یوم نسواں، تبدیلی کا تخم

 سیمیں کرن

مجھے یاد ہے جب چھوٹی سی تھی دس گیارہ برس تک کی تو مہندی، چوڑیوں، گہنوں کا اتنا شوق تھا کہ بس۔ عید ہو یا کوئی تہوار ماں مجھے کسی کانچ کی گڑیا کی طرح بنا سنوار دیتی، ایک ایک چیز بالوں کے پھول پتے، گلے کے ہار، بندے انگوٹھیاں ماں کس چاؤ سے لے کر دیتی، ایک سے بڑھ کر ایک فیشن کا کپڑا خود سی کر پہناتی اور بس اس کے بعد میں ہوتی عید کے منے سے پرس میں جمع عیدی اور بازار، گھر واپس آتی اور پھر سیمنٹ کی الماری میں اونچائی پہ دھرے شیشے تک پہنچنے کے لیے اسٹول رکھا جاتا، میک اپ دوبارہ درست ہوتا، ماں چھیڑتی، گدگداتی مگر اس نے کبھی منع نہیں کیا تھا۔

اس کی قیمتی چیزوں پہ ہاتھ صاف کیا میں نے مگر ذرا سی بڑی ہوئی اردگرد کے ماحول کو دیکھا جہاں عورت اس کا سنگھار اس کا زیور اس کی کمزوری ٹھہرتے تھے۔ دو رخا معاشرہ ایک طرف عورت کو انہی رنگوں میں سجا دیکھنا چاہتا اور دوسری جانب انہیں اس کی کمزوری بھی گردانتا، جانے حساس دل پہ کیسی چوٹ پڑی، نظروں کی غلیظ ہوس کیسے روح کو پامال کر گئی۔ یک لخت ہر چیز سے جی اُوب گیا بہت سادہ رہنا شروع کردیا، میں نے اپنے جیب خرچ سے خود چادر خریدی، باپ کے ساتھ جا کر بال سیٹ کروانے سے انکار کر کے لمبے پراندے پہنے تو ماں نے مجھے غصے سے ماسی کہا، کپڑوں کے رنگ بھی بس سفید ہوتے یا سیاہ، مہندی چوڑی سب چھوڑ دی، جانے یہ رد عمل تھا کہ یہ زیور میری کمزوری نہیں یا مجھے کوئی اس آرایش کے باعث تحقیر کی نظر سے نہ دیکھے۔

میرے ماں باپ سمجھدار تھے انہوں نے میری سوچ کا راستہ نہیں کاٹا، تعلیم اورمکالمے سے روشنی دی، مذہبی روایتی بیانیے نے مجھے اس قدر احساس کمتری کا شکار کر دیا تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ میں نفسیاتی مریض بن جاؤں گی۔ اسی چودہ پندرہ برس کی عمر میں میرے باپ نے مجھے غلام احمد پرویز کی تفسیر سے متعارف کروایا وہ بہت بڑا فیمنسٹ تھا اور بہت کم سنی میں میں یہ سمجھ آ گیا کہ نظریات کسی بھی مجبور قوم کی ضرورت کیسے بن جاتے ہیں عقائد ہمیشہ کسی ضرورت پہ کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ تو کتھا تھی اک حساس روح و دل کی جس کی بغاوت کے رنگ اپنی طرز کے رہے مگر معاشرتی و صنفی تفاوت پہ ہر ذی روح کا رویہ ایک سا ہرگز نہیں ہوگا تعلیمی بیداری اور گلوبل ویلج جیسی سمٹتی دنیا میں اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ عورت کے حق کو روایتی معاشرتی مذہبی بیانیے سے کنٹرول کر سکتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے یہ اَمر مزید بغاوت کو جنم دے گا یا تو نئی تعبیر لائیے یا اپنی جنس کا چولا اتار کر انسان بن کر سوچیے کہ مجھ جیسے انساں کے حقوق مجھ جیسے کیوں نہیں؟

یہ سب آج مجھے اس لیے یاد آیا اور اس پہ بات کرنا اس لئے ضروری ہوگیا تھا کہ آٹھ مارچ گزرا ہے یوم نسواں پہ بننے والے بینرز ہر طرف زیر بحث ہیں، خوب شور و غوغا بلند ہے، کچھ بھلے لوگ مفاہمانہ دفاعی انداز میں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان بیبیوں نے پلے کارڈ ہی اٹھائے ہیں آپ کی بھینس نہیں چرائی اور معاشرے کے دوغلے پن کو سامنے لانا ہی ان کا مقصد تھا۔

آج ان پلے کارڈ کے حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام بھی دیکھ رہی تھی جس میں ایک صاحب اور صاحباں یہ فرما رہے تھے کہ مان لیا یہ سب عیب اس معاشرے کے مردوں میں ہیں تو کیا ضروری ہے کہ عورتیں بھی ویسی بن جائیں۔ اس لطیفے پہ میرا دل قہقہے لگانے کو چاہتا ہے کیونکہ جس معاشرے کے مردوں کی کثرت خراب ہوجائے تو وہاں کی عورت کیسے درست رہ سکتی ہے؟ آخر یہ مرد حضرات اپنی نہ سہی کسی کی خواتین کے ساتھ برابری میں ملوث پائے جاتے ہیں تو بات تو مجموعی ہوگی تیری میری تو نہ رہے گی۔

دوسری طرف وہ حضرات ہیں جو دانت کچکچائے ان بیبیوں کے لیے وہ بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں کہ الامان الحفیظ چلیے ان کے اپنے اندر کا سارا بازار باہر آ گیا۔ کہیں اعتراض ہے کہ اپنا موزہ خود ڈھونڈ لو یا سالن خود گرم کر لو کہنے کی جرات کیسے ہوئی، عورت ہو کر یہ جرأت جب کہ میں آج بھی صبح دم آرام سے بیٹھے مرد حضرات کو چیختے چلاتے دیکھتی ہوں کہ میری فلاں جراب نہیں مل رہی، چائے ٹھنڈی سر میں مار دی، سالن میں نمک کم ہے، بیوی ناشتہ چھوڑ بوکھلائی پھر رہی ہے، بچے الگ چیخ رہے ہیں اور صاحب اپنی مردانگی تن فن انڈیل یہ جا وہ جا۔

تو صاحب ایسے مرد کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ تم جو ٹاک شو بیٹھے دیکھ رہے ہو اپنا موزہ خود ڈھونڈ کر اپنی اور میری زندگی کچھ آسان کر سکتے ہو ا اور اس عمل سے مردانگی کوئی ایسی کمزور چیز نہیں جو جھڑ کے گر جائے گی۔ اسی طرح بے شمار مرد ہیں جو رات کو بہت دیر سے گھر پہنچتے ہیں۔ کھانا نکال کر سب کچھ رکھ بھی دیا جائے تو صاحب کو پلیٹ اوون میں گھمانا گوارا نہیں۔ گھر کی خواتین نیند میں اٹھیں گی یا بیٹھی انتظار کا جھولا جھولتی رہیں گی تو ایسے شخص کو یہ سبق دینا ضروری ہے کہ اپنا کھانا خود گرم کر لو۔

میرا جسم میری مرضی کیوں آپ کو تکلیف دیتا ہے کیا آپ کے جسم پہ میری مرضی چلتی ہے کیا یہ جسم میرے رب نے مجھے نہیں دیا تھا اسے کہاں کس حد تک کھپانا ہے کتنی محنت کرنی ہے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اس کا فیصلہ میں کیوں نہ کروں۔

میں اکیلی آوارہ بدچلن پہ بڑی لے دے ہوئی ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ مجھے اعتراف کر لینے دیجیے میرے اردگرد بسنے والے مرد جن کے نام لیتے میرے پر جلتے ہیں میں روز دیکھتی ہوں کہ ورکنگ لیڈی کا نام وہ گالی کے طور پہ لیتے ہیں، ضرورتا ً اکیلی جاتی عورت کسی فیشن ایبل کپڑوں میں ہو تو انہیں سلٹ اور طوائف لگتی ہے، مرد کے گھٹنے پھٹی جینز سے ننگے ہوں وہ قیمض پہنے یا نہ پہنے اس کی عزت پہ کوئی حرف نہیں آتا، کوئی عورت اسے دیکھ کر متوجہ نہیں ہو سکتی۔ مان لیجیے آپ کے معاشرے میں وہ آج بھی صرف ایک ابجیکٹ ہے۔

ایسے حالات میں آج یہ پلے کارڈ بظاہر بڑے متنازع لگتے ہیں کچھ ناگوار بھی گزرتے ہیں مگر یہ ذہنوں میں سوال چھوڑتے ہیں ان پہ اچھی بری بحث کی جاتی ہے جو ذہن سازی کرتی ہے اور یہی ان کا مقصد ہے۔

آج یہ بیبیاں آپ کو موم بتی مافیا اور طوائفیں لگ رہی ہیں یہ آنے والے کل کی پاینیرز ہیں انہی جیسے لوگ تھے جنھوں نے آج سے سو سال پہلے دو سو سال پہلے کچھ روایات توڑی ہوں گی، انہیں بھی اسی طرح برا بھلا کہا گیا ہو گا بلکہ کہیں زیادہ ہی کہا گیا ہو گا، رسوا کیا ہو گا مگرآج ہم جہاں ہیں ان کی وجہ ہی سے ہیں۔

آج سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے عورت کے لیے اردو شاعری پڑھنا بد کرداری کی علامت سمجھا جاتا تھا مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو شاید والد نے کسی سے سنا تھا کہ دیہات میں حکیم کے پاس دیہاتی نے اپنی بیوی کے لیے پوچھا کہ کیا عورتوں کے بھی گردے ہوتے ہیں؟ جی جناب یہ گردے ہیں بھیجا نہیں جو اس رب نے ہمارے دماغ میں آپ کے سائز کا ہی رکھا ہے اور قسم پیدا کرنے والے کی بیکار تو نہیں رکھا ہو گا اور صرف آپ کے موزے ڈھونڈنے اور کھانا گرم کرنے کے لئے بھی نہیں رکھا ہو گا۔

بات محبت کے دستور کی نہیں محبت میں وہ قربانی ہی قربانی ہے مگر یہ بات اس حق کی ہے جو آپ نے غصب کیا ہے یہ آپ ہی کو دینا ہو گا آپ میں سے کچھ اچھے لوگ اس کے ہراول دستے بنیں جیسے غلامی کے خاتمے میں کلیدی کردار مالکان کا تھا آپ لاکھ سر پیٹئے مگروہ عورتیں جو کہنا چاہتی تھیں کہہ گئیں وہ نیا منظر نامہ دکھا رہی تھیں جن میں کچھ بہت تلخ سچ ہے کچھ غلط لگ رہی ہوں گی کچھ شدت پسندانہ موقف مگر غم و غصہ ایسا ہی ہوتا ہے بغاوت اور جنگ ایسی ہی ہوا کرتی ہے جس سے بہت غبار اٹھتا ہے اس غبار سے پہلے گرد اٹھتی ہے گرد بیٹھ جائے گی مگر ان کی آواز کی گونج دیر تک گونجے گی کچھ عرصہ اک تمسخر کی صورت مگر یہیں سے تبدیلی کے تخم بار آور ہوں گے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں