کی بال بال مغفرت فرمائے بلکہ قبر کو جنت کی کیاریوں میں ایک کیاری بنادے، انہیں کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے، جنت فردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور ان کے پسماندگان اورمتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور امت مرحومہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
وہ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے ، اصولی تھے ، بےباک مخلص انسان تھے، وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ، وہ ” سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کاعدالت کا “ مصداق تھے، اہل علم سے محبت کرتے تھے، چھوٹوں کو آگے بڑھتے دیکھ کرخوش ہوتےتھے ، یہ ان کی کشادہ قلبی اور وسعت ظرفی کی بات تھی، وہ خوشامد پسندی کو پسند نہیں کرتے تھے، حدیث و فقہ کے کامیاب استاذ رہے ہیں ، ایک زمانہ تک بخاری شریف کا درس بھی دیا ہے، دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد میں وقفے سے دوبار شیخ الحدیث رہ چکے ہیں ، وہاں تخصص فی الفقہ والافتاء کے طلبہ کو بھی پڑھاتے تھے ،تفہیم کی صلاحیت بھرپور تھی، نت نئے مسائل کو حل کرنے میں آپ کو بڑا کمال اور درک حاصل تھا، ارود زبان میں لکھتے تھے ، بہت شستہ زبان لکھتے تھے، فقہ ایک قانونی زبان ہے ؛ لیکن وہ اس میں ادبی چاشنی بھر دیتے تھے لوگوں کو ان کی فقہی تحریر پڑھنے میں اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ فقہی بصیرت خوب تھی ، جس کا اندازہ قارئین ان کے تحریر کردہ فقہی مقالات سے اچھی طرح لگا سکتے ہیں، اور ان حضرات کو تو بحسن خوبی اندازہ ہوگا جو حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے زمانہ سے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فقہی سمیناروں میں شریک ہوتے آرہے ہیں ، جب وہ دوران سمینار مناقشہ میں حصہ لیتے تھے تو تمام شرکاء سمینار ہمہ تن بگوش ان کی باتوں کو سنتے تھے اور اور ان کے علمی نقاش سے مستفید ہوتے تھے۔ خارجی مطالعہ بھی وسیع تھا، خاص طور پر فقہ کےمیدان میں بعض جہتوں سے وہ اپنی نظیر آپ تھے۔درسی کتابوں میں بڑا ملکہ حاصل تھا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک جہاں تجربہ کار کامیاب مدرس اور اپنے وقت کے مایہ ناز فقیہ تھے، وہیں ایک اچھے کامیاب منتظم بھی رہے ہیں، جس پر جیتی جاگتی شہادت جامعہ اشرف العلوم کنھواں ادارہ ہے، جہاں ابتدائی تعلیم بڑی ٹھوس ہوتی ہے؛ اسی وجہ سے وہاں کے طلبہ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں بآسانی ہوجاتا ہے، شاید ہی کوئی طالب علم داخلہ سے محروم ہوکر واپس ہوتا ہے۔
پڑھنے پڑھانے اور کتب بینی میں زیادہ وقت گذرتا تھا، ان کے علمی شاہکار فقہی مقالات ہیں جو فقہ اکیڈمی انڈیا کے مجموعہ مقالات کے ساتھ زینت بنے ہوئے ہیں اور اہل علم اور ان میں بھی فقہ وفتاوی سے مربط لوگوں کو یا اس کےشائقین یا اسلامی فقہ اسکالرس کو دعوتِ مطالعہ دے رہے ہیں ۔
حضرت والا سے بارہا ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے ، ان سے استفادہ باضابط رسمی شاگردکی حیثیت سے تو نہیں کرسکا؛ البتہ مختلف علمی مجالس، ملاقاتوں اور فقہی سمیناروں میں ان سے سننے اور استفادہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ آج بھی ان کی دوباتیں یاد ہیں :
پہلی بات یہ ہے کہ جب میں المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد میں تھا، اور میں اس وقت وہاں معتمد تعلیمات تھا، قرآنی سمینار کا موقع تھا، معہد کے قدیم فارغین کے لئے تربیتی خصوصی خطاب کا پہلا جلسہ لائبریری ہال میں منعقد ہوا تھا، اس میں راقم الحروف کی نظامت تھی، اس جلسہ میں مشفق ومربی استاذ گرامی عالی قدر ، مترجم ومفسر قرآن ، مفکر اسلام ، مایۂ ناز فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم- أطال الله حياتہ متمتعا بالصحۃ والعافيۃ، وتقبل خدماتہ الجليلۃ في مختلف المجالات والميادين-کے کلیدی خطبہ کے بعد جب حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی ؒ طلبہ سے خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا: میں اپنی سابق بات کو واپس لیتا ہوں، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے عام لوگوں کی طرح ایک دکان نہیں کھولی بلکہ حقیقت میں زمانہ کی ایک ضرورت (فضلاء مدارس کی خصوصی تعلیم و تربیت اور اسلامی فکری سرحدوں کے محافظین کی تیاری ، ایک طرف وہ زمانہ شناس ہوں اور حالات سے آگاہ ہوں اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہوں، تو دوسری طرف علم و تحقیق کے میدان کے شہسوار اور اس سے لیس ہوں اور للہیت و اخلاص اور امت کے لئے دھڑکتا و تڑپتا ہوا دل ان کے پہلو میں ہمہ وقت پھڑکتا رہے ، جیسے افراد سازی ) پوری کی، ا س کا انہوں نے برملہ اعتراف کیا اور اظہار فرمایا ، یہ ان کے اعلی ظرفی کا بہترین نمونہ ہے ، اور اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی محنت و کاوش کو آنکھوں سے دیکھ کر خوش ہوکر حوصلہ افزا جملہ فرمانا ہے ، اور ہر روحانی باپ اپنے لائق فائق ترقی کی راہ پر گامزن شاگرد کو دیکھ کر خوش ہوتا ہی ہے اور اپنی ڈھیر ساری دعاؤں سے اُسے نوازتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی طرف سے منعقدہ۲۴واں فقہی سمینار دارالعلوم اسلامیہ، اوچیرہ- کیرالا میں مؤرخہ ۱۱-۹/جمادی الاولی ۱۴۳۶ھ مطابق ۳-۱/مارچ ۲۰۱۵ءکو ان سے ملاقات ہوئی، خیر خیریت کے بعداپنے خاص لب و لہجہ میں فرمایا : المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کیوں چھوڑے، دو پیسے کی خاطر چھوڑ ے، وہاں تنخواہ کم تھی ، اور جہاں اِس وقت ہو وہاں تنخواہ زیادہ ہے! میں نے کچھ جواب نہیں دیا ،صرف اتنا کہا : حضرت میرے لئے دعا فرما دیجئے! – ظاہر ہے کہ انہوں نے میرے علمی فائدہ کو دیکھتے ہوئے بڑے ہی اخلاص و محبت اور شفقت کے ساتھ فرمایا البتہ مین تھوڑی دیرکے لیے سکتہ کے عالم میں ششدر حیراں رہا، میری پچھلی زندگی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا اور کچھ ماضی کی یادیں آنے لگیں، اور حضرت کا جملہ بار بار ذہن و دماغ سے ٹکڑاتا اور دل سے سوال ہوتا کہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کیوں چھوڑا؟ حقیقیت یہی ہے کہ اس کا جواب دینا میرے لئے مشکل ہے؛ البتہ میرے ساتھ اُس وقت کچھ مجبوریاں ایسی درپیش تھیں کہ میں ایک عجب کشمکش اور ذہنی تناؤ میں مبتلا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، اگر معہد چھوڑتا ہوں تو لوگ کیا کہیں گے ؟ ہوسکتا ہے کہ لوگ کہیں گے دو پیسے کی خاطرمعہد چھوڑا، یا کچھ اور کہیں گے، لیکن سب سے بڑھ کر اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس غالب تھا، اگر اللہ نے کل قیامت کے روز مجھ سے پوچھ دیاکہ تم نے محض زیادہ پیسے کمانے کی خاطر معہد چھوڑا تھا؟ تو میں کیا جواب دوں گا، بہر حال میں اُس وقت عجب کیفیت سے گذر رہا تھا ، اور طرح طرح کےخیالات آرہے تھے جارہے تھے، کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا ، اور میرے مشکلات کا حل بھی سامنے نہیں آرہا تھا، ایک دن کی بات ہے کہ اُن دنوں معہد کی مسجد میں عصر کی نماز کے بعد ” العلم والعلماء از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ “ کتا ب پڑھی جارہی تھی ، اہل علم کو معلوم ہے اس کتاب میں عام طور پر طلبہ اور علما ء سے خطاب ہے، اس میں ایک پیرا گراف پڑھا گیا ، جس میں اتفاق سے یہی بات تھی کہ ایک عالم کےلئے کب پرانی جگہ چھوڑنی جائز ہے؟ اس پیراگراف میں میرے لئے وجہ جواز آگئی بہر حال حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی کی زندگی سے قارئین کے لئے جو درس لینے کے ہیں ، وہ یہ ہیں :
درسی کتابوں میں پختہ صلاحیت پیدا کرنا ، اپنی بات اعتماد سے کہنا ، حق گوئی و بےباکی، کسی سے مرعوب نہ ہونا ، علمی میدان میں ایک مقام پیدا کرنا، جو کام کرنا دل سے کرنا ، خانہ پوری کے لئے نہ کرنا ، طلبہ کی تعلیم و تربیت پر توجہ زیادہ دینا ، بقیہ دوسری چیزوں میں کمی ہوکوئی بات نہیں ، بچوں کی تعلیم و تربیت کی تعلق سے کسی اعتبار سے کمی نہیں ہونی چاہئیے، انہیں جب سبق پڑھانا تو سمجھاکر پڑھا نا بغیر سمجھائے سبق آگے نہیں بڑھانا اور نہ خود بغیر سمجھے پڑھانا ۔