بھارت کو کرونا وائرس سے زیادہ بڑی تباہی کا سامنا !

شمس تبریز قاسمی

خبر در خبر (626)

کرونا وائرس پر قابو پانے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے بھارتی حکومت نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ اس کو مزید بڑھاوا دینے ، وائرس کے پھیلنے اور عوامی ہلاکت سبب بن گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرونا وائرس پر قاپو پانے کا واحد حل سماجی فاصلہ بنانا اور گھروں تک زندگی محدود کرنا ہی ہے ۔اسی کے مدنظر اکیس دنوں کیلئے 14 اپریل تک پورا بھارت لاک ڈاؤن ہے لیکن حکومت نے جس طرح لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور اس کے بعد جس طرح اس پر عمل ہورہا ہے وہ کرونا وائرس سے زیادہ بڑی تباہی کا سبب بن رہاہے۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کڑووں لوگ بھوکے پیاسے سونے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر ٹہل رہے ہیں۔ لاکھوں غریب ایسے ہیں جن کے پاس سونے کیلئے نہ تو کوئی چھت ہے اور نہ کی جھونپڑی میسر ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی مدد کا کوئی بند و بست اور انتظام نہیں ہے۔ این جی اوز کے کاموں میں بھی رخنہ ڈالا جارہا ہے ۔ اگر کوئی مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو انتظامیہ نے کئی ساری مشکل شرطیں عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے لوگ چاہ کر بھی مدد نہیں کر پا رہے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے فی الحال مدد کا اعلان ہورہا ہے۔ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں نے کئی سارے منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی اعلان پر عمل نہیں ہوا ہے۔

بھارت کی تقریباً 70 فیصد آباد ی کا انحصار یومیہ مزدوری پر ہے۔ وہ روزانہ کماتے اور کھاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے علاقے اور گاؤں دیہات میں مزدوری پیشہ سے وابستہ ہیں جبکہ بڑی تعداد دہلی ،ممبئی ، کولکاتا ، چنئی ، بنگلور ، حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں مزدوری کرتے ہیں یا وہاں کسی طرح کے روزگار اور ملازمت سے وابستہ ہیں۔ شہروں میں رہنے والے زیادہ تر تنہا رہتے ہیں ۔ ان کی فیملی اور بچے آبائی وطن میں ہوتے ہیں۔ وہ پورے سال کام کرتے ہیں اور ایک مرتبہ گھر جاتے ہیں۔ دہلی ممبئی ہی ان کیلئے پردیش ہوتا ہے ۔ شہروں میں کرایہ پر مکان لیکر رہتے ہیں ۔دس گز کے روم میں کم و بیش چار لوگ سوتے ہیں۔ کھانا یہ لوگ خود بنانے کے بجائے ہوٹل یا میس سے کھاتے ہیں ۔ اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہی لوگ سب سے زیادہ متاثر اور پریشان ہیں ۔ کیوں کہ ان کے پاس راشن نہیں ہے۔ پیسہ نہیں ہے ، اگر راشن دستیاب ہوجاتاہے تو کھانا بنانے کیلئے ان کے پاس گیس چولہا نہیں ہے ۔ کھانے کے سبھی چھوٹے بڑے ہوٹل بند ہیں ۔ اسی صورت حال سے پریشان ہوکر لاکھوں لوگ دہلی میں سڑکو ں پر جمع ہیں ۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ پیادہ پا دہلی سے یوپی، بہار، ہریانہ اور مغربی بنگال کیلئے نکل پڑے ہیں۔ ممبئی سے لاکھوں لوگ پیادہ پا بہار ، یوپی اور مغربی بنگال کیلئے سفر کررہے ہیں۔ راستے میں انہیں پانی تک نہیں مل رہا ہے ۔ کھانا بھی دستیاب نہیں ہے ۔ ان کی بس یہی آخری خواہش ہے کہ ہم کسی طرح اپنے آبائی وطن پہونچ جائیں ۔ اس بیچ پولس جگہ جگہ انہیں پریشان کررہی ہے۔ دہلی غازی آباد باڈر، آنند وہار، لکھنو اور پٹنہ سمیت کئی جگہوں پر پولس نے لاٹھیاں بھی چار ج کی ہے۔ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ گھر جانے والوں کو پولس نے تحاشا مارا ہے۔ کئی واقعہ پولس کی فائرنگ کا بھی سامنے آچکاہے ۔

لاک ڈاؤن کے دوران پولس کا رویہ سب سے زیادہ شرمناک ہے۔ سڑک پر کسی کو دیکھتے ہی پولس لاٹھی چارج کردے رہی ہے۔ حالاں کہ پولس کو چاہیے تھے کہ اگر کوئی بھی شخص سڑک پر ،مارکیٹ میں نظر آتاہے تو اسے سمجھائے۔ مناسب انداز میں بات کرے اور ہدایت کرے کہ وہ لاک ڈاؤن اور دفعہ 144 پر عمل کرے۔ اگر ان سب ہدایات کے باوجود دوبارہ کوئی بات نہیں مانتاہے تو پھر پولس کو کاروائی کا اختیار ہے لیکن بھارت میں ہمیشہ کی طرح لاک ڈاؤن کے دوران بھی پولس کی دہشت گردی جاری ہے ۔

کرونا وائرس کی وجہ سے تقریباً آدھی دنیا لاک ڈاؤن ہے۔ کچھ ممالک میں جزوی طور پر لاک ڈاؤن ہے تاہم ہمارے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ روڈ ، ٹرین ، فلائٹ سبھی کچھ بند ہے۔ لاک ڈاؤن کا فیصلہ سرکار کا غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مناسب حل بھی نہیں ہے لیکن جن ممالک کو دیکھ کر بھارت نے لاک ڈاؤن کیاہے ان سے یہ بھی سیکھنا چاہیئے تھاکہ لاک ڈاؤن سے پہلے وہاں کیا کیا اقدامات کئے گئے۔ عوام کو پریشانیوں سے بچانے کیلئے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ وہاں کا بلدیاتی نظام کتنا مستحکم اور منظم ہے ، وہاں کی سرکار عوام کو پریشانیوں بچانے بچانے کیلئے کیا کیا اقدامات کررہی ہیں۔ ہمارے یہاں پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 مارچ کو ایک دن کیلئے جنتا کرفیو کا اعلان کیا۔ عوام نے خیر مقدم کیا ۔ مکمل ساتھ دیا ، اسی رات مختلف ریاستوں نے اپنے یہاں 31 مارچ تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور اس کے بعدوزیر اعظم مودی نے پورے ملک میں 21 دنوں کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ وزرات داخلہ نے 18 نکات پر مشتمل ہدایت نامہ جاری کرکے واضح کیا کیا اس دوران کیا کیا بند رہیں گے اور کن چیزوں کو استثناء حاصل ہے ۔ اس اچانک اعلان کی وجہ سے کڑوروں لوگ مشکلات کے شکار ہیں اور اس خدشے نے پریشانی میں سب سے زیادہ اضافہ کردیا ہے کہ یہ لاک ڈاؤن صرف 21 دنوں کیلئے نہیں ہے بلکہ آگے تین ماہ تک جاری رہ سکتا ہے ، 14اپریل کے بعد سرکار اسے آگے بڑھانے کا اعلان کرسکتی ہے!

بھارت کا میڈیکل نظام بہت کمزور ہے۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتال میں یہاں صرف 45 ہزار وینٹیلیٹرز ہیں ، 1826 افراد کیلئے صرف ایک بیڈ ہے ۔ 11600 افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے ۔ 84000 افراد کیلئے صرف ایک آئسولیشن بیڈ ہے ۔ نیشنل ہیلتھ پروفائل کے مطابق ایک ارب 33 کڑور کی آبادی والے ملک میں صرف 23582 سرکاری ہسپتال ہیں اور 710761 بیڈ ہیں۔ دہلی سمیت کچھ بڑے شہروں میں سرکاری ہسپتال کا نظام کسی حدتک درست ہے لیکن دیہاتوں کے سرکاری ہسپتال کی صورت حال بیحد بدتر ہے ۔ عموماً ایک ضلع کی آباد ی یہاں 15سے 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے جہاں ضلع ہیڈ کوارٹر میں صرف ایک صدر ہسپتال ہوتاہے اور یہ بھی برائے نام، حادثہ میں مارے گئے لوگوں کے پوسٹ مارٹم کے علاوہ کچھ اور کام نہیں اس ہسپتال میں ہوپاتا ہے ،کچھ صوبوں میںبلاک سطح پرہسپتال بنے ہوئے ہیں لیکن وہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں بالکل اکثر بند پڑے ہیں ۔ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر کئی سارے ایسے ہسپتال کی گراؤنڈ رپوٹ بھی بتائی گئی ہے جہاں سالوں سے ڈاکٹر اور نرس نہیں آتے ہیں ۔

 چین ، امریکہ، برطانیہ ، اسپین اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک جب کرونا وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہیں تو بھارت کیلئے اس بارے میں سوچنا اور قابو پاناکی کوشش کرنا بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے ہمارے ملک میں ابھی کرونا وائرس زیادہ لوگوں کو اپنا شکار نہیں بناسکا ہے۔ ابھی تک ایک ہزار کیسز سامنے آئے ہیں ، 25 کی موت ہوچکی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعاء ہے کہ یہیں پر یہ سلسلہ رک جائے ، آگے نہ بڑھے ۔ اگر اٹلی، ایران اور امریکہ کی طرح یہاں بھی وباءعام ہوگئی تو پھر اس پر قابو پا نا بہت مشکل ہوجائے گا ۔

پرائم منسٹر وزیر اعظم نریندر مودی نے لاک ڈاؤن کی بنا پر ہونے والی پریشانیوں کیلئے آج ” من کی بات “ میں غریبوں اور مزدورں سے معافی مانگی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پریشان حال عوام کو حکومت ان کی منزل تک پہونچانے کا بندو بست کرے یا پھر وہ جہاں ہیں وہیں پران کے طعام ، قیام اور دیگر ضروریات کا اہتمام کیا جائے۔ بلاک اور پنچایت کی سطح پر جس طرح پولس لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کیلئے متحرک وفعال ہے اور کسی کو بھی سڑک پر دیکھتے ہوئے لاٹھی چلارہی ہے اسی طرح تمام گھروں کیلئے راشن اور دیگر ضروری اشیاءبھی سرکار دستیاب کرائے ورنہ کرونا وائرس سے بڑی تباہی فاقہ کشی ثابت ہوگی۔ آج ہی دہلی کے ذاکر نگر میں ایک موت بھگڈر کی وجہ سے ہوگئی ہے کیوں کہ شام کے وقت لوگ ضرروت کا سامان خرید رہے تھے تبھی پولس کے آنے کی خبر پھیلی اور بھگڈر میں ایک کی موت واقع ہوگئی ۔

چین میں جب کرونا وائرس سے تباہی برپا تھی اس وقت بھارت نے کوئی توجہ نہیں دی نہ یہاں کی میڈیا میں کبھی اس خبر کو اہمیت دی گئی ۔ چین کے بعد کرونا وائرس نے جب اٹلی ، ایران سمیت دوسرے ملک میں دستک دی اس وقت بھی بھارت کی سرکار سوتی رہی جبکہ دیگر ممالک نے اسی دوران احتیاطی تدابیراختیا رکرنا شروع کردیا۔ بی جے پی حکومت صرف این پی آر کے مسئلے کوزورو شور کے ساتھ اٹھاتی رہی ، شاہین با غ پر سیاست کرتی رہی ، اسی دوران دہلی میں مسلم کش فساد کرایا گیا تین دنوں تک مسلمانوں کا قتل عام ہوا ۔ بھارت کو بہت پہلے توجہ دینے کی ضرروت تھی۔ شروع میں ہی احتیاطی قدم اٹھانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بہر حال لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کیلئے ضرروی ہے کہ سرکارغریبوں اور مزدور کے بنیادی مسائل پہلی فرصت میں حل کرے ۔

(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر ہیں )

stqasmi@gmail.com