مشرف عالم ذوقی
(جھوٹ اور خوف کے ماحول میں پرشانت بھوشن نے وہ کر دکھایا ، کہ آج ادبی خاکوں کے تسلسل میں مجھے پرشانت کو شامل کرنا پڑا)
اس نے خود کو اسفنج کی طرح نرم رکھا . اور اس کی ہتھیلیوں میں ماچس کی ایک تیلی تھی ، جس سے وہ کھیل رہا تھا ۔
ہم چاہتے ہیں کہ تم جھوٹ بولو
— نہیں
ہم چاہتے ہیں کہ تم سچ سے انکار کرو
— نہیں
ہم تمہیں تین دن کا موقع دینا چاہتے ہیں
— نہیں
ایوان میں خاموشی . اس کے چہرے پر تیج ہے .وقار ہے، سنجیدگی ہے اور اس وقت اس کی موجودگی غنیمت ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے ۔ سچ جو ہمارے ادیب نہیں بولتے، سچ جو ادب نہیں بنتا، سچ ، جو صرف ایک تصور رہ گیا ہے ۔ وہ کہتا ہے اسے حراست میں لیا جائے، جواب ملتا ہے ، ہم تمہیں موقع دینا چاہتے ہیں، وہ کہتا ہے ، موقع کی ضرورت نہیں ۔
میں حیران ہوں، کیا میں برنارڈ شا ، شیکسپئر کا کویی ڈرامہ دیکھ رہا ہوں، کیا اس انداز کے ڈرامے آج بھی تحریر ہو سکتے ہیں، وہ سقراط کے انداز میں کھڑا ہے اور کہتا ہے ، مجھے زہر کا پیالہ دے دو ، ایتھنس کی گلیوں میں دہشت ہے ، سقراط نے زہر پی لیا ، وہ زہر پینے کو بیتاب ہے ، اور آج جب سچ کی آہٹ دور چلی گیی ہے ، نا امیدی کا طوفان سب کو بہا لے گیا ہے ، نازی فوج کھڑی ہے ، ڈیٹینشن سینٹر کے دروازے کھل گئے ہیں ، سچ جھوٹ بن چکا ہے ۔ نصاب کی کتابوں سے بھی سچ عنقا ہو چکا ہے ، تنظیموں پر نظر ہے ، ہر محکمہ جادوگر کا محکمہ ہے ۔ جارج آرویل بیہوش پڑا ہے ، اس کا اینیمل فارم اداس ہے ، اس کے ٹھاٹ پولیس کے ممبران مر چکے ہیں اور نئی اب و ہوا میں زیادہ طاقتور بن کر ابھرے ہیں ، وہ ایک ماچس کی تیلی لیتا ہے جسے بلراج میں رہ بھی نہیں کھوج سکے تھے ۔ منٹو جس کی چاہت لئے بیالیس برس کی عمر میں چلا گیا ، کرشن چندر نے جس کی تلاش میں گدھوں سے ملاقات کی اور راما نند ساگر نے کہا ، انسان مر گیا … اس نے ماچس سے تیلی نکالی ، جوتے کے تلوں سے بجھا دی مگر آگ بھڑک اٹھی ، آتش فشاں کا لاوا پھوٹا … اس سے کہا گیا ، جھوٹ بولو ، وہ سچ پر قائم رہا ، اس نے دوبارہ ماچس کی تیلی جلائی اور پاؤں سے بجھا دی اور خاموش رہ کر اس نے بتایا کہ ایک دن مسولینی مر گیا تھا ، ایک دن ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی ، ایک دن چنگیز مارا گیا ، ایک دن ہلاکو اپنے ہی گھوڑے سے زخمی ہوا اور مر گیا ، ایک دن سکندر بھی چلا گیا …
میں اسے اب بھی ماچس کی تیلی جلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔
وہ ادب کی دنیا کا نہیں ہے ، مگر میں حیران اس لئے ہوں کہ اس وقت وہ مکمل ادب کا ترجمان بن گیا ہے ۔ گہرے ، فلسفیانہ ، سنجیدہ ادب کا ترجمان ، وہ تذبذب یا اضطراب کی لہروں کے درمیاں نہیں ہے … اس کے بال گھنے ہیں ، چہرے پر آگ کی آنچ تک نہیں ، قد میانہ ، مگر وہ پر سکوں ہے ۔ وہ لوگ پر سکوں نہیں ہیں جو اسے چٹانوں سے دھکا دینا چاہتے ہیں … وہ بہت نرم دل ہے … وہ آہستگی سے پوچھتا ہے … تم نے جولیس سیزر پڑھا ہے … اہ جولیس کے جانے کے بعد قلو پطرہ بھی چلی گئی ، کوئی زندہ کب رہتا ہے ، مگر — سچ زندہ رہتا ہے … یہیں کہیں بوسیدہ حویلیوں میں ، گپھاؤں میں ، کھنڈرات میں … ایک دن ایوانوں میں بھی زندہ ہو جائے گا … وہ اس وقت بھی ماچس کی تیلی جلا رہا تھا جب جب سیاہ قانون نے دستک دی … شہریت کو بچانے ، آشیانے کو محفوظ رکھنے کی باری تھی ، ملک کے دانشور اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس لئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ کچھ آشیانے جل رہے تھے ، مٹی کا ٹکرا محفوظ نہیں تھا … وہ تیلی جلا کر دیکھ چکا تھا کہ جمہوریت اور آئین کا خاتمہ ہوا تو زندگی مشکل ہو جائے گی ، فرانس کا انقلاب اسے آواز دے رہا تھا ، اندھیرا تھا ، مگر وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا ، اس نے جان لیا تھا ، خاموشی جرم بھی ہے سزا بھی ۔
فرانس میں کبھی بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے ، اپنا عدالتی نظام تھا ، ہر شعبے پر حکومت تھی ، عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا ، فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دئیے تھے ۔ دولت مند تاجر منصبوں اور عہدوں کو خریدتے تھے ۔ اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں ، جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے ، رشوت خوری کا بازار گرم تھا ۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ، فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا ، روزگار ختم کر ڈالے ، معیشت کی کمر ٹوٹ گئی ، ملک ہزاروں برس پیچھے چلا گیا اور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی ، فرانس کا بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور ” ورسائی “ کے محل میں رہتا تھا ۔ اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے ۔ شاہی اصطبل میں انیس سو گھوڑے تھے ، جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اور باورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا ۔ فرانس بھی دیوالیہ تھا ، وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے ۔ فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصور لوگوں سے بھرے پڑے تھے … فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گئی ۔ 14جولائی 1789کا دن ، انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔ پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس بار اس نے تیلی نہیں جلائی ، صرف سوچا ، انقلاب سچ سے ہی آئے گا ، کبھی حکمران انگریز تھے اب رنگ بدلے ہوئے مہرے ، فرق کچھ بھی نہیں ، پہلے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنا تھا اب مہروں سے آزاد کرنا ہے ۔
کاش ایک سگریٹ مل جاتی ! افسوس ، وہ سگریٹ نہیں پیتا ، شیکسپئر اور برنارڈ شا کو ضرور پڑھتا ہے ۔
وہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ہے ۔ وہ بدعنوانی ، خاص طور پر عدلیہ کی بدعنوانی کے خلاف اپنے احتجاج کے لئے جانا جاتا ہے ۔ وہ انا ہزارے کے ذریعہ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد میں اپنی ٹیم کا کلیدی حلیف رہا ہے ۔ اس نے اروند کیجریوال اور کرن بیدی کے ساتھ حکومت کی بات چیت میں سول سوسائٹی کی وکالت کی تھی ۔ جی سپیکٹرم گھوٹالہ کا مکیس سپریم کورٹ میں لڑا تھا ۔ وکالت کے دوران اس نے عوام کی جانب سے 500 سے زیادہ مقدمات لڑے ہیں ۔ وہ شفاف سیاست اور امن و امان کی وکالت کرتا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ ملک کا قانونی ڈھانچہ بدعنوانی سے پاک اور شفاف ہونا چاہئے ۔
وہ مشہور وکیل شانتی بھوشن کا بیٹا ہے ، اس نے پرنسٹن یونیورسٹی سے معاشیات اور پھر فلسفہ کی تعلیم حاصل کی پھر ماچس لے کر ہندوستان آ گیا ، جہاں اس نے الہ آباد یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ اس نے پھر تیلی جلائی اور دعویٰ کیا کہ چودہ چیف ججز نصف کرپٹ ہیں ، وہ مسلسل سچ بول رہا ہے اور عذاب سے دوچار ہے ۔
اس بار اس نے دیر تک تیلی کو جلائے رکھا ، اسے یقین ہے کہ کچھ دروازے کھلے ہیں ، کچھ اور کھل سکتے ہیں ۔
اسے یقین ہے کہ سقراط اس کے اس پاس ہے ۔
اسے یقین ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر خاموش نہیں رہا جا سکتا …
اسے یقین ہے کہ گھومتا پھرتا رقص دکھاتا ہوا سورج کبھی کبھی نصف صدی میں اپنے آس پاس مندراتے کیڑوں جیسے تاریک سیارے کو ضرور نگل جاتا ہوگا ۔
اس نے بالوں میں انگلیاں لہرائیں ، وہ مطمئن ہے ، یہ تین دن بھی گزر جائیں گے ۔