پروفیسر اختر الواسع
دہلی فسادات کے درد و کرب اور متاثرین کی ٹیس کو جلد فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ فساد ماضی کے جملہ فسادات سے مختلف تھا اور صاف طور پر محسوس کیا گیا کہ اس کو انجام دینے سے پہلے پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب اس فسادکے حوالے سے عدالتی چارہ جوئی میں بھی سازش چل رہی ہے ۔ کچھ لوگوں کی منشاہے کہ عدالتی سطح پر گناہگاروں کو بچایا جائے ، چنانچہ گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے عدالتوں میں چارہ جوئی کے لیے وکلاءکے پینل کی ایک تجویز پیش کی تھی جس کی حمایت مرکزی حکومت کے اشارے پر ایل جی انل بیجل بھی کررہے تھے۔جب کہ دہلی حکومت کا اصرار تھا کہ وہ خود عدالتوں میں پیروی کے لیے اپنے وکلاء کا پینل مرتب کرے چونکہ پولیس تفتیشی ایجنسی ہے اس لیے اس کے ذریعے متعین کیے گئے وکلاء کے پینل سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ۔ چنددنوں قبل دہلی حکومت کی کابینہ نے بھی ایل جی اور دہلی پولیس کے مجوزہ پینل کو مسترد کردیا تھا لیکن مرکزی حکومت کے اشارے پر اپنے آئینی اور استثنائی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پھر ایل جی نے دہلی حکومت کے موقف کو خارج کرتے ہوئے دہلی پولیس کے وکلاء کے پینل کو منظوردے دی ہے ۔ درانحالیکہ سپریم کو رٹ میں 2018ء میں دئیے گئے اپنے ایک فیصلے کی روشنی میں وکلاءکے پینل کی تقرری کا اختیار دہلی حکومت کو ہے ۔دہلی پولیس اور کجریوال حکومت کے درمیان اس رسہ کشی سے بھی جو بات مترشح ہوتی ہے وہ کافی تشویشناک ہے کہ اس میں بھی گناہگاروں کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اب تو یہ بات صاف ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے کہ وکلاءکے پینل کی تقرری کے اس کھیل کے پیچھے کچھ نہ کچھ دال میں کالا ضرور ہے اور اب اگر عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کے دوران مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوجائے تو یہ بعیدنہیں ۔ ماضی کے تمام اشارے اس بات کے گواہ ہیں کہ فسادات بھڑکانے والے کرداروں کو دانستہ طور پر دہلی پولیس نے بچانے کی کوشش کی ہے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی صدارت میں ہونے والی کابینہ کی میٹنگ میں جو بات کہی گئی ہے وہ قابل قدرمعلوم ہوتی ہے کہ سرکارنے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی فسادات کے حوالے سے گناہگار بچیں نہیں اور بے گناہ پھنسیں نہیں۔ دہلی فسادات کی عدالتی چارہ جوئی پر اب سب کی نگاہیں اس لیے ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ دہلی فسادات میں لٹے پٹے مسلمانوں کی پیروی اگرمناسب نہیں ہوئی تو سازشی ٹولہ مظلومین کو گناہگار نہ قرار دے دے۔ اس قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز میں ا س لیے گرفتارہیں کہ ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور دہلی فسادات کو اکسانے کے واضح شواہد و ثبوت کے باوجود بی جے پی سے وابستہ کئی اہم سیاسی لیڈران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ فساد بھڑکانے کے لیے واٹس ایپ گروپ اور ہتھیاروں کی برآمدگی کی بات بھی سامنے آئی لیکن اس حوالے سے کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ۔ ایک نرسنگ ہوم میں سیکڑوں ہندو نوجوانوں کی موجودگی اور وہاں سے فائرنگ کے واضح ثبوتوں کے باوجود نامزد ایف آئی آر سے پولیس بچتی رہی ۔ دہلی فسادات کے حوالے سے پولیس کا رویہ کافی متعصبانہ رہا ہے ، ا س لیے ہرشخص کو خطرہ اس بات کا ہے کہ کہیں عدالتوں میں بھی مظلوم اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکیں۔
انصاف نہ ملنے کے خدشات کا پیدا ہونا اس لیے فطری ہے کیونکہ دہلی فسادات کے مجرمین سے توجہ بھٹکانے کی کوششیں شروع دن سے چل رہی ہیں ۔ دہلی پولیس کا رویہ ہو یا میڈیا کے ایک طبقہ کی روش، یا پھر بی جے پی کے سیاست دانوں کا ردعمل ،سب کا مقصد ہے کہ ہندوؤں کے ظلم و ستم اور فرقہ وارانہ جرائم کو مٹاکر مسلمانوں کو ظالم و جابر ثابت کردیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ایسے لوگوں کی بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جن کا مشرقی دہلی سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ مشرقی دہلی میں جاری سی اے اے مخالف احتجاج سے کوئی تعلق تھا ۔پولیس مسلسل اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح مشرقی دہلی کے فسادات کو شاہین باغ سے لنک کردیا جائے ۔ دوسری طرف پڑھے لکھوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اسے حکومت مخالف فساد ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ، چنانچہ کچھ دانشوروں نے ” دہلی رائٹس 2020: رپورٹ فرام گراؤنڈ زیرو ، دی شاہین باغ ماڈل ان نارتھ ایسٹ دہلی فرام دھرنا ٹو فساد “ کے عنوان سے 48 صفحات کی ایک رپورٹ مرکزی وزیرجی کشن ریڈی کو سونپی تھی ، ان دانشوروں نے دہلی فساد کے دوران آگ زنی، توڑ پھوڑ، لوٹ پاٹ اور قتل عام کی وارداتوں کے پیچھے ’اربن نکسل جہادی نیٹ ورک‘ کا ہاتھ ثابت کیا تھا ۔ دانشوروں کے اس گروہ نے اربن نکسل جہادی کی جو جدید اصطلاح وضع کی ہے پہلے تویہ خود مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے اور زمین پر اس تین لفظوں کے ملغوبے کا کہیں اتا پتہ نہیں ہے ، تاہم اسی قسم کی اصطلاحات کا استعمال بی جے پی حکومت خود پر تنقید کرنے والوں کے لیے کرتی رہی ہے ۔ اسی طرح کی ایک اورٹیم ”کال فارجسٹس“ (سی ایف جے) نے بھی ”دہلی دنگے : سازش کا پردہ فاش “ کے عنوان سے 70 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیارکی تھی جو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے پیچھے ’لیفٹ جہادی انقلاب‘ کا ماڈل تھا ۔ مذکورہ دونوں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا مقصد دہلی فسادکو ہندو مخالف ثابت کرنا تھا اور ان لوگوں کو اس کا ذمہ دار بتانا تھا جو یونیورسٹیو ںمیں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ ان رپورٹوں ، پولیس کا جانبدارانہ رویہ اور میڈیا کے ایک طبقے کی منفی ذہنیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی فساد کا ذمہ دار مسلمانوں کو ثابت کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں پیروی کے لیے وکلاء کے پینل کی تقرری کے لیے بحث تیز و تند ہوئی اور بالآخر مرکزی حکومت کے اشارے پر ایل جی نے پولیس کے پینل کو ہی ہری جھنڈی دے دی ۔
دوسری طرف دہلی فسادات کے متاثرین کی دادرسی اور ریلیف و باز آبادکاری کا کام مسلم تنظیموں اور سماجی اداروں نے کیا وہ زمین پرنظر تو آیا مگر دہلی سرکار ہو یا مرکزی سرکار، ان کی جانب سے فسادات کی زد میں آئے لوگوں کی دوبارہ اقتصادی سرگرمیوں کے لیے جس بڑے پیمانے پر پیش قدمی کی ضرورت تھی ا س میں کمی نظر آرہی ہے ۔مہلوکین اور متاثرین کو واجب معاوضہ اور ان کی بازآباد کاری کا کام ناقص ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی مسلسل مطالبہ کررہے ہیں کہ دہلی فسادات کے متاثرین کو سکھ مخالف فسادات کے متاثرین کی طرح معاوضہ دیا جائے ۔ مولانا محمود مدنی نے صاف طور پر کہا ہے کہ 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے سکھوں کا قتل عام ہوا تھا اور حالیہ دہلی فساد سی اے اے کے خلاف جمہوری طریقے پر احتجاج کو کچلنے کے لیے مسلمانوں کو فساد میں جھونک دیا گیا۔ انہوں نے سکھ مخالف فسادسے بھی زیادہ سنگین اور خطرناک فساد قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دہلی فسادات کے متاثرین کو بھی سکھوں کی طرح معاوضہ دیا جائے ۔
دہلی فساد کے حوالے سے حکومت کے اشارے پر کچھ دانشور بھی فرضی رپورٹ تیارکررہے ہیں اور نئی نئی اصطلاحات وضع کررہے ہیں ،یہ اس ملک کے لیے خطرناک ہے ۔ اربن نکسل واد، جہادی، خان مارکیٹ والے، ٹکڑے ٹکڑے گینگ، لیفٹسٹ جہادی ،جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے ہم ملک کو تاریک راہوں کی اندھیری گلی میں لے جارہے ہیں اور فی زمانہ یہ اصطلاحات فرضی ضرور ہیں لیکن یہی صورتحال رہی تو پھر یہ حقیقی روپ اختیار کرلیں گے ، جو نہ ملک کے لیے اچھا ہوگا اور نہ یہاں کے دانشوروں کے لیے ۔ میرا ماننا ہے کہ دہلی فسادکے حوالے سے ہر اس کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے جہاں غیرجانبداری کے ساتھ انصاف کی بالادستی ہو ، مظلومیں کی داد رسی کی جائے ، انہیں معاوضہ دے کر ان کے غم کو ہلکا کیا جائے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)