خبر در خبر (647)
شمس تبریز قاسمی
ٹی وی چینل آن کیجئے تو صرف ایک مدعا نظر آئے گا ۔ شسانت سنگھ اور ریا چکر ورتی ۔ دن بھر مہینوں سے یہی چل رہاہے چینلوں پر ۔ یہ دیکھ کر کئی باردل میں خیال آتاہے کہ شاید ابھی دیش میں کوئی اور موضوع اور ایشو ہی نہیں ہے اس لئے وٹی وی چینلوں پر یہی سب دیکھا جارہا ہے لیکن اب یہ خیال زیادہ مضبوط ہوگیا ہے کہ دیش کے حقیقی مسائل ان چینلوں پر بتائے ہی نہیں جاتے ہیں ۔ آج خبر در خبر میں ایسے ہی دیش کے پانچ مسائل کا ذکر کریں گے جو بہت اہم ہیں ۔ جن پر ڈبیٹ ضروری ہے ۔ چرچا ہونا وقت کا تقاضا ہے لیکن میڈیا اس پر خاموش ہے ۔اگر ڈبیٹ میں کوئی یہ موضوع اٹھاتا ہے تو اسے باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے ۔ پچھلے دنوں ٹائمس نو کے ایک شو میں سومی رمن نام کے تجزیہ نگار نے کہاکہ آج جی ڈی پی کی تازہ رپوٹ آئی ہے جس ملک کی معیشت مائنس 23 فیصد ہوگئی اور آپ اب بھی یہی شسانت اور ریاچکرورتی پر ڈبیٹ کررہے ہیں جو واہیات اور بکواس ہے ۔ ٹائمس کے ایڈیٹر ان چیف اور شو کے اینکر راہل شیو شنکر نے انہیں کہاکہ آپ چلے جائیں یہاں سے ۔ ڈبیٹ میں آپ کی کوئی ضرروت نہیں ہے ۔
موضوع نمبر :1
بھارت کی معیشت بدترین صورت حال سے دوچار ہے ۔ جی ڈی پی مائنس 23 فصد پر پہونچ گئی ہے جو آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ جی ڈی پی سے کسی بھی ملک کی معیشت اور اکنامک کا پتہ چلتاہے ۔ جی ڈی پی میں گرواٹ ملک کو دیوالیہ بنادیتی ہے اور بھارت کی جی ڈ پی لگاتار کم ہوتے ہوتے مائنس 23 پر پہونچ گئی ہے ۔ لوگوں کی جاب ختم ہوتی جارہی ہے ۔ سرکاری ملازمین کو بھی مقررہ وقت سے پہلے سرکار نے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ روزانہ 16 بے روزگار افراد اور 113 کسان خود کشی کررہے ہیں۔ میڈیا میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
موضوع نمبر :2
جی ای ای یعنی جوانئٹ انٹرینس ایگزام اور این ای ای ٹی یعنی نیشنل ایلجیبلٹی اینٹرنس ٹیسٹ ۔ یہ دونوں بھارت کا سب سے بڑا ٹیسٹ ہے جس میں لاکھوں اسٹوڈینٹس شرکت کرتے ہیں ۔ جی ای ای اینجریننگ کا سب سے بڑا ایگزام ہے جس میں تقریباً 11 لاکھ اسٹوڈینٹ شریک ہورہے ہیں اور نیٹ میڈیکل کا سب سے بڑا ایگزام ہوتاہے جس میں اس سال 17 لاکھ اسٹوڈینٹس شرکت کررہے ہیں ۔کرونا وائرس کی وجہ سے بھارت میں سب کچھ بندکردیئے گئے ۔ ابھی تک ٹرینوں کی سروس بندہے ۔ بہت سارے صوبوں میں ٹرانسپورٹ بندہے ۔ اسکول اور کالجز تو سبھی جگہ ابھی تک بند ہیں ۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں اسٹوڈینٹس کو امتحان دینے پر سرکار مجبور کررہی ہے ۔ اسٹوڈینٹ کی زندگی کو خطرہ میں ڈالا جارہا ہے ۔ امتحان سینٹر جانے کیلئے کم از کم تین سو چار سو کیلومیٹر کا سفر اسٹوڈینٹس کو کرنا پڑ رہا ہے۔ کرونا کے روزانہ بڑھتے کیسوں نے معاملے کو اور سنگین بنا دیا ہے لیکن سرکار کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور اس مسئلے پر میڈیا میں کوئی چرچا نہیں ہے ۔ ٹی وی چینلز خاموش ہیں ۔ ان کے یہاں چرچا ہے صرف شسانست سنگھ اور یاچکرو رتی کا ۔
موضوع نمبر: 3
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپوٹ کے مطابق 40 کڑرو لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اپریل 2020 سے جولائی 2020 کے بیچ 2 کروڑ لوگوں کی نوکریاں گئی ہیں اور پورے لاک ڈاؤن میں دس کروڑ لوگوں کی نوکریا ختم ہوئی ہیں ۔ کر
ملک میں نئی بحال نہیں ہورہے ہی ۔ کئی سال ہوگئے اپلیشکن دیئے ہوئے لیکن انہیں جاب نہیں ملی ہے ۔2017 ایس ایس سی سی جی ایل کی بھرتیوں میں ابھی تک تقرری نہیں ہوئی۔ 2018، سی جی ایل امتحان کا نتیجہ ابھی تک نہیں آیا۔ 2019، سی جی ایل کا امتحان ہی نہیں ہوا۔ 2020، ایس ایس سی سی جی ایل کی بھرتیاں نکالی ہی نہیں “ کہیں بھرتی کیلئے اعلان نکلا تو امتحان نہیں، امتحان ہوا تو نتیجہ نہیں اور نتیجہ آیا تو تقرری نہیں۔ پرائیوٹ سیکٹر میں چھٹنی اور سرکاری بھرتیوں پر تالا لگ رہاہے لیکن میڈیا میں ان خبروں کا کوئی چرچا ہی نہیں ہے ۔
موضوع نمبر: 4
جمہوری ملک میں سوال کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت سے سوال پوچھنا ہوتا ہے ۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکارسے سوال پوچھے ۔ اکٹیوسٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکار سے سوال کرے لیکن بھارت میں سوال کرنے پر ہی پابندی لگادی گئی ہے ۔ میڈیا پچھلے چھ سالوں سے سرکار کے بجائے اپوزیشن سے ہی سوال کررہا ہے ۔ ملک میں جاب کم ہے ۔ معیشت خراب ہورہی ہے ۔ چین نے بھارت کی زمین پر قبضہ کرلیاہے ۔ کرائم بڑھ رہاہے لیکن ان سبھی کیلئے سوال ہورہا ہے کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں سے ۔ پارلیمنٹ ایک جگہ بچی تھی سوال کرنے کی ۔ ایم پی وہاں سوال کرتے تھے ۔ جنتا کے مدعوں کو اٹھاتے تھے ۔ دیش کے حقیقی ا یشوز پر بات کرتے تھے ۔ حکومت نے پارلیمنٹ کے سیشن سے سوال و جواب کا سیشن ہی ختم کردیا ہے ۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ 14 ستمبر سے پارلیمنٹ کا مانسون سیشن شروع ہورہاہے ۔ 1 اکتوبر تک یہ سیشن چلے گا لیکن اس میں ممبران پارلیمنٹ کو سوال کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا ۔ اس کے علاوہ اسپیکر نے زیر آور کو بھی کم کردیا ہے ۔
یہ ایک گمبھیر معاملہ ہے ۔ لیکن اس پر کوئی چرچا نہیں ہے ۔ میڈیا میں ا س ایشو پر کوئی ڈبیٹ اور بحث نہیں کی جارہی ے ۔
موضوع نمبر : 5
کرونا وائرس کی چپیٹ میں پوری طرح پورا ملک آگیاہے ۔ اب روزانہ 80 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آرہے ہیں ۔ بھارت دنیا کاپہلا مک ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں روزانہ نئے کرونا کے مریض سامنے آرہے ہیں ۔اب تک 40لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں ۔تقریباً 64 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے ۔لیکن بھارت سرکار اس سے بچاؤ کیلئے اب کوئی اقدام نہیں کررہی ہے ۔ جب ملک میں کیس نہ کے برابر تھا اس وقت کمپلیٹ لاک ڈاؤن لگایا ۔ میڈیا میں دن رات اسی کا چرچار رہا۔ میڈیا اور سرکار دونوں نے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا دیا اور اب اتنی بڑی تعداد میں کیس سامنے آرہا ہے تو یہ خبر بے معنی ہوگئی ہے ۔ کرونا کا علاج بھی بہت مہنگا ہوگیاہے ۔ ایک غریب اور میڈیل فیملی کیلئے کرونا کا علاج تقریبا ناممکن ہوگیا ہے ۔ دہلی میں سرکار نے فری پلازمہ دینے کا اعلان کر رکھاہے لیکن لینے جائیے تو کہا جائے گا کہ پہلے آپ ایک ڈونر کو تلاش کرکے لائیں ۔ و ہ ڈو نیٹ کرے گا تب پلازمہ دیا جائے گا ۔ جب تک پلازمہ کیلئے کروناسے صحت یاب ہوئے مریض کو آپ تلاش کریں گے اس وقت تک آپ کا مریض سنگین صورت حال سے دوچار ہوجائے گاکبھی کبھی موت ہوجاتی ہے لیکن پلازمہ نہیں مل پاتاہے ۔ میڈیا میں ان امور کا اب کوئی چرچا نہیں ہے ۔ سرکار کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔
ان پانچ موضوعات کے علاوہ اور بھی کئی اہم ایشوز ہیں لیکن میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینلوں میں ان سب باتوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ این ڈی ٹی وی واحد چینل ہے جہاں ان بنیادی ایشوز کو اٹھایا جارہا ہے ۔ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا اکاﺅنٹ کے تھرو ہم جیسے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ایسے مدعوں کو اٹھائیں ۔ جن ایشوز کو میڈیا کے ذریعہ چھپایا جاتا ہے وہ آپ تک ہم لیکر آئیں ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com