الٰہ آباد ہائی کورٹ احاطہ میں موجود مسجد کو ہٹانے کے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج پیش کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے خارج کرتے ہوئے مسجد کو فوراً وہاں سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مسجد کو ہٹانے کے لیے سنی وقف بورڈ کو تین مہینے کا وقت دیا ہے۔ معاملے میں عرضی دہندہ سنی وقف بورڈ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ ریاستی حکومت کے پاس اپنی بات رکھ سکتا ہے۔!
عرضی میں سنی وقف بورڈ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 2017 کے حکم کو چیلنج پیش کیا تھا جس میں ہائی کورٹ احاطہ سے مسجد کو ہٹانے کے لیے کہا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس سی ٹی روی کمار اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسجد ہٹانے کے لیے سنی وقف بورڈ کو تین مہینے کا وقت دیتے ہوئے عرضی خارج کر دی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ جس زمین پر مسجد بنی ہے وہ وقف بورڈ کی نہیں بلکہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ملکیت ہے۔
اس سے قبل سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش وکیل کپل سبل نے اپنی دلیل میں کہا کہ صرف مسجد دمکل کی گاڑیوں کا راستہ نہیں روک رہی ہے۔ ہائی کورٹ احاطہ میں دوسری بھی تعمیرات ہیں جو دمکل کے راستے میں رخنہ انداز ہوتی ہیں۔ سبل نے معاملے کے عرضی دہندہ کی منشا کو لے کر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ابھشیک شکلا نام کے شخص نے یوگی حکومت بننے کے بعد عرضی داخل کی تھی، جو سوال کھڑے کرتی ہے۔ سبل نے عدالت سے سنی وقف بورڈ کو متبادل زمین مہیا کرانے کی بھی اپیل کی۔
دوسری طرف وقف بورڈ کی طرف سے پیش مزید ایک سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے بھی مسجد کے لیے متبادل زمین مہیا کرانے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ معاملے میں یوپی حکومت کی طرف سے پیش وکیل ایشوریہ بھاٹی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے بغل میں ہی دوسری مسجد موجود ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وقف بورڈ کا کہنا ٹھیک ہے کہ مسجد پر ان کا مالکانہ حق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 2017 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھنے کے سبب 12 ججوں کے پاس بیٹھنے کے لیے اپنے چیمبر تک نہیں ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ انھیں خود چھ ججوں کے ساتھ دفتر شیئر کرنا پڑ رہا ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسجد کے ہائی کورٹ کے احاطہ میں ہونے کے سبب دمکل کی گاڑیوں کو بھی آنے کا راستہ نہیں مل پاتا ہے۔