شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اردن اور فلسطین کے بعد ہمارے سفر کی تیسری منزل تھی مصر،فوجی طاقت اور افرادی قوت کے اعتبار سے مصر عالم عرب کا سب سے بڑا ملک ہے، اس کا ایک حصہ ایشیا میں اور دوسرا حصہ شمالی افریقہ میں واقع ہے؛ اگرچہ اس کے پاس پٹرول نہیں ہے؛ لیکن قدرتی گیس سے مالا مال ہے، مصر جانے کے لئے ہم لوگوں نے ” طابہ “ کا بارڈر پار کیا، یہاں کی ایک مقامی ٹور کمپنی سے ہماری میزبان ٹور کمپنی کا معاہدہ تھا،بارڈر پار کرنے کے بعد قریب آدھے گھنٹے کی مسافت پر ایک ریسٹورنٹ میں رات کا قیام اور عشائیہ کا انتظام کیا تھا۔
۰۱جنوری کی صبح ہم لوگ ”طابہ“ سے مصر کی راجدھانی ” قاہرہ “ کی طرف روانہ ہوئے، مصر اُن ملکوں میں ہے جس کی تہذیب بہت قدیم ہے، اس کی تمدنی فتوحات کا اندازہ اہرام مصر سے لگایا جا سکتا ہے، مسلمانوں کا بھی یہاں سے روحانی رشتہ ہے، یہی ملک حضرت ابراہیم ؑکا طریق ہجرت ہے، حضرت ہاجرہ ؑجن کی مبارک نسل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، اسی سرزمین سے ان کا تعلق ہے، یہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا وہ خوبصورت واقعہ پیش آیا، جس میں عبرت وموعظت کے ڈھیر سارے پہلو موجود ہیں، اور اسی لئے قرآن مجید نے ان کے واقعہ کو خوبصورت ترین داستان قرار دیا ہے(یوسف: ۳) حضرت یوسف علیہ السلام یہاں ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے لائے گئے، اور مختلف آزمائشوں سے گذر کر اس پورے خطہ کی فرماں روائی کے منصب پر فائز ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اسی سرزمین میں پیداہوئے اور یہیں نبوت سے نوازے گئے، اسی خطہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات ہوئی؛ اس لئے ایک مسلمان کے لئے مصر کی سیر کا شائق ہونا فطری بات ہے۔
طابہ سے قاہرہ کا سفر بہت تھکا دینے والا تھا، اور اس کے بیشتر حصہ میں خشک پہاڑوں اور ریگستان کے سوا دور دور تک کوئی چیز نظر نہیں آتی، کہیں کہیں خانہ بدوشوں کی کچھ جھونپڑیاں نظر آتی ہیں؛البتہ اور جو تاریخی یادگاریں ہیں، وہاں مسافروں اور سیاحوں کی موجودگی زندگی کا احساس دلاتی ہیں، بہر حال طابہ سے نکلنے کے بعد ہم لوگوں کی پہلی منزل ” کوہ طور“ تھی، یہاںپر چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ ہیں، جس جگہ ہم لوگ پہنچے، وہاں ایک پہاڑی تھی، اس کو عبور کرنے کے بعد دوسری جانب کوہ طور ہے، یہ کافی بلند پہاڑ ہے، اس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے عام طور پر لوگ رات میں چڑھائی کرتے ہیں اور پانی کی بوتلیں بھی ساتھ رکھتے ہیں، ہمارے قافلے میں بہت سے معذور لوگ تھے اور متعدد خواتین تھیں؛ اس لئے پہاڑ پر چڑھنا ممکن نہیں تھا، اگر کوئی راستہ دیارِ محبوب کی طرف جاتا ہو تو انسان کو وہ بھی محبوب ہوتا ہے؛ اس لئے محبت کی آنکھوں سے دور ہی سے اس مقام کا دیدار کیا گیا۔
یہاں پر ” کیتھرائن “ نامی چرچ ہے، جو ایک راہبہ کا بنایا ہوا ہے، جس نے مصر میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے اس ویران جگہ کو اپنی کٹیا بنایا تھا ،یہاں بھی ہم لوگوں کو لے جایا گیا،اس میں مسلمانوں کے لئے سبق ہے کہ جو لوگ باطل کے نمائندے ہیں، وہ اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے کیا کچھ کر رہے ہیں، اور ہم مسلمان فریضۂ دعوت کی طرف سے کس قدر بے توجہ ہیں؟ اسی چرچ سے متصل ایک درخت ہے، کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی جگہ سلگتی ہوئی آگ دیکھی تھی اور آگ لینے کے لئے وہاں پہنچے تھے،لوگوں میں مشہور ہے کہ جب بھی یہ درخت سوکھ کر ختم ہونے لگتا ہے، اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں نکل آتی ہیں، یہیں آپ علیہ السلام کو نبوت ملی تھی، اس کے بعد صحراءسینا میں ایک طویل راستہ طے کرنے کے بعد ہم لوگ اس مقام پر پہنچے، جہاں حضرت ہارون علیہ السلام کا قیام تھا، سڑک کے ایک طرف یہ جگہ ہے اور دوسری طرف وہ جگہ ہے، جہاں ” سامری“ نے سونے کی گائے بنا کر لوگوں کو گاو ¿ پرستی کی دعوت دی تھی اور بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد اس گمراہی کا شکار ہو گئی تھی، اس مقام پر پہاڑی سے پتھر کی ایک ایسی شکل لگی ہوئی ہے، جو گائے کا سنگی مجسمہ نظر آتا ہے، مشہور ہے کہ حضرت موسیٰ نے سامری سے ناراض ہو کر اس کی گائے کو دیوار کی طرف پھینک دیا تھا، اور وہ بچھڑے کی شکل میں پتھر بن کر پہاڑ سے چپک گیا؛ مگرقرآن کی آیت سے متشرح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کو جلا کر ریزہ ریزہ کر کے دریا میں ڈال دیا تھا (طٰہٰ: ۷۹)
یہاں سے ایک طویل سفر کے بعد مغرب کے قریب ہم لوگ اس جگہ اُترے، جس کو ” آبار موسیٰ“ یا ” عیون موسیٰ“ کہتے ہیں، یہ بحر قلزم (جس کو بحر احمر بھی کہا جاتا ہے) کے قریب واقع ہے، غالباََ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے بحر قلزم کو عبور کر کے حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے ساتھ ” وادیِ سینا“ میں پہنچے تھے، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ غرق کر دیا گیا تھا، یہاں آٹھ کنویں ہیں، چند کنویں ہم لوگوں نے دیکھے، جس میں سے دو کنووں میں پانی بھی موجودہے، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پانی کا مطالبہ کیا اور آپ نے دعاء فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پتھر پر عصا مارنے کا حکم دیا گیا، آپ نے عصا مارا اور حکم الٰہی سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، کہا جاتا ہے کہ یہ کنویںان ہی کی باقیات ہیں،یہاں پر قریب میں آبادی بھی ہے، اورمتعدد مسجدیں بھی اور دکانیں بھی ہیں؛ چنانچہ یہیں پر نماز مغرب ادا کی گئی، صحرائے سینا کے اسی طویل علاقہ میں وادیٔ تیہہ واقع ہے، جس میں بنی اسرائیل کو ان کی سرکشیوں کی وجہ سے چالیس سال تک بھٹکتے رہنے کی سزا دی گئی اور اس کھلے صحراءکو ان کے لئے جیل بنا دیا گیا۔
نماز کے بعد آگے کا سفر شروع ہوا، اور قاہرہ کے مضافات میں ” سوئزٹنل “ سے گذرنے کی نوبت آئی، یہ راستہ نہر سوئز کے نیچے زیر زمین گزرتاہے، یہاں آکر ٹریفک کا ہجوم ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ مال برداری کے لئے اس نہر کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ایک طرف ایشیا کا علاقہ ہے اور دوسری طرف افریقہ کا،مصر کے لئے نہر سوئز کی بڑی اہمیت ہے، اور یہ مصر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے، یہ خوبصورت اور روشن سرنگ نما راستہ ہے، نہر سوئز پار کرنے کے بعد ہم لوگ قاہرہ میں داخل ہو گئے، پھر بھی اپنی منزل تک پہنچنے میں ڈیڑھ تا دو گھنٹے کا وقت لگ گیا، گزرتے ہوئے دریائے نیل سے بھی گزر ہوا، قاہرہ فلک بوس میناروں اور خوبصورت گنبدوں کا شہر ہے، قدم قدم پر مسجدیں ہیں، مختلف بادشاہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں خوبصورت مسجدیں تعمیر کر کے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کی ہے، ترقی کے اعتبار سے مصر ہندوستان کے مقابلہ کمتر درجہ کا ملک ہے، سڑکیں بھی اچھی نہیں ہیں، صفائی ستھرائی کے اعتبار سے برا حال ہے، اکثر مقامات پر سرِراہ کچڑوں کا انبار ہے، کھلے ہوئے گندے نالے بیچ راستہ سے گزرتے ہیں، چوں کہ قاہرہ بھی بنیادی طور پر ریگستان ہی کا علاقہ تھا؛ اس لئے گردوغبار کی بہتات ہے، بہر حال ہم لوگ رات کے نو دس بجے اپنے ہوٹل پہنچے، جو ہمارے لئے مصری گائیڈ نے کرایہ پر لے رکھا تھا، اور دن بھر کی صحرانوردی نے کچھ اس طرح تھکا دیا تھا کہ تمام شرکائے سفر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
اگلا دن قاہرہ کے تاریخی مقامات کی سیر کے لئے تھا؛ چنانچہ ناشتہ کے بعد سب سے پہلے ہم لوگوں کو اہرام مصر لے جایا گیا، ” اہرم “ کے معنٰی پرانی عمارت کے ہیں، غالباََ اسی قدامت کی وجہ سے اس کو اہرام کہا جاتا ہے، یہ مخروطی طرز کی عمارتیںہیں، جو مصری بادشاہوں کے مقبرے کے طور پر تعمیر ہوئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ مصر میں بحیثیت مجموعی ایک سو اڑتیس (۸۳۱) اہرام ہیں، تین اہرام قاہرہ کے مضافات میں ہیں، ان میں سے بڑے اہرام کو دنیا کے سات عجائب میں شمار کیا گیا ہے، انیسویں صدی سے پہلے ۳۴صدیوں تک یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی، اس کی بلندی ۵۵۴فٹ ہے، اور اس کا رقبہ ۳۱ایکڑ ہے، اس کو ۵۲ لاکھ پتھر کے بڑے بلاگس سے تعمیر کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کا وزن ۵۲سے ۸۲ ٹن تک ہے، مصر کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا فرعون، اس اہرام میں” خوفو“ نامی فرعون مدفون ہے، ہوتا یہ تھا کہ بادشاہ کی لاش کو ممی کر کے اس کے زیورات لباس، برتن، ہتھیار یہاں تک کہ کبھی کبھی جانور، غلام اور باندیوں کے ساتھ دفن کر دیا جاتا تھا، اس اہرام کے ساتھ ۳ اور چھوٹے اہرام بھی ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی ۳بیویوں کے ہیں، اندازہ کیا گیا ہے کہ ان اہراموں کی تعمیر ۲۳ سو سال قبل مسیح عمل میں آئی تھی، یہ انسان کے لئے جائے عبرت ہے کہ جن لوگوں نے ایسی کوہ ہیکل عمارتیں بنائیں، آج وہ سامان عبرت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں، ہلکی دھوپ اور قابل برداشت خنک ہواو ¿ں کی وجہ سے ماحول بہت خوشگوار تھا، بہت سے لوگ اونٹ اور گھوڑے پر بیٹھ کر اہرام کے دامن میں تصویریں کھنچوا رہے تھے۔
اہرام مصر کی سیر کے بعد ہم لوگ قاہرہ کے مشہور میوزیم کو گئے، جس میں بہت سی چیزوں کے بشمول فراعنہ مصر کی لاشیں بھی تھیں، اسی میں ایک لاش اُس فرعون کی ہے، جس کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ پیش آیا، مفسرین نے اس کا نام ” رعمیس بتایا ہے، یہ تمام لاشیں ممی کی ہوئی ہیں، ایک عجیب بات یہ ہے کہ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس فرعون کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم تمہارے بدن کو محفوظ اور سالم رکھیں گے،تم کو پوری دنیا کے لئے نشان عبرت بنا دیں گے (یونس:۲۹) شاید اسی لئے اس فرعون کی لاش زیادہ بہتر حالت میں ہے، اس کی لاش دوسری لاشوں کے مقابلہ میں نسبتاََ لمبی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دوسری لاشوں میں رگیں سکڑ گئی ہوں اور ان کا قد چھوٹا پڑ گیا ہو، اور اس فرعون کی لاش کو من جانب اللہ اس سے بچایا گیا ہو، دوسرے: حضرت موسیٰ علیہ السلام والے اِس فرعون کی پیشانی مکمل سیاہ نہیں ہے؛ بلکہ پیشانی کے اوپری حصہ کا رنگ سانولاہے، اور سر کے بال بڑے بڑے ہیں، اس کے برخلاف دوسری لاشیں بالکل سیاہ ہو گئی ہیں، اور ان کے سر پر یا تو بال ہیں ہی نہیں، یا اگر ہیں بھی تو بہت تھوڑے۔
آج جمعہ کا دن تھا؛ اس لئے ہم لوگ میوزیم سے نکلنے کے بعد قاہرہ کی مشہور مسجد مسجد محمد علی کو گئے، یہ مسجد پوری طرح ترکی کی ” مسجد ازرق “ کے ڈیژائن پر ہے، اگر کوئی شخص اس مسجد کی صرف تصویر کو دیکھے تو سمجھے گا کہ یہ استنبول کی مسجد ازرق ہے، اور چوں کہ یہ ایک بلند پہاڑی پر واقع ہے؛ اس لئے اس کے بلند مینارے اور خوبصورت گنبد دور سے نظر آتے ہیں، مسجد کے اندر کی بناوٹ بھی بالکل استنبول ہی کی مسجد ازرق کی طرح ہے، بلند چھت، چھوٹے چھوٹے گنبدوں کو جوڑتے ہوئے بڑا گنبد، گنبدوں اور چھتوں پر خوبصورت کشیدہ کاری؛ لیکن نقل اور اصل کا فرق پوری طرح واضح ہے،یہ مسجد اُس قلعہ کے اندر ہے جو صلیبی جنگوں کے زمانہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے تعمیر کرایا تھا، ۲۷۵ھ میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا، اور ۸۷۵ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، یہ جبل مقطم نامی پہاڑ پر تعمیر کیا گیا ہے، صلاح الدین ایوبیؒ نے اس قلعہ میں سطح زمین سے نوے میٹر گہرا کنواں بھی کھدوایا تھا؛ تاکہ اگر قلعہ کا محاصرہ ہو جائے تو دشواری نہ ہو، بہر حال یہ قلعہ بھی دیکھنے کے لائق ہے، قلعہ کی چھت پر چڑھا جائے تو سامنے ایک ایسی مسجد نظر آتی ہے، جس کے چار حصے ہیں، معلوم ہوا کہ پچھلے ادوار میں یہاں اسی طرح مسجد یں تعمیر کی جاتی تھیں، اور فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے لئے الگ الگ گوشے ہوتے تھے۔
مصر کی زراعت کے لئے شروع سے دریائے نیل کی بڑی اہمیت رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل دریا ہے، جس کی لمبائی ۵۹۶۶ کیلو میٹر ہے، یہ ایتھوپیاسے نکل کر سوڈان ہوتے ہوئے مصر پہنچتا ہے، اور دوسری طرف بحیرۂ روم میں جا کر گرتا ہے، اس پر جو ڈیم بنایا گیا ہے، اس سے بننے والی جھیل ۰۵۵ کیلو میٹر لمبی اور ۵۳ کیلو میٹر چوڑی ہے، اس کا ۳۸ فیصد حصہ مصر میں اور ۷۱ فیصد حصہ سوڈان میں واقع ہے، دارالحکومت قاہرہ اور مصر کے اکثر شہر اسی دریا کے کنارے پر واقع ہیں؛ کیوں کہ مصر کے اتھاہ صحراءمیں پانی کا کوئی اور قابل ذکر ذریعہ نہیں ہے،اس دریا کا ذکر حدیث میں بھی آیا ہے، اور اسے جنت کے دریاؤں میں شمار کیا گیا ہے (بخاری، حدیث نمبر: ۷۰۲۳) اس دریا سے مسلمانوں کی بھی ایک تاریخ وابستہ ہے ، مصر کا پانی ہر سال ایک خاص زمانہ میں رُک جاتا تھا، اور دریا کو منانے کے لئے کسی کنواری لڑکی کو سنوار کر خشک دریا میں بٹھا دیا جاتا تھا، پھر پانی اُبلنے لگتا تھا، اس طرح ہر سال ایک لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی، جب فاتح مصر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشریف آوری کے بعد یہ بات پیش آئی تو انہوں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھ کر مشورہ کے طلبگار ہوئے کہ نیل خشک ہو چکا ہے، اب اس سلسلہ میں کیا کیا جائے؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جاہلانہ رسم سے منع کر دیا، اور دریائے نیل کے نام خط لکھا کہ اگر تو حکم خداوندی سے جاری تھا تو جاری ہو جا ؛ورنہ رُکا رہ؛ چنانچہ دریا جاری ہوگیا (کنز العمال:۲۱۱۶۵) اور آج تک جاری ہے۔
یوں تو آتے جاتے کئی بار اس دریا پر بنے ہوئے پُل سے گزرنے کا موقع ملا؛ لیکن آج مصر کے میزبان نے دریائے نیل کے اندر ہی اسٹیمر میں عشائیہ کا انتظام رکھا تھا، ہم لوگ مغرب کے تقریباََ ایک گھنٹہ بعد دریائے نیل کے ساحل پر لے جائے گئے، پہلے سے اسٹیمر میں جگہ بُک تھی، تھوڑی دیر میں اسٹمیر روانہ ہوا اور کھانا کھایا گیا، یہ بہت ہی دلکش منظر تھا، دریائے نیل کا پانی کافی صاف وشفاف ہے، ہمارے ہندوستان میں بڑے بڑے دریاو ¿ں کا بھی دامن سکڑ گیا ہے، اور برسات کے سواوہ ایک بڑے نالہ یا چھوٹی نہر کی طرح ہو جاتا ہے؛ لیکن دریائے نیل کی چوڑائی بھی اچھی خاصی ہے، افسوس کہ مصر نے مغربی تہذیب کو کچھ اس طرح اپنے لئے آئیڈیل بنا لیا ہے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم کسی مسلم ملک میں ہیں یا مذہبی قدروں سے آزاد مغربی ملک میں؟ ظاہر ہے کہ ایک باضمیر مسلمان جب اس صورت حال کو دیکھتا ہے تو اسے غیر معمولی کڑھن ہوتی ہے، یہاں بھی کچھ ایسے مناظر سامنے آئے کہ طبیعت بے چین ہوگئی، باہر نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا؛ اس لئے اسٹیمر کے عرشہ پر پناہ لینی پڑی، پہلے میں جناب احمد قادری صاحب (کریم نگر) کو لے کر اوپر گیا، پھر ہمارے قافلہ کے تمام رفقاء یکے بعد یگرے اوپر آگئے، یہاں اگرچہ ٹھنڈی ہواؤوں سے لوگ ٹھٹھر رہے تھے؛ لیکن وہاں سے دریا اور اس کے کناروں کا منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا، اور چوں کہ ٹھنڈک سے بچنے کے لئے سبھی حضرات گرم لباس سے مسلح تھے؛ اس لئے اس ٹھنڈک کا مقابلہ ممکن ہو سکا، دو گھنٹے دریا کی سیر کرنے کے بعد ہم لوگ نیچے اُترے اور ہوٹل واپس آگئے۔
قاہرہ کے بعد مصر کا دوسرا بڑا شہر ” اسکندریہ “ ہے، آئندہ دن صبح میں جلد ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم لوگ یہاں کے لئے روانہ ہوئے، کہا جاتا ہے کہ ۴۳۳قبل مسیح میں یہ شہرآباد ہوا، اس شہر کو مشہور فرمانروا اور فاتح سکندر اعظم نے بسایا تھا، ایک زمانہ میں اس شہر کے اندر روشن مینار (لائٹ ہاؤس) بنا ہوا تھا، جس کو دنیا کے عجائب میں شمار کیا جاتا تھا، یہاں زمانۂ قدیم میں ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی تھا، جو کتب خانہ اسکندریہ کے نام سے مشہور تھا، مستشرقین نے مسلمانوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اس کتب خانہ کو نذر آتش کر دیا اور اس کو مسلمانوں کی علم دشمنی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ الزام غلط ہے، علامہ شبلی نعمانیؒ نے مدلل طور پر تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیا ہے۔
یہ مصر کا بندرگاہی شہر ہے، اور یہیں اس کی سب سے بڑی بندرگاہ قائم ہے؛ کیوں کہ یہاں سے ایشیا، یوروپ اور افریقہ تینوں براعظم بہت تھوڑے فاصلہ پر ہیں؛ اس لئے راہداری کے اعتبار سے اس شہر کو بڑی اہمیت حاصل ہے، تیل اور قدرتی گیس کی پائپ لائنیں یہیں سے گزرتی ہیں؛ اس لئے یہ مصر کا ایک اہم صنعتی مرکز ہے، مسلمانوں نے ۴۱ ماہ کے محاصرہ کے بعد حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر قیادت ۱۴۶ھ میں اس شہر کو فتح کیا تھا ؛ لیکن رومیوں کے بحری بیڑے نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا، بالآخر مسلمانوں نے اگلے ہی سال دوبارہ اسے واپس لینے میں کامیابی حاصل کی، کتب خانہ اسکندریہ بھی اسی جنگ کے دوران رومیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
کئی حادثات سے دوچار ہونے اور تباہی وبربادی سے گزرنے کے بعد ۰۱۸۱ء میں مصر کے عثمانی گونر محمد علی پاشا نے شہر کو دوبار ہ تعمیر کرنا شروع کیا، اور ۰۵۸۱ءتک اس کی رونقیں بحال ہوپائیں، ہم لوگ ۲۱جنوری کو حسب معمول ناشتہ کے بعد اسکندریہ کے لئے نکلے اور تقریباََ چار ساڑھے چار گھنٹے میں اسکندریہ پہنچے، یہ بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے، اورساحل کا منظر بہت خوبصورت ہے، ساحل پر ایک بڑا قلعہ بھی ہے، چوں کہ یہ شہر ہمیشہ رومیوں کے حملوں کی زد میں رہتا تھا، اس سے محفوظ رکھنے کے لئے مسلمانوں نے اس قلعہ کی تعمیر کی، یہ کافی مضبوط قلعہ ہے، جس کی دیواروں سے سمندر کی لہریں ٹکراتی رہتی ہیں، ساحل سمندر کے قریب ہی ایک مسجد میں ہم لوگوں نے ظہر وعصر کی نمازیں ادا کیں، اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم ہندوستان کے کسی بڑے شہر کے قدیم محلے میں ہیں، یہاں کتب خانوں کی بڑی تعداد ہے؛ بلکہ جس مسجد میں ہم لوگوں نے نماز ادا کی، اس کے راستوں میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک دور ویہ عمارتیں ہیں، جو زیادہ تر بکڈپو ہیں، اور ان میں نئی مطبوعات کے علاوہ قدیم کتابیں بھی دستیاب ہیں۔
یہاں ہم لوگوں کو قصیدہ بردہ کے مصنف امام بوصیریؒ (محمد بن سعید بن حماد :۸۰۶-۶۹۶) کی قبر کی زیارت کا موقع ملا، آپ کی وجہ شہرت قصیدہ بُردہ ہے، یہ قصیدہ عالم اسلام کے ہر گوشے اور خطے میں پڑھا اور سنا جاتا ہے، جس طرح یہ قصیدہ نعت رسول پاک میں لاجواب اور بے مثل ہے، اس قصیدہ کا محرک اور باعث بھی اتنا ہی ایمان افروز اور عشق رسول کے جذبات کو موجزن اور متلاطم کر دینے والا ہے، امام بوصیری کہتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں چند قصائد لکھے تھے کہ اسی دوران مجھ پر فالج کا حملہ ہوا اور نیچے سے میرا نصف بدن مفلوج ہوگیا، اس حادثہ کے بعد بھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کہنے کی فکر میں ہی مستغرق تھا کہ یہ قصیدہ تیار ہوگیا، میں نے اسی قصیدہ کے وسیلہ سے اللہ سے صحت کی دعاء مانگی، اور سو گیا، میں خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرہ پر اپنا دست مبارک پھیرا ،مجھ پر اپنی چادر ڈال دی، پھر جب میں بیدار ہوا تو پوری طرح سے صحت مند تھا، اور فالج کے مرض کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا؛ چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بوصیریؒ پر اپنی چادر ڈال دی تھی اور عربی میں چادر کو بردہ کہتے ہیں، اسی وجہ سے یہ قصیدہ ” قصیدہ بردہ “ کے نام سے مشہور ہوگیا۔
اسی جگہ ان کے استاذ شیخ ابوالعباس مرسیؒ کی قبر بھی ہے، اور یہیں پر ان کے نام سے بنی ہوئی مرسی مسجد بھی ہے، ان کے علاوہ حضرت دانیال نبی علیہ السلام اور حکیم لقمان ؒکی قبروں کی زیارت کا بھی موقع ملا، حکیم لقمان کو بعض لوگوں نے نبی قرار دیا ہے؛ لیکن زیادہ تر اہل علم نے ان کو ولی قرار دیا ہے نہ کہ نبی، اسکندریہ کو نسبتاََ مصر کا سستا شہر مانا جاتاہے؛ اسی لئے گائیڈ نے وہاں لوگوں کو کچھ خریدوفروخت کے لئے بھی وقت دیا، اور شرکاء سفر نے اپنے اپنے منشاءکے مطابق خریداریاں کیں، بہر حال رات کے تقریباََ ۰۱ بجے ہم لوگ قاہرہ میں اپنے ہوٹل واپس آگئے۔
۳۱ جنوری ہم لوگوں کی مصر سے واپسی کی تاریخ تھی، جامعہ ازہر کے کچھ طلبہ جو ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں، کا بار بار فون آرہا تھاکہ جامعہ میں زیر تعلیم ہندوستانی طلبہ ملاقات کے خواہاں ہیں؛ چنانچہ ناشتہ سے پہلے ہی عزیزی مولوی محمد ایمن ظفر ،مولوی فضل الرحمن ازہری ،اور مولوی مکرم علی سلمھم اللہ تعالیٰ اپنے بعض رفقاءکے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ قافلہ کے لوگوں کو جانے دیں اورآپ ہم لوگوں کے ساتھ آجائیں، جب یہ قافلہ جامع ازہر کی زیارت کے لئے آئے تو ہم لوگ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں گے، یا سیدھے آپ کو لے کر ائیرپورٹ پہنچ جائیں گے، مجھے بھی اس تجویز سے بڑی خوشی ہوئی، مولوی ایمن ظفر سلمہ دارالعلوم مﺅ کے فارغ ہیں، اور کچھ عرصہ ان کا قیام میرے ساتھ حیدرآبادمیں بھی رہا ہے، اس وقت جامعہ ازہر سے اصول فقہ میں ماسٹر کر رہے ہیں، مولوی فضل الرحمن پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، اور وہاں کے شعبۂ معہد اللغة العربیة لغیر الناطقین میں خدمت بھی انجام دے رہے ہیں، ان کے والد مرحوم جامعہ رحمانی مونگیر میں میرے ہم عصر تھے،اور مولوی مکرم علی سلمہ میرے دوست مولانا ظفیر علی عمری صاحب (حال مقیم امریکہ وسابق استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد) کے عزیز ہیں؛ چنانچہ میں ان عزیزوں کے ساتھ روانہ ہوا، اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کم وقت میں ہمیں بہت سارے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کا شرف حاصل ہوگیا۔
ہم لوگ ہوٹل سے سیدھے جامع عمر وابن العاص پہنچے، یہ بر اعظم افریقہ میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے، مسجد کے ایک گوشے میں مکتبہ ہے، جو دراصل حضرت عبداللہ ابن عمر ابن العاص ؓکا مقبرہ ہے، جن کو صحابہ میں بہ کثرت روایتِ احادیث کا امتیاز حاصل تھا، پھر حضرت مسلمہ بن مخلدؓ کی مسجد جانے کی سعادت حاصل ہوئی، اسی مسجد سے متصل ان کی قبر مبارک بھی ہے، صحابہ کی قبروں میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر پربھی جانے کا موقع ملا، اس سے متصل بھی ایک بڑی مسجد ہے، اسی مسجد کے ایک کونہ میں چھوٹی سی قبر ہے، جس کا زیادہ تر حصہ زیرِ دیوار ہے، معلوم ہوا کہ اہل سنت کے بعض انتہا پسند معاندین کے خوف سے ان کی قبر کو چھپا کر رکھا گیا ہے۔ (جاری)