شرجیل امام کا آئی آئی ٹی ممبئی سے جے این یو تک کا سفر

تحریر: ویوبھ سارٹے/جینت تدیناد

ایک دبلا پتلا سا انسان جس کے چہرے پہ داڑھی اور جسم پر معمولی کرتا اور پائجامہ اس طرح ہوتا کہ جیسے وہ اس کے نحیف جسم پر لٹک رہا ہو لیکن جب وہ چلتا تو سر کو ہمیشہ اونچا کرکے چلتا،کچھ اس انداز میں شرجیل امام آئی آئی ٹی ممبئی کے ہاسٹل نمبر چار میں رہتا تھا، وہ ہمیشہ ہی حرکت میں دکھتا اور اگر کبھی کوئی اس کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرتے ہوئے کوئی سوال پوچھتا تو شرجیل کے ساتھ ایک معمولی سی بات بھی تاریخی حقائق و واقعات کی شکل اختیار کرلیتی۔

گراؤنڈ فلور میں واقع اس کا کمرہ کتاب، تاریخ، سیاست، قوالی، شعر و شاعری، زبان و ادب، ویڈیو گیم، میڈیا اور کمپیوٹر میں تھوڑی سی بھی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک بیٹھک گاہ تھا،دن میں ہر وقت اس کے کمرہ کے باہر آدھے درجن چپل اور جوتے پڑے رہتے اور کمرہ میں کوئی کمپیوٹر سے چپک کر ڈوٹا کھیل رہا ہوتا تو کوئی گٹار بجا رہا ہوتا، تو کوئی گانا بجارہا ہوتا اور کوئی پڑھنے میں مشغول ہوتا، وہ بڑا نرم دل، ملنسار اور کمرہ میں آنے والے تمام دوستوں کا بڑا خیال رکھنے والا تھا۔

شرجیل اور کمپیوٹر سائنس

گریجویشن کے نئے طلبہ کے لئے کمپیوٹر پروگرامنگ میں تعارفی کورس-CS101 ایک مشکل موضوع تھا،یہ اس لئے مشکل نہیں تھا کہ ++ C ایک مشکل پروگرامنگ زبان ہے یا امتحانات میں چیلنجز تھے بلکہ یہ مشکل اس لئے تھا کہ ہم میں سے بیشتر لوگ چھوٹے چھوٹے شہروں سے آئے تھے اور دوہزار چھ سے پہلے کمپیوٹر تک ان کی رسائی کبھی نہیں ہوئی تھی۔

بیشتر طلبہ کے لئے تین گھنٹے کے لیب سیشن میں حل کئے جانے والے حقیقی کوڈنگ کے مسئلہ کے مقابلے لنکس ٹرمینل کو نیویگیٹ کرنا زیادہ مشکل تھا، لیکن شرجیل نے لنکس ٹرمینل کو بھت ہی آسانی سے کر دکھایا، وہ اپنا کام مکمل کرتا اور اسے ایک گھنٹہ کے اندر اندر جمع کردیتا اور پورے دو گھنٹے دوسروں کی مدد کرنے میں گزار دیتا۔

پروگرامنگ کی زبان فطری اور انسانی زبانوں کے مقابلے مشکل اور تکنیکی ہوتی ہے، یہ زبان کمپیوٹر کی ہدایات کو پڑھتی اور پھر ان ہدایتوں کو بیان کرتی ہے، کوڈ سیکھنے والے لوگ عام طور پر کوڈ میں غلطیوں کو کھوجنے کے لئے پروگرام کی تعمیل کرتے ہیں،نئے طلبہ کے لئے بغیر کسی غلطی کے تمام سیمی کولن، بریکیٹ اور میمری ایلوکیشن کو پہلی ہی کوشش میں حاصل کرنا ایک مشکل عمل ہے،حالانکہ شرجیل میں کوڈ کی تعمیل کئے بغیر پڑھنے اور بگس کا پتہ لگانے کی زبردست صلاحیت تھی۔

وہ اپنی اس صلاحیت کو پٹنہ کے اپنے ہائی اسکول کے دنوں کا مرہون منت مانتے ہیں، جہاں انہوں نے پڑوس کے انٹرنیٹ کیفے کو پچاس روپیہ ماہانہ کے حساب سے جوائن کیا تھا، شرجیل کو کیفے کے آس پاس کمپیوٹر پروگرامنگ پر کچھ کتابیں پڑی ملیں، یہ کتابیں ان طلبہ کی تھیں جو کمپیوٹر ایلوکیشن کی پڑھائی کر رہے تھے، کچھ ہی دنوں کے اندر اندر شرجیل نے پروگرامنگ پر پکڑ بنا لی اور بالآخر کمپیوٹر اپلیکیشن کے طلبہ اور کیفے کے مالک کو پڑھانا شروع کر دیا جو کے عمر میں ان سے بڑے تھے اور اس کے بدلے کیفے کا بلامعاوضہ وہ فائدہ بھی اٹھانے لگے۔

ایک پروگرام کی شکل میں CS101 اس کے سفر کی بس ایک شروعات تھی،کالج کے اپنے پہلے سال میں انہوں نے آئی آئی ٹی ممبئی ٹیک فیسٹ-کوڈاتھلان میں حصہ لیا تھا جوکہ ایک سالانہ کوڈنگ مقابلہ ہے اور جو پورے ملک سے حصہ لینے والے طلبہ کو اپنی جانب کھینچتا ہے میں اس کی ٹیم دوسرے نمبر پر آئی تھی، اور اگلے سال انہوں نے پھر سے اس مقابلہ میں حصہ لیا،اور اس بار وہ اول مقام پر آئے،خیال رہے کہ اس مقابلے میں چار راؤنڈ ہوتے ہیں، لاجک ریورسنگ، نیٹورکنگ اور ہیکنگ۔

شرجیل اوپن سورس مومینٹ کا فلسفی اور فطرت کا عاشق تھا، اس نے کئی دوستوں کے ذاتی لیپ ٹاپ میں ونڈوز کے ساتھ ساتھ لینکس لگا رکھا تھا، شرجیل کے تعلق سے یہ مذاق درست ہے۔

Https://xkcd.com/456

وہ تکنیکی محاذ کا ماہر تو تھا ہی،لیکن ہیومینیٹیز اس کا حقیقی عشق تھا، اردو ہندی اور انگلش کے علاوہ انہوں نے انٹرنیٹ سے فارسی اور جرمن کتابوں کو لکھنا اور پڑھنا سیکھا کیونکہ وہ اپنے پسندیدہ شاعروں اور فلسفیوں کے کاموں کو ان ہی کی زبانوں میں پڑھنا چاہتے تھے، بعد میں انہوں نے جے این یو میں ایم فل کرتے ہوئے عربی اور بنگالی کو بھی اس فہرست میں داخل کر لیا۔

ان کا کمرہ کئی زبانوں کے شاعروں کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، فیض، غالب، رومی اور پاش وغیرہ کو انہوں نے بھت جلدی سیکھ کر پڑھا اور اپنے کمرہ میں آنے والے دوستوں کو اطمینان سے سمجایا، اضافی وقتوں میں وہ نتشے، وٹجسٹن، کانٹ اور دیگر لوگوں کو پڑھنے میں گزارتے جنہوں نے مغربی فلسفہ کو بلکل بدل دیا اور اس کی توسیع کی۔

کالج کے اپنے تیسرے سال کے بعد انہوں نے ڈنمارک کے کوپینہیگن کی آئی ٹی یونیورسٹی میں سمر انٹرنشپ حاصل کیا جہاں انہوں نے “بنانا الجبرا” میں تجرباتی توسیع میں تعاون دیا، کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ میں اپنے ماسٹر کے تھیسس کے لئے انہوں نے ایک ایسے خودکار طریقہ کار کو ترقی دی جس کا کام وسیلہ اور مناسب پروگراموں کی برابری اور اسی طرح جی سی سی کی درستگی کو چیک کرنا ہوتا ہے۔

ایک انجینئر اور تاریخ داں کے طور پر سفر

آئی آئی ٹی ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کرنے کے بعد وہ جونیپر نیٹورکس میں شامل ہونے کے لئے بنگلور چلے گئے، جہاں انہوں نے کچھ سالوں تک جونوس آپریٹنگ سسٹم پر ایک ڈیولپر کے طور پر کام کیا جس کے بعد انہوں نے تاریخ میں جے این یو سے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے آئی ٹی میں کاپریٹ کرئیر کی سہولت اور راحت و آرام کو چھوڑ دیا لیکن انہوں نے کبھی بھی سافٹ وئیر انجینئر بننا نہیں چھوڑا، انہوں نے اپنی معاشی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک آزاد ڈیولپر کے طور پر کام کرنا جاری رکھا، نومبر2014 میں اپنے والد کو کینسر کی وجہ سے کھونے کے بعد ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔

انہوں نے تین سالوں تک ایک یورپی گاہک کے لئے کئی ویپ ایپ AI/ML ماڈل اور کئی اسٹارٹ اپ کے لئے پروڈکٹ فیچر بنائے، جس سے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم پر خرچ کیا، جب تک انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تب تک ان کی فیملی کی معاشی ضرورتوں میں ان کا اہم تعاون تھا۔

اپنی تاریخ کی تحقیق کے موضوع پر1946 کے بہار میں ہوئے فرقہ وارانہ حملے اور فساد کے واقعات کی تجدید کے لئے نئی دہلی کے نیشنل آرکائیو اور پٹنہ کے ریاستی آرکائیو میں اخبارات، کتابوں اور سرکاری روابط کے ذرائع کو سمجھنے کے لئے مہینوں وقت بتایا۔

شرجیل کو فارسی،اردو اور بنگالی زبانوں کا علم تھا وہ صرف انگلش زبان کی رپورٹوں اور اس زمانے کے تراجم پر بھروسہ کرنے کے بجائے دیگر ذرائع کے وسیع مواد تک رسائی رکھتے تھے۔

2017 سے 19 تک ریختہ کے ساتھ تعاون

شرجیل ریختہ آرگنائزیشن کے ساتھ اپنے تعاون کو لے کر بیحد پرجوش تھے، یہ ان کی تمام دلچسپیوں، زبان وادب، شعر و شاعری اور کمپیوٹر سائنس کا مجموعہ تھا، انہوں نے شاعری کو سماجی علوم، کمپیوٹر سائنس اور ادب کے باہمی ربط کے طور پر دیکھا، شرجیل نے ہندوستانی زبانوں کے لئے اچھے این ایل پی اور وسائل کی کمی کے بارے میں افسوس ظاہر کیا اور اپنی تحقیق کی سطح کو مزید بہتر بنانے کے لئے کمپیوٹر کی کئی تکنیک کو شامل کیا۔

کیونکہ اردو زبان کے لیے او سی آر ٹول نہیں تھا، اس لئے انہوں نے ایک عربی او سی آر ٹول کو ریورس انجینئر کیا اور اسے اردو کے لئے کام کے قابل بنایا تاکہ وہ ہزاروں اسکین کئے گئے اردو کے دستاویزات کو بڑے پیمانے پر ڈیجیٹلائز کر سکیں۔

انہوں نے ایک ماسٹر ڈکشنری میں کئی اردو ہندی اور انگریزی لغات کا سروے اورتجزیہ کر تیار کیا، انہوں نے لغات کے آرکیٹیکچر کو پھر سے تازہ کیا تاکہ اسے اردو سے ہندی اور تلاش کے لئے آسان بنایا جا سکے۔

ریختہ ڈکشنری [https://rekhtadictionary.com/] الفاظ و معانی،تعریفات، تضادات،محاورات،امثال،تلفظ اور استعمال والی ایک سہ لسانی ڈکشنری ہے، جسے شرجیل نے بنانے میں مدد کی ہے۔، یہ آج دنیا میں ہندی، انگریزی اور اردو کی سب سے مشہور اور ترقی یافتہ ڈکشنری ہے۔

شرجیل نے ایک قدم آگے بڑھ کر این ایل پی تکنیک کا استعمال کرکے اسکین کئے گئے دستاویزات کو ترکیب دیا اور جلد ہی اس نے ہزاروں اسکین کئے گئے صفحات اور دستاویزات میں لغت کی تلاش کو آسان بنا دیا،جس سے کسی خاص لفظ کو کچھ ہی سیکنڈ میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے حال ہی میں ایک آرٹیفیشیل انٹیلیجنس پر مبنی ایک آلہ بنایا ہے جو بحر اور ردیف کے ذریعے غزلوں کی درجہ بندی کرسکتا ہے، اس لئے اگر آپ اپنی پسند کی کسی خواص غزل کا نام درج کرتے ہیں تو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس ماڈل اس بحر میں سیٹ کی گئی دیگر غزلوں کو ظاہر کر سکتا ہے، یا اگر آپ غزل کے پہلے شعر میں داخل ہوتے ہیں تو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس آنے والے دوہوں کی سفارش کرسکتا ہے، اس طرح کسی کے لئے بھی اپنے تکنیکی پیرامیٹر کے ذریعہ پیش کی گئی غزلوں کے بڑے ڈیٹاسیٹ کو تلاش کرنا ممکن ہے۔

شرجیل امام کو سخت یو اے پی اے اور غداری وطن کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، آسام،منی پور، اروناچل پردیش، دہلی اور اترپردیش نے ان کے خلاف یو اے پی اے اور غداری وطن کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں، ان کی تقریر کے ایک حصہ کو غلط سمجھا گیا اور ہندوتوا جماعتوں کے ذریعہ وائرل کر دیا گیا۔

چار اکتوبر کو ضمانت پر سنوائی کے دوران شرجیل امام کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل تنویر احمد میر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ متعلقہ تقریر میں بیسیوں ایسی مثالیں ہیں جہاں شرجیل کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ”فساد کا سہارا نہ لیں، جہاں امن کے ساتھ احتجاج کا حل ہو وہاں پتھر نہ ماریں “

شرجیل کے خلاف یہ معاملہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ سرکار کے ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو اسی طرح روکا اور دبایا جائے گا، یہ کسی بھی طرح کی نااتفاقی کے خلاف ڈر پیدا کرنا ہے، جیسا کہ سینئر ایڈوکیٹ میر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ شرجیل امام پر لگائے گئے بیشتر الزامات صرف سرکار کی ایک طرح سے کاروائی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں،بلکہ شہنشاہ کا یہ چابک ہے۔

(مضمون نگار جینت تدیناد آئی آئی ٹی ممبئی میں شرجیل کے بیچ میٹ اور ویوبھ شرجیل کے جونئیر رہے ہیں، انہوں نے چار سال ایک ہی ہاسٹل میں ساتھ وقت گزارا ہے، ویوبھ فلم ساز اور ایس آر ٹی ایف میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ جینت نے آئی آئی ٹی ممبئی سے ایم ٹیک مکمل کیا ہے)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com