انسانی تہذیب و تمدن میں ابتداء سے ہی جسمانی اور روحانی صفائی اور پاکیزگی و طہارت پر زور رہاہے ۔دنیا کے تمام مذاہب اور قدیم ترین تہذیبیں خصوصیت سے صفائی پر زور دیتی رہی ہیں ۔صفائی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر احاطہ کرتی ہے اور دونوں کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔۔مناظر قدرت میں صفائی فطری طور پر موجود ہے ۔صفائی کا حسن و جمال سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو پاک،صاف ہے وہی حسین و جمیل بھی ہے۔صاف ہوا صاف پانی اور صاف زمین انسانی تہذیب کی بنیادی ضرورت ہے اور صدیوں سے اس کے لئے جد وجہد ہوتی رہی ہے ۔انسان ابتداء ہی سے اس کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہا اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر اسی تلاش و جستجو کا نتیجہ ہے۔دنیا کی تمام بستیوں اور آبادیوں نے وہیں فروغ پایا ہے جہاں یہ سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں ۔ان میں سے کسی ایک کی کمی یا فقدان کی صورت میں بستیاں یا تو تباہ و برباد ہوگئیں یا دوسری جگہ منتقل ہو گئیں مذکورہ خیالات کا اظہار معروف سماجی خدمت گزار محمد امتیاز (نورانی) چیئرمین کربس گروپ آف ہاسپٹل دہلی نے اپنے خطاب میں کہا انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی تہذیب و تمدن میں بھی چیزوں کے خالص ہونے اور پاک صاف ہونے کو خاصی اہمیت حاصل رہی ہے ، حقیقت میں خالص ہونے اور پاکیزہ ہونے کا معاملہ صفائی سے مربوط ہے ہندوستانی تہذیب و تمدن میں ذاتی و نجی صفائی پر خاص توجہ دی گئی ہے ۔روایتی قسم کے ہندوستانی باورچی خانوں میں غسل کے بعد ہی داخلے اور کھانا بنانے کی اجازت تھی روایتی انداز میں عوامی اجتماعات میں کھانا بنانے والوں کو مہاراج کہا جاتا تھا اور ان سے یہ توقع رہتی تھی کہ وہ غسل کرنے اور صاف ستھرا لباس پہننے کے بعد ہی کھانا بنائیں گے کیوں کہ صفائی ستھرائی کا مسئلہ بہت کافی حد تک انسانی صحت و تندرستی کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے ۔ صحت مند اور تندرست رہنا انسان کا پیدائشی حق ہے اور صحت و تندرستی بیماریوں سے نجات کی صورت میں ہی ممکن ہے ہے اور بہت سی بیماریوں سے ہم ذاتی اور نجی قسم کی صفائی ستھرائی کی بنیاد پر نہ صرف محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ حسین و جمیل اور قوی و توانا بھی بنے رہ سکتے ہیں۔