منظر بلال قاسمی
جب سے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوا ہے تب سے ایک تحریر گردش کر رہی ہے کہ تین مرحلے کے الیکشن رمضان میں ہوں گے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو پریشانی ہوگی اسلئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا جائے کہ تاریخ میں رد وبدل ہو۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ بے وقت کی راگنی اور نا مناسب مطالبہ ہے
1۔ تقریباً 2 مہینہ سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اپریل اور مئی میں الیکشن ہونا ہے اور یہ بات بھی معلوم تھی کہ مئی کے پہلے ہفتہ سے رمضان ہے۔ تب سے صاحب تحریر کہاں سو رہے تھے؟
2۔ جو مسلمان روزہ رکھتے ہیں وہ روزہ کی حالت میں مزدوری بھی کرتے ہیں، رکشہ چلاتے ہیں،اپنی ڈیوٹی کے لئے آفس جاتے ہیں، اور طویل سفر بھی کرتے ہیں مگر روزہ نہیں توڑتے۔ اسلئے روزہ داروں کو ووٹ کے لئے تھوڑی دیر کھڑے رہنے میں کوئی زیادہ پریشانی ہو نے والی نہیں ہے۔
3۔جو لوگ روزہ نہیں رکھنے والے ہیں وہ گھر میں بیٹھ کر بھی روزہ نہیں رکھتے۔ تو ایسے لوگوں کو بھی رمضان میں ووٹ ڈالنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیو نکہ وہ روزہ سے ہی نہیں ہوں گے۔
4۔ جہاں تک بات عمر دراز حضرات کی ہے تو میرا مشاہدہ یہ ہے کہ سیکورٹی فورسیس اور آفیسر عمر رسیدہ لوگوں کو بغیر لائن کے ہی ووٹ ڈالنے کی عام طور پر اجازت دیدیتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا ہے تو آپ دوپہر کے بعد ایسے حضرات کو لیکر جائیں جب عموما بھیڑ بہت کم ہو جاتی ہے۔
5۔مجھے لگتا ہے کہ اگر رمضان نہیں بھی ہوتا تو بھی مئی میں گرمی کی وجہ سے عمر رسیدہ حضرات کو پریشا نی ہوتی تو کہیں ایسے لوگ یہ نہ مطالبہ کر بیٹھتے کہ بھائی الیکشن سردی میں کروائیں۔
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی تحریر پھیلاکر ہم لوگوں کو رمضان میں ووٹ ڈالنے سے پست ہمتی کا شکار بنانے کی بجائے لوگوں کو آمادہ کریں کہ ووٹ ڈالنا بھی ایک ذمہ داری ہے جسے ہم پورے ہوش کے ساتھ ادا کریں اور سیکولر سرکار بنانے میں اہم کر دار ادا کریں۔
پریشانی یہ ہے کہ ہم اِن بے کار کے مطالبات میں انر جی صرف کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے جبکہ ہندوستانی مسلمانوں کے ہزاروں مسائل ہیں جن کے لئے آواز اٹھانی چاہئے، مطالبات کو پر زور طریقہ سے متعلقہ لوگوں تک پہونچانا چاہئے مگر ہم نے اپنی ترجیحات ہی طے نہیں کی ہے اس لئے بے سمت چلتے جاتے ہیں۔اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔